ہمسایہ

ڈاکٹر نصیر احمد ناصر

سوچتا ہوں:
ہمسایہ کے حقوق کو خوش اسلوبی سے ادا کرنا تو فرض ہے، لیکن میں تو حقوق ادا نہیں کرتا۔
اس کا مطلب یہ ہو ا کہ اسلام مجھے مثالی ہمسایہ بنانا چاہتا ہے، مگر میں تو برا ہمسایہ ہوں۔ وجہ یہ ہے کہمیں اپنے ہمسایوں کے دکھ درد میں شریک ہی نہیں ہوتا اور نہ ان کو اپنی خوشیوں میں شریک ہی کرتا ہوں۔ میری سنگدلی کا یہ عالم ہے کہ میں کسی کی عیادت کرتا ہوں نہ تعزیت اور نہ کسی کے جنازے ہی میں شریک ہوتا ہوں۔
ہمسایہ میں کوئی بیمار ہو یا کوئی آرام کررہا ہو یا مطالعہ میں مشغول ہو، ہمارے بچے اودھم مچاتے ہیں اور ان کو دکھ پہنچاتے اور پریشان کرتے ہیں، لیکن میں ان کو ایسا کرنے سے منع نہیں کرتا، بلکہ خاموش تماشائی بنا رہتا ہوں۔ریڈیو کی آواز اتنی تیز رکھتا ہوں کہ ہمسائے تنگ ہیں۔انھوںنے شکایت بھی کی ہے، لیکن میں سنی ان سنی کردیتا ہوں۔میرا لڑکا پڑوس میں تانک جھانک کرتا اور لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے، لیکن میں اسے منع نہیں کرتا۔
سوچتا ہوں:
مجھ سے برا ہمسایہ اور کون ہوگا؟
سچ ہے جو اپنے ہمسایوں کے حقوق ادا نہیں کرتا، وہ ربِ رحمن کا نافرمان اور اس کے بندوں کا دشمن ہوتا ہے، چاہے وہ اپنے آپ کو عابد و زاہد کیوں نہ سمجھتا ہو۔ہمسائے کا تو فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ اس کے پڑوس میں کوئی بھوکا تو نہیں ؟اگر ہو تو اس کی کفالت کرنا اس پر فرض ہوجاتا ہے۔اسی طرح محتاج پڑوسی کی احتیاج پوری کرنا فرض ہے، جوشخص ایسا نہیں کرتا، وہ سچا مؤمن نہیں ہوسکتا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں سچا مومن ہوں نہ اچھا انسان۔میں ظالم و شقی القلب ہوں۔ سوچتا ہوں میرا کیا بنے گا؟قیامت کے دن میرا محاسبہ ہوگا تو کیا جواب دوں گا؟ذلیل و خوار اور مقہور و مغضوب ہوکر جہنم میں پھینکا جاؤں گا۔آتشِ دوزخ کے عذاب سے اللہ بچائے۔وہاں کوئی شفیع ہوگا نہ نصیر و وکیل۔میرا الٰہ و رب مجھ سے پردے میں ہوگا۔ وہ مجھ سے کلام کرے گا نہ میری طرف نظر ہی کرے گا۔یہ کتنی بڑی محرومی ہے، جس کا تصور کرنا بھی از بس دشوار ہے۔
یہ سوچ کر پریشان و پشیمان ہوجاتا ہوں کہ میں بظاہر معزز و مکرم ہوں، مالدار بھی ہوں، لیکن حقیقت میں محروم و ناکام ہوں۔میں اپنے ہمسایوں کو خوش نہ کرسکا تو رب العالمین مجھ سے کیسے خوش ہوسکتا ہے؟’’وہ‘‘ خوش نہ ہو تو زندگی اپنے حسن و سرور سے محروم ہوجاتی ہے۔نفسِ مطمئنہ بننے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کو خوش کرنا ناگزیر ہے، اور یہ نفوسِ مطمئنہ ہی ہیں جو جنت میں جائیں گے۔
سوچتا ہوں:
مجھے اچھا ہمسایہ بننے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ دل کہتا : ’’ہمسایوں سے ایسا سلوک کرو جیسا سلوک تم چاہتے ہو کہ وہ تم سے کریں۔‘‘اس کے لیے مجھے جھوٹی نخوت اور تکبر کو چھوڑنا اور عجز وانکسار اختیار کرنا ہوگا۔ ہمسایوں کو اپنا بھائی سمجھنا اور ان کے آرام کا خیال رکھنا ہوگا۔اُن کے دکھ سکھ میں شریک ہونا اور ان کے کام آنا ہوگا، اس کے لیے سادگی و انکساری کو اپنا شعار ِ زندگی بنانا ہوگا۔
ہمساہیوں سے الگ تھلگ رہنے کا نتیجہ ہے کہ مغرب کے لوگ- مردوزن، بچے اور بوڑھے، بھری دنیا میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں اوراحساسِ تنہائی کے کرب میں مبتلا ہیں۔
اس سے اس امر کی بھی توجیہ ہوجاتی ہے کہ کیوں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسولِ مقبول ﷺ نے ہمسایوں سے حسنِ سلوک کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں میں جو لوگ ہمسایوں، خصوصاً غریب ہمسایوں سے الگ تھلگ رہتے اور ان کے حقوق ادا نہیں کرتے، وہ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان ہیں، اور
اس جرم نافرمانی کی سزاسے اللہ بچائے، اور
ہمیں قرآن و سنتِ حسنہ مطابق مثالی ہمسایہ بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146