ذرا مسلم معاشرہ کا جائزہ لیجیے اور اس کے امتیازات تلاش کرنے کی کوشش کیجیے۔ بڑی مشکل سے چند ایسی چیزیں آپ کو نظر آسکیں گی جو مسلم سماج کو عام سماج سے ممتاز کرتی اور اسلامی رہنمائی کی موجودگی کا احساس دلاتی ہوں۔ دراصل وہ تمام برائیاں ہمارے معاشرہ میں بھی درآئی ہیں جو عام معاشرہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور آپ خود جگہ جگہ اس کامشاہدہ بہ آسانی کرسکتے ہیں۔ معاملہ ہماری شادیوں کا ہو یا شادیوں میں دیے جانے والے جہیز کا ہو، شوہر بیوی کے تعلقات کا ہو، والدین اور بزرگوں کے ادب و احترام اور ان کی دیکھ بھال کا ، یا لڑکے اور لڑکی کے درمیان تفریق کی ذہنیت کا ہونا حلال و حرام کمائی میں فرق کا ہو، عام طرز معاشرت کا مسئلہ ہو یا خاص لوگوں کا ایسا معلوم ہوتا ہے اسلام سے وابستگی کا دم بھرنے والا معاشرہ بھی ان تمام سماجی، معاشرتی اور اخلاقی برائیوں میں گرفتار ہے جو اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کے امکانات کو ختم کرکے تباہی و بربادی کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح کے بغیر حالات میں تبدیلی کی امید کرنا نہ صرف بے جا ہے بلکہ بہتری اور حالات کی تبدیلی کے عمل میں تاخیر کا سبب بھی ہے۔
معاشرہ کی سب سے بنیادی اور اہم ترین اکائی ہمارا اپنا گھر اور خاندان ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اصلاح اور تبدیلی کا عمل بھی یہیں سے شروع ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ اللہ کے رسول کی سیرت، صحابہ کرام کا طرز عمل اور خود قرآن کی ہدایات ہمیں بتاتی ہیں کہ اصلاحِ معاشرہ کی پہلی منزل اپنے گھر خاندان اور قریبی لوگوں کی اصلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے بالکل ابتدائی دنوں میں اپنے نبی کوحکم دیا:
وأنذر عشیرتک الاقربین
’’اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤ۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا گیا:
قوا انفسکم و اہلیکم ناراً۔
’’خود کو اور اپنے اہل و عیا ل کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
اہلِ خاندان اور قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے بچانا اور ڈرانا اور اللہ کی تعلیمات سے آگاہ کرنا ہمارے عائلی اور خاندانی نظام کی اصلاح و تربیت کا ذریعہ ہوگا اور اسے انجام دے کر ہم اصلاح معاشرہ کی جانب ایک منزل اور آگے بڑھ سکیں گے۔ اس کاایک پہلو اور ہے اور یہ ہے کہ اپنے عائلی اور خاندانی نظام کی اصلاح کرکے ہم ایک زبردست قوت اور معاشرتی استحکام حاصل کرسکیں گے۔ اس کی عدم موجودگی اور اس کے نقصانات کی نمایاں ترین مثال وہ مغربی معاشرہ ہے جہاں کا عائلی اور خاندانی نظام درہم برہم ہوکر انتشار و بدامنی کا شکار ہوگیا ہے، حالاںکہ وہ معاشرہ علم و تحقیق اور سائنس و ٹکنالوجی ہی نہیں بلکہ سیاست و تہذیب کی قیادت کرنے والا ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات اور قرآنی ہدایات کا نچوڑ ہمارے سامنے اس صورت میں آتا ہے کہ معاشرہ کا ہر فرد اپنے حقوق سے واقف اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ اور ان کی ادائیگی کے لیے سنجیدہ ہو۔
حقوق اور ذمہ داریوں کا احساس و شعور
حقیقت ہے کہ اسلام فرائض، حقوق اور ذمہ داری سے آگاہ کرنے ہی کے لیے نازل ہوا تاکہ انسان انسانوں کے، اپنے رب کے اور اس کائنات کے حقوق سمجھے اور انہیں ادا کرنے کی فکر کرے۔ قیامت کے دن انسانوں سے جو سوال ہوگا وہ انہی فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ہوگا۔ اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے اللہ کے رسول نے ایک مرتبہ فرمایا:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا: میرے بعد کچھ ایسی چیزیں اور آثار آئیں گے جن کا تم انکار کرو گے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: کہ تم پر جو حقوق (ذمہ داریاں) ہیں انہیں ادا کرتے رہو اور اپنا حق اللہ تعالیٰ سے طلب کرتے رہو۔
