ماسٹر صاحب کا خاندان پورے محلے میں ان کے نام کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ مہذب ،شائستہ اور خوشحال خاندان کا نہ صرف سب احترام کرتے تھے بلکہ کسی بھی مشکل صورتحال سے نجات کے لئے اسی خاندان سے مدد کے طلبگار ہوتے تھے۔ ماسٹر صاحب کا کنبہ تین بیٹوں پر مشتمل تھا۔ ماسٹر صاحب کا اصل نام عبداللہ تھا۔ کچھ عرصے بعد ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا پھر خود ماں بن کر بچوں کی پرورش کی۔
برس ہا برس کی محنت کا ثمر آج ماسٹر صاحب کا وہ خوشحال کنبہ تھا جو دو بیٹوں کی شادی کے بعد اب پوتے، پوتیوں پر مشتمل ہو گیا تھا۔ گھر کا سربراہ ماسٹر عبداللہ تھے جن کا حکم بیٹے اوربہوئیں سر آنکھوں پر رکھتے تھے۔ گھر میں جو بھی پکتا پہلے ماسٹر صاحب پھر دوسروں میں تقسیم ہوتا۔ کس کے گھر جاناہے،کون گھر میں آئے گا، کس کی شادی پر کتنا دینا ہے،گھر کا دروازہ رات کتنی دیر تک کھلا رہے گا،مردوں کو رات کتنے بجے تک باہر رہنا ہے۔ بیٹے اور بہو کے جھگڑے میں غلطی پر کون ہے یہ تمام فیصلے ماسٹر صاحب کی ذات کے مرہون منت تھے۔ ماسٹر صاحب اسکول کے ماسٹر رہنے کے بعد اب گھر کی ہیڈ ماسٹری کر رہے تھے۔ تینوں بیٹوں کے اپنے کاروبار تھے۔تین منزلہ مکان ماسٹر صاحب نے خود بنوایا تھا۔ گیس و بجلی کا میٹر ماسٹر صاحب کے نام تھا۔ ہر ماہ جتنا بجلی یا گیس کا بل آتا۔ تینوں بیٹے مشترکہ حصہ والد کے ہاتھ پر رکھتے جسے وہ خود جمع کرواتے تھے۔
گھر میں ایک ہی ہانڈی بنتی تھی۔ ایک روز بڑی بہو سالن بناتی اور چھوٹی گھر کی صفائی کرتی۔ دوسرے روز چھوٹی کچن سنبھالتی اور بڑی گھر۔ زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی اور معاشی معاملات مل جل کر چلانے کے سبب سب کی ضروریات باآسانی پوری ہو رہی تھیں۔ پھر کیا ہوا ماسٹر صاحب کی زندگی آنکھ مچولی کھیلنے لگی۔
جب یہ صورتحال کچھ عرصہ برقرار رہی تو ماسٹر صاحب کو چھوٹے بیٹے کی شادی کی فکر کھانے لگی۔ اپنی زندگی میں ہی بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کی آرزو چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کے بعد نئی نویلی بہو گھر لے آئے۔ نئی بہو نے گھر آتے ہی اس خاندان کو نئے اصولوں سے آشنا کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ میں اور میرا شوہر صرف دو بندے ہیں۔ ہم تیسرا حصہ گھر کے خرچ کے لئے کیوں دیں۔ اتنے پیسوں میں تو ہم چھ مہینے اکیلے گزارہ کر سکتے ہیں۔
