پوری زندگی ہی ایک امتحان ہے جس کا نتیجہ روز محشر ملنا ہے لیکن اس بڑے امتحان کے ساتھ ہمیں اوربھی مختلف نوعیت اور مختلف دورانیوں کے امتحانات کا سامنا رہتا ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگوں نے اپنے تعلیمی دور میں سالانہ امتحان دیے ہوں گے یا کچھ لوگ اب بھی دے رہے ہوں گے، کمرہ امتحان میں جو پرچہ ہمیں تھمایا جاتا ہے اس کی ترتیب کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ کل سات سوالات ہیں جن میں سے پہلے دو سوالات کے جواب لازمی ہیں جب کہ بقیہ پانچ میں سے کوئی سے تین کے جوابات تحریر کریں، اگر ہم پہلے دولازمی سوال چھوڑ کر بقیہ پانچ سوالات حل کردیں گے اور مزید دو جوابات اپنی طرف سے اور تحریر کردیں گے اور یہ جوابات خواہ کتنے ھی درست وجامع ہوں پھر بھی ہم فیل ہوجائیں گے۔
رشتوں کا نبھانا بھی زندگی کے امتحان کا لازمی سوال ہے جسے چاہے نہ چاہے، مشکل سے یا آسانی سے حل کرنا ہی ہوگا اس سوال کا جواب اختیاری نہیں ہے اور نہ ہی اس لازمی سوال کو چھوڑ کر اوربہت سے جوابات تحریر کرنے سے ہمیں کامیابی ہوگی۔ بندگی بھی یہی ہے کہ جو حکم ملا ہے اْس پر عمل کیا جائے اس میں اپنی طرف سے کمی یا اضافے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
لہٰذا ہم یہ طے کرلیں کہ اللہ نے رشتوں کر نبھانے اورجوڑنے کا جو حکم دیا ہے اْس پر ہمیں عمل کرنا ہی کرنا ہے اس سے بھاگنا نہیں ہے، جب ہم مستحکم ارادہ کرلیں گے تو یقین رکھیں کہ اللہ آسمان سے فرشتے ہماری کو مدد کو اتارے گا۔
سمجھ لیں! کہ اللہ نے ہمیں تنہا پیدا نہیں کیا، اْس نے ہمیں رشتے دیے ہیں، ان رشتوں کو نبھانا بہت مشکل ہوتا ہے اسی لیے ان کے بارے میں بار بار قرآن میں احکامات دیے گئے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے اس پر عمل کرکے دکھایا ہے، ہماری جبلت میں مل کر رہنا ڈالا ہے اس لیے تنہائی کو سزا کہا جاتا ہے۔
رشتوں کو نبھانا مشکل ضرور ہے لیکن ان کے بغیرزندگی بھی نہیں ہے۔
رشتوں کی اس اہمیت اور ضرورت کے باوجود بھی ہم جب کسی رشتہ دار سے ملتے ہیں تو ہمارا رویہ مناسب نہیں ہوتا، ہم سارے جہاں سے اچھی طرح بات کرتے ہیں، ہنس ہنس کر ملتے ہیں، ان کے آگے بچھے جاتے ہیں، ان کی زیاتیوں پر درگزر بھی کرتے ہیں ان کے نامناسب رویوں پر جواز تلاشتے ہیں۔مگر جہاں اپنے رشتہ داوں کا معاملہ آتا ہے وہاں ہم کچھ بھی نظرانداز کرنے کو تیار نہیںہوتے، بلکہ بھولی بسری تلخیوں کو زندہ کرتے ہیں، راکھ کے ڈھیرمیں سے چنگاری ٹٹولتے ہیںاورلاتعلق ہونے کے لیے انھیں جواز بناتے ہیں، کچھ نہ ملے تو رویوں میں سرد مہری اختیار کرلیتے ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ دوست تو زندگی میں بہت آتے جاتے رہتے ہیں اور اْن کے ساتھ ماضی کی یادیں بھی نہیں ہوتیں،جب کہ رشتہ داروں کے ساتھ ماضی کی کڑوی کسیلی باتوں، تلخ یادوںکا بیگج ہوتا ہے، جو بار بار ہمیں کچوکے لگاتا ہے۔
بسا اوقات رشتہ داروں سے ہمارا مزاج نہیں ملتا، ان کی عادتیں اور ان کی سوچ ہمیں اچھی نہیں لگتی جب کہ دوست تو ہم بناتے ہی ایسے ہیں جو ہمارے ہم مزاج ہوں۔
رشتہ داورں سے ہمیں توقعات ہوتی ہیں جب کہ دوستوں سے ہماری توقعات نسبتاً کم ہوتی ہیں لہٰذا جب رشتہ دار توقع پر پورا نہیں اترتے توہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ جو توقع ہم اپنے رشتہ دار سے لگارہے ہیں وہی توقعات ان کی ہم سے ہوں گی۔
ہم اپنے کم عمل کے لیے تو بہت سے عذر رکھتے ہیں لیکن اپنے رشتہ داروں کو رعایت دینے پر تیار نہیں ہوتے۔