افراد سے مل کر خاندان بنتا ہے۔ شوہر بیوی، ماں باپ اور بہنیں اور بھائی، ساس بہو یہ تمام لوگ مل کر خاندان کی تشکیل کرتے ہیں۔ مضبوط اور مستحکم خاندان کا راز اور اسلامی گھر کی بنیاد ایک دوسرے کے حقوق کو جاننے، ان کا احترام کرنے اور انہیں بہترین انداز میں خوش دلی کے ساتھ ادا کرنے میں ہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب گھر کا ہر فرد احساس ذمہ داری رکھتا ہو۔ اللہ کے رسول نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ گھرکے ہر فرد کو اپنی اپنی جگہ ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے حساس بننے کی تلقین کی ہے۔ آپ نے فرمایا: تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت (ماتحت) کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ امیر ذمہ دار ہے۔ مرد ذمہ دار ہے اپنے گھر والوں کا، عورت ذمہ دار ہے شوہر کے گھر اور اولاد کی۔ پس تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ماتحت کے بارے میں سوال ہوگا۔‘‘ دیکھئے اللہ کے رسول کس قدر پیارے انداز میں خاندان کے سربراہ یعنی ماں باپ کی ذمہ داری بتاتے ہیں۔
ایک مرتبہ اللہ کے رسول نے حضرت حسن کو پیار میں بوسہ دیا۔ اس وقت ان کے پاس ایک شخص اقرع بن حابس بیٹھے تھے۔ انھوں نے کہا کہ میرے دس بچے ہیں اور میں نے کبھی کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ آپ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: من لا یرحم لا یرحم۔
معلوم ہوا کہ پیار میں اولاد کا خاص طور پر بوسہ لینا ان کا حق ہے اور والدین کی ذمہ داری بھی۔ اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کی صورت میں والدین اور اولاد کے درمیان محبت کا جو مضبوط رشتہ قائم ہوتا ہے اس کے نتائج و اثرات کو گھر میں دیکھا جاسکتا ہے۔اس طرح اولاد کی صالح تربیت اور بہترین تعلیم کا انتظام کرنا والدین پر اولاد کا حق ہے۔ ان کی جملہ انسانی ضروریات کی تکمیل اور حسب استطاعت ان کے مستقبل کو روشن بنانے کی جدوجہد کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ اور اولاد پر خرچ کیا جانے والا مال اسی طرح ہے بلکہ اس سے بھی افضل ہے جو ہم براہِ راست اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’سب سے افضل دینار جو انسان خرچ کرتا ہے وہ ہے جسے وہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے۔ اس کے بعد جو وہ اللہ کے راستے کی سواری پر خرچ ہو اور پھر وہ جو انسان اللہ کے راستہ میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرتا ہے۔‘‘
اور ان تمام فرائض و ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے اولاد پر بھی ذمہ داریاں ڈالی ہیں اور انہیں اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور حسن سلوک کا معاملہ کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ووصینا الإنسان بوالدیہ حسنا۔
’’اور ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت کی۔‘‘
اسی طرح کئی جگہ قرآن میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ناپسندیدہ بات کی صورت سے اف تک نہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت اور باپ کو جنت کا دروازہ قرار دیا گیا ہے۔ ضعیف والدین کی موجودگی کی صورت میں ان کی خدمت کو جہاد سے زیادہ اہم تصور کیا گیا۔ ایک مرتبہ صحابہ نے پوچھا کہ اللہ کو کونسا عمل سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس پر آپ نے کہا کہ نماز کو ٹھیک وقت پر ادا کرنا اور اس کے بعد والدین کی اطاعت و فرمانبرداری۔
اسی طرح اللہ کے رسول نے شوہر بیوی اور بیوی شوہر کے حقوق و فرائض کو بہت واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ رشتوں کے احترام، حقوق کی ادائیگی اور دل آزاری سے بچنے کی تلقین کی گئی بلکہ قطع رحمی اور دل آزادی کو اعمال صالحہ کو ضائع کردینے والی چیز بتایا گیا ہے۔
ہم ایسے خاندان کا تصور کریں جس کے تمام افراد ایک دوسرے سے محبت کرنے والے، ایک دوسرے کے لیے فرائض و ذمہ داریوں کو جاننے والے اور سنجیدگی سے ادا کرنے والے ہوں۔ یقینا وہ خاندان نہایت مستحکم اور اسلام کے معیاروں کے مطابق نہایت درجہ اسلامی ہوگا۔ ہم اپنے خاندان کو مضبوط، مستحکم اور اسلامی اسی وقت بناسکتے ہیں جب اس سلسلے کی اسلامی تعلیمات کو جان کر عملی زندگی میں نافذ کریں اور حقوق و فرائض کا پختہ شعور اپنے اندر پیدا کریں۔
عائلی اسلامی احکام کا نفاذ