آج کھانے میں دال بنی ہے، میرا تو بر یانی کھانے کا موڈ ہے، کیا مصیبت ہے۔ اپنی پسند کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ میرے کمرے کا صرف ایک پنکھا اور بلب جلتا ہے۔ ہر ماہ 1000 روپے بجلی کا بل لینا کہاں کا انصاف ہے۔ رات اماں کے گھر ذرا دیر کیا ہوئی بڑے میاں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ کیا شادی کے بعد بھی بیٹا چھوٹا ہے جو بیوی کے ساتھ سسرال کچھ وقت نہیں گزار سکتا۔ بڑے دو بھائیوں کے چار چار بچے ہیں۔ ان کی بیویاں سب کا کھانا بنائیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ مجھ سے کس جرم میں 20‘ 20 روٹیاں بنوائی جاتی ہیں۔ یہ اور اس جیسی ہزار شکایات نے گھر کی فضا بوجھل کرنا شروع کر دی۔ چھوٹی بہو کی سازشیں کامیاب ہوئیں تو بھائی بھائی کے مخالف ہونے لگے۔ پہلے کھانا تقسیم ہوا اور کچن میں ایک کی بجائے تین ہانڈیاں بننے لگیں پھر بجلی و گیس کے میٹر بھی سب کے علیحدہ ہوگئے۔ ماسٹر صاحب اپنی زندگی میں اولاد کی یہ تفریق برداشت نہ کر سکے اور اللہ کو پیارے ہوگئے۔
والد کا سایہ سر سے کیا اٹھا رشتوں کے درمیان خلوص، چاہت اور محبت کا بھی جنازہ اٹھ گیا۔ دل اک دوجے کے لئے تنگ ہوئے تو کئی گز پر مشتمل بڑی کوٹھی بھی چھوٹی دیکھنے لگی۔ پھر وہی ہوا جو کسی گھر کے سربراہ کے جانے کے بعد ہوتا ہے۔ پہلے دلوں میں دیواریں بنیں اور پھر گھر کے اندر اینٹ اور گارے کی پختہ دیواریں حائل ہوگئیں۔
ایک گھر کے اندر تین گھر بنے تو ماسٹر عبداللہ کا خاندان تین خاندانوں میں بٹ گیا۔ خاندان کا شیرازہ بکھرا تو ایک کنبہ بھی پہلے کی طرح خوشحال نہ رہ سکا۔ رشتوں کو دولت کے ترازو میں تولنے والوں نے رزق تقسیم کیا تو رزق سے برکت بھی اٹھ گئی۔ معاشی تنگدستی نے میاں بیوی کے جھگڑوں کے بعد اولاد کو بھی والدین کا نافرمان بنا دیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ماسٹر عبداللہ کا وہ خاندان جو کبھی لوگوں کے فیصلے کرانے ان کے گھر جایا کرتا تھا آج لوگ ان کا فیصلہ کرانے ان کے گھر آتے ہیں۔
جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ خاندانی نظام کا جب شیرازہ بکھرتا ہے تو اس کا کیا انجام ہوتا ہے؟ ہماری تہذیب، ہماری ثقافت میں خاندان کا جو خوبصورت تصور ہمیشہ سے ہے وہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ مادیت پرستی کی ہوا اگرچہ اس نظام کو دھکا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔اگر ہمیں نے اس نظام کو ختم ہونے سے بچانا ہے تو رشتوں میں خلوص اور چاہت کی مٹھاس ہمیشہ قائم رکھتے ہوئے اسے مادیت پرستی کے زہر سے آلودہ نہیں ہونے دینا۔
ماں باپ، بہن بھائی ، دادا ،دادی ، چچا ،چچی اور پھوپھی جیسے رشتوں کی چھائوں میں نسلیں کیسے پروان چڑھتی ہیں۔ چھوٹے بڑوں سے محبت کا فیض کیسے پاتے ہیں۔ والدین رزق کی تلاش میں گھر سے باہر بھی ہوں تو دادا ، دادی کے سائے تلے بچوں کی تربیت کا کیسا خوبصورت اہتمام ہوتا ہے ؟ یہ سب ایک مضبوط خاندانی نظام میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اس نظام کو مضبوط بنانے کے کچھ قاعدے اورکچھ اصول ہوتے ہیں جنہیں پلو سے باندھ لیا جائے تو کبھی اس نظام میں دراڑ نہیں آسکتی۔
