عام طور پر انسان کی زندگی کو متاثر کرنے والی اور بالخصوص خواتین کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والی سب سے بڑی چیز باہمی رویے ہیں۔ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ رویوں کو محسوس کرتی اور جھیلتی ہیں اورپھر انہی رویوں کی بنیاد پر آگے کاطرزِ فکر و عمل طے ہوتا ہے۔ اچھے رویے جہاں ہمیں کامیابی کے زینے چڑھانے، لوگوں کے دل جیتنے اور محبت حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، وہیں برے رویے لوگوں کی نفرت، حسد اور بغض و عداوت فراہم کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ تمام ذہنی بیماریاں اور اخلاقی برائیاں اس کے نتیجے میں آتی ہے۔ ہر طبقے کے افراد اس سے متاثر ہیں۔ آج کل کے دور میں ان برے رویوں کی وجہ سے گھریلو اور خاندانی اختلافات اور ذہنی انتشار۔ وہ سکون جو دلوں میں ہوا کر تا تھا، آج الجھن کی جگہ لے چکا ہے ،وہ خوشیاں جو مل جل کر بیٹھنے سے ملتی تھیں آج کینہ ، حسد اور بغض و عناد میں تبدیل ہوگئی ہیں۔
وجہ؟ بالکل واضح یہ ہے کہ ہم نے ان اخلاقی قدروں کو ترک کردیا ہے جو دلوں کو جوڑنے والی اور محبت پیدا کرنے والی تھیں۔
ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے بھائی سے تبسم اور خوش مزاجی سے ملو، یہ صدقہ ہے۔ جو اپنے لیے پسند کرو وہی دوسروں کے لیے پسند کرو اور کیا ہم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ ہرگز نہیں، مگر ہم غیبت کے ذریعہ دن میں بارہا ایسا کرتے ہیں۔ کیا ہمیں معلوم نہیں کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو۔
دراصل ہم نے اسلام کی ان بنیادی تعلیمات کو ترک کردیا جو بہ ظاہر معمولی نظر آتی ہیں مگر اپنے اثرات کے اعتبار سے غیر معمولی ہیں۔ وہ سماج اور خاندان کے افراد کو جوڑنے والی اور مثبت رویوں کو فروغ دینے والی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں سلام کی تاکید کی گئی ہے۔ اگر ہم سلام کو اپنی عادت بنالیں تو بہت سی منفی سوچوں سے ہم محفوظ ہوجائیں گے۔ ہمیں ہدیہ دینے کی تعلیم دی گئی ہے کہ یہ محبت کے فروغ کا ذریعہ ہے۔ مگر ہم نے اسے بھی اسٹیٹس کا معیار بنالیا اور ہدیہ کی معنویت ختم ہوگئی۔ اب ہدیہ بھی محبت کے بجائے نفرت کے فروغ کا سبب بن گیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنوں سے محبت کے بجائے مادی چیزوں سے پیار کرنے لگے ہیں۔ اپنے خیر خواہوں پر اعتبارچھوڑ کر دوستوں کی طرف منتقل ہو چکا ہے۔ رفیق، حریف اور رقیب کی جگہ پر کھڑا ہے۔ انسانیت خودی اوررشتوں کا احساس جیسی خوبیاںکمزور پڑرہی ہیں۔
ہمارے ان بدلتے رویوں کا ایک سبب سوشل میڈیا اور فلمیں اور ڈرامے بھی ہیں، جو انسانیت کا سبق دینے سے زیادہ جھگڑوں تلخیوں اور اختلافات میں گھرے خاندانوں کے قصے سنانے اور د کھانے میں مصروف ہیں۔ آج ضرورت اس کی ہے کہ ہم سب کی خوشی میں خوش ہوں، کسی کی منفی بات کو نظر انداز کر دیں، نہ کہ اس کا انتقام لینے کے لیے موقع ڈھونڈیں۔ اس سے یقیناً بہت سے منفی ذہن کے لوگ یا تو اپنی اصلاح کر لیں گے ،یا پھر تھک کے بیٹھ جائیں گے۔ رشتے اہم ہیں لہٰذار شتوں کا احساس کریں ان کا خیال رکھیں ۔ یہی آپ کی زندگی کا سرمایہ ہے۔ll
لیے بلیوں کو لڑتا دیکھ کر بندر کی بانچھیں کھل گئیں۔ اس نے حسبِ روایت بلیوں کا انصاف کرنے کے لیے جیسے ہی درخت سے چھلانگ لگانے کی کوشش کی پاس بیٹھے طاقتور بندر نے اُسے ایسا دبوچا کہ بندر چلا اٹھا : ’’چھوڑو، مجھے چھوڑدو، دیکھ نہیں رہے ہو بلیاں روٹی کے لیے آپس میں لڑرہی ہیں، یہ ایک دوسرے کو زخمی کردیں گی، خون خرابا ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے ایک بلی دوسری بلی کو روٹی کے لیے مار ہی ڈالے، مجھے چھوڑ دو۔ ان کا انصاف کرنے دو بھائی۔‘‘
بندر تقریباً چیختے ہوئے زور آزمائی کررہا تھا مگر طاقتور بندر کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ خود کو آزاد نہ کراسکا بالآخر منت سماجت پر اتر آیا۔
