اس مضمون کے پہلے حصے میں ہم جنس پرستی اور’انسانی فطرت ‘ کے سلسلے میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ اگر ہم نے انسانی فطرت کے حوالے سے ہم جنس پرستی پر آمادہ لوگوں کو روکنے کی کوشش کی تو کامیاب نہ ہو سکیں گے۔کیوںکہ ان کے نزدیک انسانی فطرت کے وہ معنی ہیں ہی نہیں جو ہم مراد لیتے ہیں۔ساتھ ہی ہم نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ اگرلفظ’’ فطرت‘‘ کے مفہوم کو یکسر آزاد چھوڑ دیاجائے تو ہر کوئی اس کی من مانی تشریح پر اتر آئے گا اور پھر زمین پر بے حیائی اور بدکاری کا وہ سیلاب امڈ آئے گا جس کا صحیح تصور بھی ابھی نہیں کیا جا سکتا۔ لفظ فطرت کی من مانی تشریح کے بعد جنسی خواہش کو قابو میں رکھنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔جب خود انسان کی سرشت میں اس قسم کی شہوانی حرکتوں کی گنجائش موجود ہے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایسے افعال کا ارتکاب انسان نہیں کر سکتا ۔
اس لیے سب سے پہلے فطرت کے مفہوم کو طے کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس کا جو مفہوم بھی ہم طے کریں گے ہم جنس پرست فوراً کہہ دیں گے کہ یہ تو آپ کا طے کردہ مفہوم ہوا، ہمارا مفہوم تواس سے الگ ہے۔اور یہ صحیح ہے کہ ’ فطرت ‘کی ہماری اور ان کی تشریح اور تعبیر میں شدید اختلاف بلکہ ناگزیر تصادم ہے۔ اگر وہ کسی الٰہی مذہب کو تسلیم نہ کریں تو ہم انہیں کسی بھی طرح قائل نہیں کر سکتے کہ انسانی فطرت دراصل ویسی ہی ہے جیسی ہم سمجھتے ہیں۔وہ کہیں گے کہ چونکہ ہمیں ایسی خواہش ہوتی ہے اسی لیے ہماری فطرت ایسی ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے لیے فطرت کی بنیاد ’خواہش‘ پر ہے ۔ اور ہمارے لیے فطرت کی بنیاد’ حق‘ پر۔ اور حق وہی ہے جو خدا نے ہمارے لیے ٹھیرایا ہے۔اپنے لیے خود ہی حق کا تعین کرنا ہمارے لیے جائز نہیں ہے۔
لفظ فطرت کا استعمال عام معنوں میں بھی ہوتا ہے اور خاص معنوں میں بھی۔ عام معنوں میں انسانی فطرت میں اچھی اوربری تمام باتیں پائی جاتی ہیں۔ اورخاص معنوں میں ’’انسانی فطرت ‘‘سے مراد انسان کی صالح فطرت ہوتی ہے۔ٹھیک اسی طرح جیسے عام معنوں میں لفظ ’’دین‘‘ کے تحت دنیا کے تمام مذاہب آجاتے ہیں۔ لیکن اللہ کے نزدیک اسلام ہی وہ مذہب ہے جو صحیح معنوں میں ’’دین ‘‘ہونے کا درجہ رکھتا ہے۔ (ان الدین عنداللہ الاسلام) حالانکہ دنیا میں اسلام کے علاوہ بھی ادیان ہیں۔عام طور پر لوگ لفظ فطرت کے استعمال سے ناواقف ہونے کی وجہ سے کہتے پھرتے ہیں کہ’’ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم جنسیت کاجذبہ انسانی فطرت میں نہیں؟ یہ جذبہ تو ہم خود بھی محسوس کرتے ہیں۔‘‘ وہ محسوس کرتے ہیں یہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہے مگر ہم جنسیت کے جذبے کو انسان کی صالح فطرت میں شمار نہیں کیا جاتا ۔ جب بھی کسی قانون میں’’ غیر فطری جنسی تعلق‘‘ کا ذکر آتا ہے اس سے حقیقی مراد ’’ غیر صالح جنسی تعلق‘‘ ہوتا ہے ۔ قانون یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی انسان کی فطرت میں ہم جنسیت کا جذبہ نہیں ہے۔بلکہ قانون کا حقیقی منشا یہ ہے کہ انسان کی صالح فطرت میں اس جذبے کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔اس لیے ہم جنس پرستی ایک قابل سزا جرم ہے۔ ’ ’غیر فطری جنسی تعلق ‘‘ سے قانون کی حقیقی مراد’’غیر صالح جنسی تعلق ‘‘ہے۔