جس طرح کسی ملک کا ایک سربراہ ہوتا ہے جو ملکی معاملات چلانے کے لئے ہر فیصلے کا اختیار رکھتا ہے چاہے عوام اس سے متفق ہوں یا نہیں۔ بالکل اسی طرح گھر کے نظام کو درست چلانے کے لئے گھر کا ایک سربراہ ہوتا ہے۔ ان کی طویل العمری ،ان کا تجربہ، ان کا مشاہدہ انہیں یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں گھر کا نظم و نسق بہتر چلانے کے لئے جو بھی حکم صادر کریں گھر کے مکینوں کو بغیر مخالفت کیے اسے قبول کرنا چاہیے۔
اگر ہم ان اصولوں کو اپنی ذاتی زندگی میں مداخلت تصور کرتے ہوئے خود کو ان گھنے درختوں کی چھائوں سے محروم کرتے ہیں تو اس میں ان کا نہیں ہمارا اپنا نقصان ہوگا۔ جس طرح کوئی پھل درخت سے گرنے کے بعد اور کوئی پھول شاخ سے جدا ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح کوئی فرد خاندان سے کٹ کر سماج میں زیادہ عرصہ خوشگوار زندگی بسر نہیں کر سکتا۔
ہماری شناخت ہماری پہچان صرف ہمارے خاندان سے ہوتی ہے جو ہمارے حصے کے غم اپنی جھولی میں ڈال کر ہمارا دامن ہمیشہ خوشیوں سے بھرنے کی سعی کرتا رہتا ہے۔ اس نظام کی قدر کیجئے سماج ہمیشہ آپ کی قدر کرے گا۔ خاندان کو چھوڑ جانے والا دنیا کی بھلے کتنے آسائشوں سے مالا مال ہو جائے اس کا دل حقیقی خوشی و سکون کی لذت سے ہمیشہ محروم رہتا ہے اور جب انسان ایک خاندان کی چھتری تلے زندگی گزارتا ہے تو ذمہ داری کا بوجھ ایک فرد نہیں پورا خاندان اٹھاتا ہے اور یہ ذمہ اری نسل در نسل اپنا حق ادا کرتی ہے۔
محبت،چاہت، شفقت، خلوص اور اپنائیت کے رشتوں میں بندھا ایک خاندان کتنا خوش قسمت ہوتا ہے کہ جو ایک گھر کی چھتری تلے ہر دکھ سکھ کا سامنا مشترکہ طور پر کرتا ہے۔ ایسے خاندان کی اگر ضروریات مشترکہ ہوتی ہیں تو اسے پورا کرنے کی ذمہ داری بھی سب کے کندھوں پر یکساں ڈالی جاتی ہے۔ یوں گھر کے سب افراد کے لئے ایک ہی ہانڈی میں کھانا بننے اور ایک ہی دستر خوان پر تناول کرنے کا جو لطف آتا ہے وہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں انواع و اقسام کے کھانے سے بھی نہیں مل سکتا۔
خاندانی نظام مشرقی روایات کا وہ حسن ہے جو آج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے کگار پرہے۔ جہاں جہاں اس نظام کی بنیادیں مضبوط ہیں وہاں افراد کے چہروں پر خوشی و اطمینان کی جھلک نمایاں ہے اور لوگ سکون کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن جہاں اس نظام کی دیواروں میں شگاف ہے وہاں افراد رنج و الم اور مصائب کی دلدل میں دھنستے ہی دکھائی دیتے ہیں۔
اسی لیے ان خوشیوں کو ہمیشہ قائم و دائم رکھیں ،جس خاندان کی عمارت، خلوص ،چاہت ،وفاداری ،محبت اور قربانی کی مٹی سے قائم ہوتی ہے۔اس میں دولت ،نفرت اور حسد کی ملاوٹ کبھی دراڑ نہیں ڈال سکتی۔