خواہ ’’’عیاں حرثی علی‘‘ ہندوستان میں زیادہ شہرت حاصل نہ کرسکی ہو مگر برطانیہ اور پورے یورپ میں اس نے اسلام اور مسلم تارکین وطن کے خلاف مسلسل پر تشدد بیانات کے ذریعہ کافی شہرت حاصل کی ہے۔ عیاں حرثی علی یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ یہ مسلمان نیدرلینڈ میں سماجی تناؤ اور کشمکش کا باعث ہیں۔
محترمہ علی کی شخصیت اس وقت اور زیادہ معروف ہوئی جب انھوں نے مسلم عورت پر جاری مبینہ ظلم و ستم پر مبنی ایک کہانی (Submission) لکھی جس پر ایک فلم تیار کی گئی جس میں قرآنی آیات کو برہنہ جسموں پر نقش کیا گیا تھا اور اس کی اسی حرکت کی وجہ سے ایک ’’متعصب‘‘ مسلم نے اس کے ڈائریکٹر کو ۲۰۰۴ء میں ابدی نیند سلادیا تھا۔
مزید شہرت اس وقت ہوئی جب اسی سال وہ نبی کریم ﷺ کے کارٹون چھاپنے کے سلسلے میں ڈچ اخبار کے حق میں سرکار کے سامنے آئیں اور اسلام کے مقابلہ مغربی اقدار کی ترویج و اشاعت کے لیے بے توجہی برتنے کا الزام لگاتے ہوئے یورپی ملکوں کی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
مختصراً یہ کہ صومالیہ میں پیدا ہونے اور ڈنمارک پارلیامنٹ کی ممبر بننے والی حرثی علی کو اسلام میں مسلم عورت پر ہورہے ظلم کے خلاف بہادرانہ جدوجہد کے لیے بہت سراہا گیا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ خود اس ظلم و زیادتی کا شکار ہوئی ہیں۔ ڈنمارک حکومت نے ۱۹۹۲ء میں نیدرلینڈ میں اترتے ہی انہیں اپنے ملک میں ہاتھوں ہاتھ لیا اور دعویٰ کیا کہ وہ صومالیہ سے جبری شادی سے نجات کے لیے بھاگ کر آئی ہے۔
حد تو یہ ہے کہ پانچ سالوں بعد انھیں ڈچ پاسپورٹ بھی مل گیا اور شدت پسند دائیں بازو کی پارٹی ’’VVD‘‘ ان کی مسلم تارکین وطن کے خلاف جاری منطق سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے انہیں تارکین وطن کے خلاف اپنی مہم میں بھر پور استعمال کیا اور ۲۰۰۳ء میں وہ اس پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوگئیں۔ لیکن گذشتہ ہفتہ حقائق سے پردہ اٹھنا اس وقت شروع ہوا جب اس ۳۶ سالہ کرشماتی عوامی لیڈر پر ڈچ ٹی وی نے ایک دستاویزی فلم نشر کی جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ یہ سب کچھ ان کی اپنی تراشیدہ کہانی تھی جوصرف اس لیے بنائی گئی تھی کہ وہ نیدر لینڈ میں پناہ حاصل کرسکیں، اس دستاویزی فلم کے بعد اٹھے میڈیا کے طوفان کو دیکھ کر ان کی پارٹی نے بھی ان سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور انھیں چھوڑ دینے کی تیاری کرلی ہے۔ محترمہ حرثی علی نے اپنی شہرت معطل ہونے سے پہلے ہی یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ ایک NEO-CONپالیسی سازادارے کے ساتھ کام کرنے کے لیے امریکہ جارہی ہیں۔ دستاویز کے مطابق جو ان کے خاندانی لوگوں سے ملاقات اور انٹرویوز پر مشتمل ہے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ محترمہ علی کی پوری کہانی جھوٹ کے سلسلہ پر مبنی ہے۔ جس میں ان کے نام کا معاملہ بھی شامل ہے جس کو انھوں عیان حرثی مگان سے بدل کر عیان حرثی کر رکھا ہے اور اس میں ان کی تاریخ پیدائش اور سال پیدائش میں تبدیلی بھی شامل ہے۔ سب سے زیادہ تعجب خیز بات اور ان کی شخصیت کو نقصان پہنچانے والی بات اس حقیقت کا انکشاف ہے کہ وہ خود ایک جبری شادی میں ملوث تھیں اور اس سلسلہ میں ان پر عدالتی کارروائی بھی ہوئی تھی۔