اب بات یہاں آکر ٹھہر جاتی ہے کہ انسانی فطرت میں کون سی خواہشیں صالح ہیں اور کون سی غیر صالح۔تو اب یہ حضرات کہیں گے کہ آخر مٹھی بھر لوگوں کو ہمارے لیے ’’صالح ‘‘ کیا ہے یہ طے کرنے کا اختیار کس نے دے دیا؟ کیا ہم سے پوچھ کر ہمارے لیے’’ صالح ‘‘ طے کیا گیا تھا؟ اور کیا دوسرے طے کریں گے کہ ہمارے لیے صالح کیا ہے؟ ہمارے لیے صالح وہی ہے جسے ہم خود صالح قرار دیں۔ ورنہ ایسے قوانین کے خلاف جہاد واجب ہے جو ہمارے لیے ہماری رضامندی کے بغیر ہم پر مسلط کر دیا گیاہے۔ ناز فائونڈیشن جیسی تنظیمیں جس نظام فکر و فلسفہ کی پروردہ ہیں ان کی دلیل اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی ۔صرف الفاظ اور انداز کا فرق ہوگا۔
تو پھر صالح کیا ہے اسے طے کرنے کا اختیار کسے ہوگا؟ خدا کو یا انسان کو۔ موجودہ نظام ِ فکر و عمل میںخدا کو صالح اور غیر صالح طے کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ یہاں جو بھی طے کرنا ہے انسان کو طے کرنا ہے اور جمہوری طور پر عوام کی اکثریت کو طے کرنا ہے۔ لیکن اسی جمہوریت میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اکثریت کو اقلیت کے لیے حق اور ناحق یا صالح اور غیر صالح طے کرنے (یعنی قانون بنانے) کا اختیار نہیں دینا چاہتے۔ وہ اقلیت کے مفادات کے لیے جمہوری طور پر جدو جہد کرتے ہیں اور رائے عامہ کو ہموار کرتے ہیں۔ ہم جنسیت کے حامی لوگ زیادہ تر اسی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم جنس پرستی کو ایک ماس موومنٹ کی شکل میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لیے جلسہ جلوس کرواتے ہیں۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے عام معنوں میں ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی فطرت میں اچھی اور بری دونوں چیزیں ہیں۔انسان اپنی فطرت میں موجود اچھی چیزوں کو نشوونما دیتا ہے (تزکیہ) اور بری چیزوںکا انسداد کرتا ہے(تدسیہ) ۔ایک صالح فطرت کو پروان چڑھانا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اب فطرت میں اچھی چیزیں کیا ہیں اور بری کیا اس کا فیصلہ کرنا ہمارے لیے مشکل بلکہ بعض صورتوں میں تو ناممکن ہے۔ اسی لیے ایک مسلمان اللہ کی واضح ہدایات کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے اور نامطلوب جذبوں اور بے فائدہ حرکتوں سے بچتا ہے۔وہ اتنا احمق نہیں ہوتا کہ نفس کی شرارتوں سے آگاہ نہ ہو۔ اسی لیے وہ اپنے نفس کے سلسلے میں چوکس رہتا ہے اپنے اندر ابھرنے والے ہر جذبہ کی نگرانی کرتا ہے۔ بعض جذبوں کی پرورش کرتا ہے اور بعض جذبوں کو فنا کر دیتا ہے۔
اس دنیا میں یقینا ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے جنسِ مخالف میں قطعاً کوئی جنسی کشش محسوس نہیں کرتے۔مگر ایسے لوگ انتہائی ناقابل لحاظ تعداد میںہیں۔اس لیے ہم جنس پرستی اگر کوئی چیز ہے بھی تو یہ عام انسانی آبادی کا مسئلہ نہیں ہے۔ عام انسانی آبادی میں ہم جنسیت پر مبنی جو مظاہر دیکھے جاتے ہیں ان کی حیثیت’’ہوس رانی اور لذت پرستی ‘‘ سے زیادہ نہیں۔ جولوگ اپنے جنس مخالف سے جنسی تعلق قائم کرنے سے واقعی معذور ہوں ، انہیں تو ایک لمحے کے لیے نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن جو لوگ ’’بائی سیکسوئل ‘‘ ہوں ، یعنی ان کی نگاہ مرد پر بھی جاتی ہو اور عورت پر بھی، تو ایسے لوگوں کی ہم جنس پرستی’’ ہوس رانی اور لذت پرستی ‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔ایسے لوگوں کو اپنے اندر ابھرنے والے اس جذبے کو روکنا چاہیے۔اور یہ کوئی مشکل نہیں ہے۔
