یہ واقعہ لکھتے لکھتے ہنسی میرے لبوں کو چھورہی ہے۔ بس ذرا سی بات تھی یہی صرف دو تین گھنٹے کی نشست نے غلط فہمی کا ایسا جال بنا کہ مدتوں تک ہمارے خاندان کے ہر فرد کے لیے یہ معاملہ ہنسی اور افسوس کا موضوع بنا رہا۔ اب بھی جہاں خاندان کے چند لوگ مل بیٹھتے ہیں تو یہ بات دہرا کر ہنستے ہنستے بے حال ہوجاتے ہیں۔
ہوا یوں کہ میرے بڑے تایا ابا جن کی عمر تقریباً ساٹھ سال سے کچھ زیادہ ہی ہوگی اچانک فیصلہ کربیٹھے کے دوسری شادی کریں گے۔ ان کی پہلی بیوی کے انتقال کو عرصہ گزرچکا تھا۔ ایک بچہ مرحومہ نے چھوڑا تھا۔ جس کی پرورش بہتر طریقے سے کرنے کے لیے تایا ابا نے دوسری شادی نہیں کی۔ اب کلیم جوان ہوگیا تھا۔ تعلیم بھی ختم کرچکا تھا، عمر کے اس مرحلہ میں نہ جانے تایا ابا کے دل میں بیٹے کے بجائے اپنی شادی کا سودا کیوں سما گیا۔ یہ سوال سب کے لیے اہم تھا۔ ان کا خیال تھا کہ بیٹے کی شادی کے بعد ان کی پرواہ کوئی نہیں کرے گا۔ اس لیے انہیں اس سے پہلے اپنی شادی کرلینی چاہیے۔ بزرگ عورتوں نے بہتیرا سمجھایا کہ اب اللہ اللہ کرنے کے دن ہیں۔ کیوں بڑھاپے میں ذلیل وخوار ہوتے ہو، یہاں جوان لوگوں کے رشتے کے لیے جوتے گھسانے پڑتے ہیں۔ آپ کو بھلا کون لڑکی دے گا۔
لیکن تایا ابا نے ان نصیحتوں کو چیلنج سمجھ کر سب کو حاسد سمجھ لیا۔ دوستوں نے بھی بات ہنسی میں اڑا دی۔ اب بے چارے اکیلے ہی ’’گوہرِ نایاب‘‘ کی تلاش میں مصروف ہوگئے۔
ایک دفعہ انہیں اطلاع ملی کہ ایک صاحب اپنی جوان لڑکی کی شادی کے بعد حج کرنے جارہے ہیں۔ ابھی کوئی مناسب رشتہ انہیں نہیں مل سکا ہے اس لیے وہ بے چارے خاصے متفکر ہیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ تایا ابا نے خضاب لگایا، داڑھی کی نوک پلک درست کی اور وہاں جانے کے لیے تیار ہوگئے۔ اکیلے جانے میں قدرے جھجک محسوس ہوئی تو اپنے بیٹے کلیم سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ چلے۔ کلیم انتہائی فرمانبردار لڑکا تھا۔وہ اپنے ابا کے ساتھ اپنی نئی امی دیکھنے چلا گیا۔
ڈرائنگ روم میں انہیں احترام سے بٹھایا گیا۔ کلیم سرجھکائے سعادت مندی سے بیٹھا رہا۔ اتفاق سے اس وقت صرف لڑکی کے ابا موجود تھے۔ چند رسمی باتوں کے بعد تایا ابا نے کہا:
’’آپ لڑکی کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں۔ ادھر میں اپنے بیٹے کے فرض سے سبکدوش ہوچکا ہوں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو‘‘یہ کہہ کر تایا ابا نے اپنا سر نئے نویلے لڑکے کی طرح جھکالیا۔ دراصل تایا ابا کا خیال تھا کہ ان کے جن دوست نے انہیں یہ رشتہ بتایا اس نے ان کے بارے میں بھی لڑکی والوں کو سب کچھ بتادیا ہوگا لیکن گھر والوں کو اس بات کا علم نہ تھا۔