یاد رکھیے! تعلقات کے تسلسل کے لیے درگزر کرنا اور معاف کرنا لازمی ہے،جس سے بھی ہمیں مل جل کر رہناہوتا ہے اْس کی بہت ساری باتوں سے صرف نظر کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی اپنے پلو سے باندھ لیں کہ وقت جو آج ہے، ابھی ہے بس سب کچھ وہی ہے نہ ماضی کچھ ہے اور نہ مستقبل کی کوئی اہمیت ہے۔ ماضی میں جو ہوچکا وہ ہوچکا اسے پلٹایا نہیں جاسکتا۔ یقین جانیں اگر ماضی پلٹایا جاسکتا تو ہم سب اپنا سب کچھ دے کر ماضی کو حاصل کرلیتے۔ اسی طرح نہ ہی مستقبل کو وقت سے پہلے لایا جاسکتا ہے اور نہ مستقبل میں اپنے ہونے یا نہ ہونے کی گارنٹی دی جاسکتی ہے، لہٰذا ماضی کو چھوڑ دیں ہمیشہ اپنے آج پر توجہ دیں اسے درست کرنے کی کوشش کریں، آج اچھا ہوجائے گا تو مستقبل آپ سے آپ اچھا ہوجائے گا، اچھے وقت کے لیے مشکل وقت سے لڑنا ہی پڑتا ہے، لہٰذا رشتہ دراوں سے ہونے والی ماضی کی تلخیوں کو بھلا دیں، ممکن ہے دونوں طرف ایک سی ہی شکایتیں ہوں لہٰذا اگر دونوں ہی ماضی کی باتوںکو دل میں رکھے بیٹھے رہیں گے تو لہجے کی کڑواہٹ اور دل کی کدورت کبھی ختم نہیں ہوسکتی، اسی طرح اگر ہم نے ماضی میں اپنے کسی رشتہ دار کے ساتھ اچھا کیا ہے تو اس کا بدلہ ملنے کی خواہش اور انتظار نہ کریں اگر بدلہ ہی لازمی لینا ہے تو پھر اللہ کے لیے کیا ہوا؟
برسوں کے تجربے کے بعد ہی یہ مثالیں وجود میں آئی ہیں کہ گھٹنے پیٹ کی طرف ہی آتے ہیں یا ہڈی کو کھال سے جدا نہیں کیا جاسکتا لہٰذا جب رشتے ٹوٹ نہیں سکتے اور نہ انھیں توڑنا ہے تو کیوں نہ ہم انھیں میٹھا بنالیں، انھیں زحمت سمجھنے کے بجائے رحمت سمجھنا شروع کردیں بجائے اس کے کہ ملیں تو منہ بسور کے ہی ملیں، جب ملیں کھلے دل اورکھلے بازوں مسکراتے چہرے کے ساتھ ملیں۔
جن سے مزاج ملتے ہیں ان کے ساتھ چلنا تو کو ئی کمال نہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ جن سے مزاج نہیں ملتے ان سے نباہ کیا جائے، محض اللہ کی خاطر، ورنہ اللہ کی خاطر کیا ہوا، اس میں کیا خوبی ہے کہ جو میری ہر بات کو سمجھتا ہو اس سے میں اچھا رہوں خوبی تو اس میں کہ جو لوگ مجھے نہیں سمجھتے مجھ سے انکار کرتے ہیں ان کے ساتھ اچھا ہوکر رہا جائے۔
آپ ﷺ کو بھی سارے رشتہ دار اچھے نہیں ملے تھے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ رشتے ہمارے لیے اللہ نے چنے ہیں تاکہ ان کے ذریعے وہ ہمیں آزمائے یا بعض کے لیے ہم خود ٹیسٹ بن جائیں۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے ایک مضمون میں ایک خاتون کا احوال کچھ اس طرح بیان کیاہے:۔
مجھے ایک بزرگ انگریز خاتون یاد آتی ہے، جو پیشے کے لحاظ سے استاد تھیں، ہماری اصطلاح کے مطابق وہ کوئی نیک ، عبادت گزار یا روحانی شخصیت نہیں تھی لیکن وہ ایسی مطمئن اور مسرور زندگی کی زندہ تصویر تھی جسے بڑی سے بڑی ناکامی، نقصان، مخالفت یا تلخی بھی ڈسٹرب نہیں کرتی تھی، اگر کبھی اس کی پیشانی پر سلوٹیں ابھرتیں تو دوسرے ہی لمحے غائب ہوجاتیں، ایک روز میں نے اْس کی اِس کیفیت کو بھانپ کر اس کے اطمینان، سکون اور قلبی مسرت کا راز پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ میری اس کیفیت کا راز فقط ایک لفظ میں مضمر ہے اور وہ ہے’’معافی۔‘‘
میں ہر ایک کو معاف کردیتی ہوں چاہے وہ مجھ سے کتنی ہی زیادتی کرے، چنانچہ میرے اندر غصہ، انتقام، بغض، حسد اور کینہ کبھی پیدا نہیں ہوتے۔ اگر ان جذبات میں سے کوئی جذبہ میرے اندر سر اٹھائے تو میں اسے سختی سے کچل دیتی ہوں،چنانچہ میں پچاسی سال کی عمر تک ہر لمحہ خوشی سے سرفراز رہی ہوں اور زندگی کے تیزی سے گزرتے ہوئے لمحات سے خوشی کشید کرتی رہی ہوں۔
یہ انداز فکرایک غیر مسلم کا ہے جن کے لیے آخرت کی اہمیت ہمارے جیسی نہیں ہے، آخرت تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے، ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ نیکی کا ایک ذرہ اور بدی کا ایک ذرہ بھی نظر انداز نہیں کرے گا ہر ایک کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ اس پیمانے کے بعد بھی اگر ہم اپنے ساتھ ہونے والی آج کی زیادیتوں کے حساب کے لیے آخرت تک کا انتظار نہیں کرسکتے تو جان لیں کہ ہمارا آخرت پر ایمان محض ایک جملہ ہے جس کا اثر حلق سے نیچے دل تک نہیں پہنچ پایا ہے۔lll
(ماخوذ از: ’جسارت‘ لاہور)