جو لوگ جنسِ مخالف سے جنسی تعلق بنانے میں واقعی معذور ہیں ، انہیں اپنی معذوری کا علاج کرانا چاہیے۔ اگر ان کی نگاہ جنس مخالف کی طرف نہیں جاتی تو اس کے لیے ان کا علاج کیا جائے گا نہ کہ انہیں اس کی اجازت دی جائے گی کہ وہ اپنے ہم جنس سے جنسی تعلق قائم کریں گے۔ مر د ہوتے ہوئے عورت کی طرف مائل نہ ہونا ایک معذوری ہے، یہ ایب نارمل ہے، جسے نارمل بنانے کے لیے ہر طرح کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اور سائنسی طریقہ کار سے مدد لے کر ایسا کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔
ایسے ہم جنس پرست حضرات و خواتین جو واقعی معذور ہیں انتہائی ناقابل لحاظ تعداد میں ہیں ، اور ان کے مسئلے پرسنجیدگی سے غور کرنے کے بعد کوئی مناسب حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جو لوگ بائی سیکسوئل ہیں انہیں ’’انسانی حقوق ‘‘ کی دہائی دینے اور کا کیا حق ہے یہ ایک سلیم الطبع شخص کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اور ایک بڑی حقیقت تو یہ ہے کہ فی زمانہ ’’ہم جنس پرست ‘‘ کا استعمال ایسے معذور لوگوں کے لیے ہی استعمال نہیں ہو رہا بلکہ ان کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے جو درحقیقت ہم جنس پرست نہیں ہیں بلکہ ہم جنس پرستی کا ڈھونگ رچا رہے ہیں تا کہ انہیں آزاد شہوت رانی کی اجازت ملے۔
ایسے لوگ جو مرد اور عورت دونوں سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں ، بائی سیکسوئلز کہے جاتے ہیں۔اور ان کی تعداددن دونی رات چوگنی بڑھ رہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ فلم ، ٹی وی اور انٹر نیٹ کے ذریعے فحاشی اتنی بڑھ چکی ہے کہ مردو زن میں سے ہر ایک کو دوسرے کے جسم سے اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگی ہے۔ شکر زیادہ کھا لی جائے تو شکر کھانے کی خواہش کم ہوجاتی ہے اور نمکین چیزوں کی طرف طبیعت مائل ہو جاتی ہے۔ یہی حال مذکورہ معاملات میں ہے۔ اگر اسے اعتدال پر نہ رکھا گیا تو یہ کسی بھی حد پر جا کر نہیں رکتی۔ جدید فحاشی کی وجہ سے دونوں جنسوں کے مابین ایک دوسرے کے لیے کم ہوتی ہوئی دلچسپی کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ فحاشی کے سیلاب سے متاثر ہ افراد کا لاشعور اپنے ہم جنسوں میں جنسی کشش کے سامان ڈھونڈ لیتا ہے اور پھر شروع ہو جاتی ہے ’’ہم جنس پرست انسانی حقوق ‘‘ کی چیخ و پکار۔اور پھر ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے جانے لگتے ہیں۔ ناز فائونڈیشن جیسی تنظیمیں ان کے حق میں سرگرم عمل ہو جاتی ہیں۔