لڑکی کا باپ سمجھا کہ وہ بیٹے کے بارے میں کہہ رہے ہیں وہ فوراً بولے بھئی ہمیں یہ رشتہ بہت پسند ہے۔ ہمیں لڑکی کی ایک ماہ کے اندر اندر شادی کرنی ہے، اس لیے ہمیں ہر معاملہ ابھی طے کرلینا چاہیے۔ بڑے میاں بھی حد درجہ جلد باز واقع ہوئے تھے، بجائے اس کے کہ وہ لڑکے کے بارے میں کچھ اور معلومات حاصل کرتے، تاریخ، نکاح اور مہر کے معاملے میں الجھ گئے۔ تایا ابا منہ مانگا مہر دینے کے لیے تیار تھے اور کلیم سچ مچ ایسے سرجھکائے بیٹھا رہا کہ جیسے اس کی ہی بات ہورہی ہو۔ تایا ابا انکساری میں خود کو بار بار لڑکے کے نام سے پکار رہے تھے۔ جیسے ’’جی بھلا لڑکے کو کیا انکار ہوسکتا ہے۔ یقین کریں لڑکا بہت خوش رکھے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘مختصر یہ کہ اس دو گھنٹے کی گفتگو میں تایا ابا اگلے جمعہ کی مبارک تاریخ ٹھہرا کر آگئے۔ دونوں طرف سے کوئی اہتمام نہ کرنے کی ہدایت تھی۔
کلیم نے باہر آکر کہا بھی کہ ابا مجھے تو لگتا ہے کہ وہ میری بات کررہے تھے۔ تایا ابا کو غصہ آگیا۔ نالائق تیرا تو دماغ چل گیا ہے۔ بیچارہ کلیم چپ ہورہا۔ چپکے چپکے شادی کی تیاری بھی ہوگئی۔ پتہ تو ہم لوگوں کو چلنا تھا، ہم سب بھی جا دھمکے ان سے معافی وغیرہ مانگی اور دھوم دھام سے اپنے تایا ابا کی شادی کی تیاری کرنے لگے۔ مقررہ وقت پر تایا ابا دولہا بنے، چہرے اور بالوں پر جوانوں کا میک اپ کیا اپنے رشتے داروں کے جھرمٹ میں اپنی سسرال جا پہنچے۔ خاندان کے زندہ دل لڑکوں نے چپکے سے باجے کا انتظام بھی کردیا۔
خیر صاحب اس ٹھاٹ سے ہمارے تایا ابا کی سو اری پھولوں لدے گھوڑے پر سوار لڑکی والوں کے یہاں جا پہنچی۔ سہارا دے کر تایا ابا کو اتارا۔ لڑکی کا سارا خاندان دولہا کو دیکھنے کے لیے امنڈ پڑا اور پھر وہ ہوا جس کے تصور سے تو ہم سہم جاتے ہیں مگر پھر کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان کے گھر میں ہلچل مچ گئی۔ سب نے دانتوں میں انگلیاں داب لیں اور لڑکی کا باپ بندوق تانے دندناتا ہوا تایا ابا کے سامنے آکھڑا ہوا۔ بھری محفل میں بھگدڑ مچ گئی۔ ’’بڈھے تو نے دھوکا کیا۔ دکھایا اپنے بیٹے کو اور شادی خود کرنے چلا ہے۔‘‘ ہم سب الگ حیران اور پریشان تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ بڑی مشکل سے یہ بات ہماری سمجھ میں آئی کہ لڑکی والے کلیم کے دھوکے میں رشتہ کررہے تھے۔ یہ لوگ پٹھان تھے۔ بیچارے تایا ابا کی جان کے لالے پڑگئے تھے۔ لڑکی والے کسی قیمت پر بارات واپس کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ جان کے خوف سے تایا ابا نے فوراً سہرا اتار کر اپنے بیٹے کلیم کے سر پر باندھ دیا اور اس طویل مضحکہ خیز ڈرامے کے بعد تایا ابا کی بجائے کلیم بھائی، دلہن لیے گھر لوٹے۔ اس انوکھی اور مضحکہ خیز شادی نے جو ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے ہمیں مدتوں ہنسایا۔