خاندانی نظام کی اصلاح میں ایک اہم ترین کام ان اسلامی اصول و ضوابط کے نفاذ سے تعلق رکھتا ہے جو ایک پہلو سے ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ ہیں۔ مثلاً: اللہ کے رسول نے شادی بیاہ کے لیے کیا رہنمائی فرمائی۔ لڑکے لڑکیوں کے رشتہ ازدواج میں بندھنے کے لیے کون سے شرائط اور کیا بنیادیں متعین کیں۔ یہ تمام چیزیں عائلی اسلامی نظام کا حصہ ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی اسی طرح انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے ہم پر لازم ہے جس طرح عبادت میں رسول کے بتائے راستوں کی پیروی۔
اسلام نے ازواجی اور خاندانی زندگی کی بنیاد مرد و عورت کے رشتۂ ازدواج سے رکھی ہے اور اس کے لیے نکاح کو لازم قرار دیا ہے۔ خود اللہ کے رسول، آپ کی بیٹیوں اور صحابہ کرام کے رشتۂ ازدواج میں بندھنے کے بے شمار واقعات روایات میں آتے ہیں جن سے اس مثالی دور کی روایات کا پتہ چلتا ہے۔ عہدِ رسالت میں نکاح نہایت سادہ اور آسان عمل تھا اور اسے موجودہ دور کی رسوم و رواج کے کمرتوڑ اخراجات سے بوجھل نہیں بنایا گیا تھا۔ اسی طرح رشتہ کے انتخاب میں جس چیز کو اہمیت دینے کی تلقین کی گئی تھی وہ تقویٰ اور دینداری تھی۔ حسن، خاندان اور دولت کو یکسر ثانوی اہمیت دی گئی تھی۔ ایک مرتبہ آپ نے صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ نکاح کو آسان بناؤ۔ اگر تم اس عمل کو مشکل کردوگے تو معاشرہ میں بے حیائی اور زنا آسان ہوجائے گا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس سنت کو رسوم و رواج کے فضول خرچوں سے اس قدر بوجھل بنادیا ہے کہ ہمارے گھروں میں عمر دراز کنوارے کنواریوں کی تعداد روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔ جس گھر میں کئی کئی عمر دراز کنواری بیٹیاں اور بیٹے ہوں بھلا اس خاندان کو سکون و اطمینان کس طرح میسر آسکتا ہے۔
شادی بیاہ اور نکاح شریعت کی رو سے مرد اور عورت کے درمیان ایک بابرکت معاہدہ ہے۔ جو مجبوریوں کی صورت میں توڑا بھی جاسکتا ہے اور اس کے لیے شریعت نے ایک ضابطہ اور طریقہ مسلمانوں کو بتایا جسے ’’طلاق‘‘ کہتے ہیں۔ ایک مسلمان اللہ کے حکم اور رسول کی سنت کی پیروی میں نکاح کا معاہدہ کرتا ہے تو اس معاہدہ کو ختم کرنے کے لیے بھی اسے لازماً شرعی طریقہ ہی اختیار کرنا چاہیے جو قرآن میں واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ہماری جہالت ہمیں غیر اسلامی طریقہ اختیار کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اس کام کے لیے بھی قرآن کا طریقہ اختیار کریں تو اولایا تو رشتہ ٹوٹنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور اگر آئی بھی تو اچھے طریقے سے اور خاندان ٹوٹے اور رنجش پیدا ہوئے بغیر ہی معاملہ حل ہوجائے گا۔
نکاح و طلاق ہی کی طرح وراثت اور ترکہ کی تقسیم بھی اسلام کے عائلی نظام کا اہم ترین حصہ ہے کہ اس کے ذریعہ اسلام کے مالی نظام کا نفاذ ہوتا ہے اور حق و انصاف کے ساتھ اس کی تقسیم معاشرہ اور خاندان کے افراد کے لیے خوشحالی اور مالی وسائل کی مناسب تقسیم کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو حقوق العباد کی ادائیگی کا بھی ہے۔ اللہ کے رسول نے ایک مرتبہ لوگوں کو آگاہ کیا تھا کہ اگر کسی نے کسی شخص کی ایک بالشت زمین بھی دبالی تو قیامت کے دن وہ پورے کرئہ ارض کا بوجھ اپنی کمر پر لادے حاضر ہوگا۔ اور ہمارے خاندانو ںمیں یہ رواج عام ہے کہ باپ کی تمام تر میراث بیٹوں کے درمیان تقسیم کردی جاتی ہے اور لڑکیوں کا حق مار لیا جاتا ہے۔ وہ گھر کبھی بھی اسلامی گھر اور مسلم خاندان نہیں ہوسکتا جہاں لڑکیوں کا حق مارا جاتا ہو۔
غلط رسوم و رواج سے چھٹکارا
ہمارے گھر، خاندان اور عائلی نظام کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنے گھروں سے غیر اسلامی جاہلانہ رسوم و رواج کو نکال نہ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رسوم و رواج ہمارے عائلی نظام کی اصلاح اور خاندان کو اسلامی تعلیمات کے رنگ میں رنگنے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ اور یہ رکاوٹ اسی وقت ختم ہوسکتی ہے جب رسوم و رواج کی جگہ شرعی احکام لے لیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم اسلام کا گہرا مطالعہ کریں اور اسے اپنی زندگی اور اپنی معاشرت میں نافذ کرنے کا پختہ عہد کرلیں۔