’’میرے دوست، میرے رفیق! مجھے چھوڑ دو —،
چھوڑ دو نا میرے بھائی —، چھوڑ دونا!‘‘
بندر گڑگڑانے لگا۔
’’نہیں—!‘‘ طاقتور بندر گرجا۔ ’’اب میں تمہیں روٹی کے لیے لڑنے والی بلیوں کے درمیان انصاف کرنے نہیں جانے دوں گا۔‘‘
طاقتور بندر نے اپنا فیصلہ سنادیا۔
’’کیوں نہیں—!‘‘ بندر جھلا گیا۔ ’’یہ میرا وراثتی حق ہے اور خاندانی پیشہ۔ تم جانتے تو ہو میں اس خاندان کا چشم و چراغ ہوں جس کے ’دانش مند‘ بزرگ نے روٹی کے لیے لڑنے والی بلیوں کے درمیان ’مثالی انصاف‘ کی بنیاد ڈالی تھی، جس پر آج تک بلیوں کے سماج میں سے کسی نے بھی کبھی نہ تو اعتراض کیا اور نہ ہی احتجاج کیا، پھر تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے؟!‘‘
انصاف کے لیے اتاؤلے بندر نے طاقتور بندر کی گرفت سے خود کو آزاد کرانے کی پھر ناکام کوشش کی۔
’’بلیاں بے وقوف ہیں، کم عقل، جاہل، لیکن میں جانتا ہوں تم انصاف کے ترازو کی ڈنڈی مار کر لڑنے والی بلیوں کی روٹی اکیلے ہی ہضم کرجاتے ہو، میرا ضمیر اب یہ برداشت نہیں کرسکتا، اب میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ بالکل نہیں ہونے دوں گا جج کی اولاد—‘‘
طاقتور بندر کی گرج دار آواز سن کر آس پاس کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے بندر اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
درخت کے بندروں کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر طاقتور بندر منجھے ہوئے نیتا کی طرح ان سے مخاطب ہوا: ’’بھائیو، بہنو، میرے ساتھیو! یہ بندر روٹی کے لیے لڑنے والی بلیوں کا انصاف کرنے جارہا ہے، کیا تم اور تمہارا ضمیر اس کے انصاف سے مطمئن ہیں؟! بولو، بھائیو بہنو!‘‘
’’نہیں— بالکل نہیں!‘‘ بندروں نے پُرزور آواز میں طاقتور بندر کی حمایت کا اعلان کردیا۔
طاقتور بندر خوش ہوگیا اور پھر جوش میں بندروں سے بولا ’’بھائیو بہنو! یہ انصاف کے نام پر اپنا پیٹ بھرتا آیا ہے۔ بلیوں کی روٹی خود ہضم کرجاتا ہے، بولو، تم یہ جانتے ہو کہ نہیں جانتے — جانتے ہو کہ نہیں جانتے ، زور سے بولو بھائیو بہنو جانتے ہو کہ نہیں جانتے!‘‘
’’ہاں—، ہم جانتے ہیں، آپ صحیح کہہ رہے ہیں، یہ چالباز ہے۔ آپ سے اپنی گرفت میں رکھیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آج سے آپ ہمارے سردار ہیں۔ ہم آپ پر وشواس کرتے ہیں!‘‘
’’بس بھائیو بہنو! آپ لوگوں کا ساتھ اور آپ کا وشواس چاہیے میں اس بندر کی دھاندلی نہیں چلنے دوں گا— نہیں چلنے دوں گا۔‘‘
’’ہاں —، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘ سارے بندر ایک آواز میں بولے اور پھر نعرے لگانے لگے ’’بندر یونین زندہ باد — زندہ باد۔ انصاف کے نام پر دھاندلی اب نہیں چلے گی — نہیں چلے گی— انقلاب زندہ باد، دھاندلی مردہ باد، سردار زندہ باد— چالباز، مردہ باد—‘‘
زندہ باد، مردہ باد کے نعروں کے شور سے منصف بندر طاقتور بندر کی گرفت میں بوکھلا گیا — مضطرب ہوکر پوچھنے لگا۔
’’میرے ساتھیو! مجھے آپ لوگوں کے ’اجتماعی ضمیر‘ کی تسکین کے لیے کیا کرنا ہوگا بتائیے! میں ویسا ہی کروں گا جیسا آپ کہیں گے۔‘‘
طاقتور بندر نے پہلے نعرے لگانے والے بندروں کو ہاتھ کے اشارے سے خاموش کیا پھر منصف بندر سے بولا: ’’سنو! تم روٹی کے لیے لڑنے والی بلیوں کے پاس منصف بن کر ضرور جاؤ، مگر یاد رکھو ان کی روٹی نہ کھانا بلکہ لڑنے والی بلیوں پر آتنک واد کا لیبل لگا کر دو زنّاٹے دار طمانچے رسید کرکے انھیں بھگا دینا۔ اگر بلیاں طمانچے کھا کر نہ بھاگیں اور تمہیں آنکھیں دکھانے لگیں تو اُن کے ٹیٹوے دبا کر انہیں ہلاک کردینا اور اُن کی روٹی ہمارے لیے لے آنا سمجھے!‘‘ طاقتور بندر نے منصف بندر کو حکم دیا۔
’’ٹھیک ہے سرکار—! میں آپ کا حکم بجالاؤں گا۔‘‘ منصف بندر نے فرمانبرداری میں اپنا سر غلام کی طرح ہلایا۔
اور پھر
طاقتور بندر نے منصف بندر کو بلیوں کی لڑائی کے انصاف کے لیے آزاد کردیا۔