دستاویز میں ان کے اہلِ خانہ کے بیانات ہیں، میں ان کے بھائی کا بیان ہے جس کے مطابق وہ نیدر لینڈ آنے سے پہلے کینیا میں قیام پذیر تھیں۔ ان کی شادی ایک صومالی سے ہوئی تھی جو اس وقت کینیڈا میں مقیم ہے۔یہ شادی ان کی مرضی اور رضا سے ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ دونوں اپنی خوشی سے ایک دوسرے سے الگ ہوئے ہیں۔ دستاویز جو حقائق ہمارے سامنے پیش کرتی ہے اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ کینیا میں ایک متوسط درجہ کے وسیع، کشادہ اور آرام دہ مکان میں رہتی تھیں جہاں ہر طرح کا عیش و آرام میسر تھا اور یہ حقیقت ان کے بیان کردہ افسانوی حالات سے یکسر مختلف ہے۔
زیمبلہ ٹی وی پر جس نے دستاویزی فلم نشر کی تھی محترمہ علی نے ایک انٹرویو میں یہ بات تسلیم کی کہ انھوں نے جھوٹ بولا ہے۔ لیکن اس بات کو قبول کرنے سے انکار کردیا کہ انھوں نے اسلام کی شبیہ کو برباد کرنے کی مہم چلائی تھی اور اسلام کے سلسلہ میں پلٹ کر سوال کیا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے کیا وہ محض پاگل پن ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ ’’ہاں۔‘‘ میں نے ہالینڈ میں پناہ حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولا تھا۔ اور یہ بات تمام لوگو ںکو ۲۰۰۲ء سے معلوم ہے۔ لیکن اس کی حکمراں پارٹی اس بات کو نہیں جانتی تھی۔
ڈچ امیگریشن منسٹر ریتاور ڈوبک نے کہا کہ وہ جلد ہی محترمہ علی کے بارے میں چھان بین کا حکم دیں گی اور یہ بھی کہا کہ قانون کی نظر میں تمام لوگ برابر ہیں لہٰذا اس کا خیال ہر ایک کو کرنا ہوگا۔
میڈیا کی رپورٹ کہتی ہے کہ اس انکشاف نے ڈچ سیاسی حلقوں میں افسوس کی ایک لہر دوڑا دی ہے جیسا کہ دی گارڈین اخبار نے لکھا ہے کہ محترمہ علی شدت پسند اسلام کو ترک کرنے کے بعد ملک کے نمایاں سیاسی لیڈروں میں سے ایک ہوگئی تھیں۔ اخبار کہتا ہے کہ مسلم تارکین وطن کے مسئلہ پر سیاسی بحث کے بعد عیان حرثی علی اپنے مسلم خاندانی پس منظر کی وجہ سے جس کا وہ قدم قدم پر ڈھنڈورا پیٹتی تھیں نیدر لینڈ میں ایک نمایاں شخصیت بن کر ابھری تھیں۔‘‘
حالات و واقعات کی یہ پوری زنجیر خاص طور پر شدت پسند پارٹی VVDکے لیے نہایت ذلت آمیز ہے جس کا امتیاز ہی مسلم تارکین وطن کے خلاف شدت پسندی کا رویہ تھا۔ اس کاکہنا ہے کہ جو لوگ پناہ کے خواہش مند ہوں اور مناسب دستاویز نہ پیش کریں، انہیں ملک سے باہر کردیا جائے۔ اور یہ تجویز پیش کی تھی کہ جو پناہ گزیں جھوٹ کے مرتکب ٹھہریں انہیں پاسپورٹ حاصل کرنے سے روک دیا جائے۔
امیگریشن کے مسئلہ پر حرثی علی کے اپنے مفاد کے موقع پرستانہ استعمال کے بعد VVD پارٹی سخت مشکلات میں پڑگئی ہے۔ اور حرثی علی کے سلسلے میں یہ مطالبہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے کہ ان سے شہریت چھین لی جائے اور وہ جہاں سے آئی ہیں (صومالیہ ہو یا کینیا) وہیں واپس بھیج دیا جائے۔ لیکن ان کے ساتھ جو کچھ بھی معاملہ ہو اس سے قطع نظر پورا سلسلہ واقعات یورپ میں پائے جانے والے ماحول کے بارے میں کچھ حقائق کا انکشاف کرتا ہے کہ وہاں تیسری دنیا کے کسی فرد کو اگر سیاسی مقبولیت حاصل کرنی ہو تو اس کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ غیر ملکیوں کو شدت سے ناپسند کرنے کا اعلان کرنے لگے۔
اور اگر وہ ناپسندیدہ لوگ مسلمان ہیں تو ’’اسلاموفوبیا‘‘ کی ایک ’’اچھی خوراک‘‘ وہاں دلکشی پیدا کردیتی ہے جہاں آزاد خیال’ مسلمان حیوان‘ خطرات کے گھیرے میں ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ خوش قسمتی سے وہ تمام حقائق جعلی ثابت ہوجائیں۔