ہر قسم کے ہم جنس پرست حضرات و خواتین خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مرد اور مرد یا عورت اور عورت کے ملاپ سے سوائے لذت کے حصول کے کوئی بڑا نتیجہ برامد نہیں ہو سکتا، یعنی اس سے اولاد پیدانہیں ہو سکتی۔اولاد کے حصول کے لیے انہیں کسی نہ کسی سائنسی تکنیک کا سہارا لینا پڑے گا یا پھر و ہ کسی کو گود لے لیں گے۔ لیکن یہ سراسر ایک بناوٹی اور مصنوعی طریقہ ہوگا۔ اس سے حقیقی اولاد کی مسرتیں حاصل نہیں ہو سکتیں۔ہم جنسیت پر مبنی ازدواجی زندگی میں اولاد کے حصول کا یہ بنائوٹی اور مصنوعی طریقہ ہم جنسیت کے’’ غیر فطری‘‘ ہونے کی ایک مضبوط دلیل ہے۔ ہم جنسیت کوئی’’ فطری ‘‘جذبہ نہیں ہے اسی لیے اس کا نتیجہ بھی’’ فطری‘‘ نہیں ہو سکتا۔اسی سے لفظ ’ ’ فطری‘‘ کا ایک اور مفہوم قرار پاتا ہے:’’ تصنع سے عاری اور پاک ہونا‘‘۔ یعنی کسی ’’فطری‘‘ شئے میں کسی قسم کی انسانی صناعی مثلاً آپریشن کا دخل نہیں ہو سکتا۔ہم جنسیت پر مبنی جنسی تعلق ایک غیر فطری فعل اس لیے ہے کہ کسی مصنوعی طریقہ کار کا سہارا لیے بغیر ہم جنس جوڑوں کواولاد نہیں ہو سکتی۔
مگر ہٹ دھرمی اپناتے ہوئے بار بار یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہم جنس جوڑوں کو بھی اولادیں پیدا ہو سکتی ہیں اور اس میں کچھ زیادہ قباحت نہیں ہے۔ مثال کے طور پرکسی سائنسی طریقہ کار سے مدد لے کرہم جنس پرست مردبھی بچہ پیدا کرنے قابل ہو سکتے ہیں۔ اور سائنسی طریقہ کار ہی کی بدولت ایک ہم جنس پرست عورت بھی باپ بن سکتی ہے اور بعد میں باپ کا رول ادا کر سکتی ہے۔ بالفرض محال مرد کے اندر آپریشن کے ذریعے بچے دانی لگا نے اوراس میں نطفہ ڈال کر بچہ پیدا کرنے کی تکنیک اگر کامیاب بھی ہو جائے تو کیا اس پورے عمل کو ہم ایک لمحے کے لیے بھی ’’فطری‘‘ کہہ سکتے ہیں؟ اور جب بات آپریشن اور دوا علاج ہی کی ہوتو خود ’’ہم جنس پرستی ‘‘ کا علاج کیوں نہ کیا جائے؟یہ زیادہ صحیح اور سیدھا طریقہ ہے ایک نارمل زندگی جینے کا۔
ہم جنس پرستی اور جدید ذہن
آج کے ہم جنس پرست حضرات و خواتین اور ان کے حامی نہ کسی الٰہی مذہب کو تسلیم کرتے ہیںاور نہ سماج کے ذریعے عائد کی گئی اخلاقی قیود ہی کی پابندی کرتے ہیں۔ وہ کسی خدا کو اپنے اوپر حاکم نہیں سمجھتے ۔ ان کی نظر میں اپنی انفرادی آزادی ہی سب کچھ ہے۔ ایسے لوگوں سے کچھ بعید نہیں کہ آگے چل کر وہ کیسی کیسی گمراہیوں کا شکار ہوں گے۔ اور ایسے لوگ اسی حکومت، ریاست، مذہب اور سماج کو تسلیم کرسکتے ہیں جو ان کی خواہشِ نفس کے مطابق قوانین بنا کر دے۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی اکثریت تو نہیں لیکن ایسے لوگوں کی ایک خاصی تعداد ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی حکومتیںیکے بعد دیگرے ہم جنس پرستی کا قانونی جواز پیدا کرنے پر خود کو مجبور پاتی ہیں۔
عصر حاضر میں کسی کو یہ کہنے کی جرأت نہیں جو لوگ اس قسم کی حرکتوں یا ہم جنس پرستی میں ملوث پائے جائیں گے انہیں سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ یہ تقریباً دنیا کے متعدد ملکوں کے قانون میں ہم جنس پرستی کا جو جواز پیدا کیا گیاہے اسے ختم کر دیا جائے۔ ہندوستان کے سلسلے میں بھی یہی بات ہے ۔ ایک بارفرد کی آزادی اور حق خود اختیاری کے نقطہ نظر سے قانون میں’’ اصلاح ‘‘ کا جو دروازہ کھولا گیا ہے اسے کسی طرح بند نہیں کیا جا سکتا۔ خواہ مذہبی تنظیمیں اس کے لیے اپنا پورا زور لگا دیں۔یہ خام خیالی ہی ہو گی کہ خواہشِ نفس کے مطابق بدلتے ہوئے قوانین کوتقویٰ اور راستی پر لایا جاسکتا ہے۔اب قانون میں تبدیلی کا کوئی بھی مطالبہ ہم جنس پرستوں کا ایک ماس موومنٹ کھڑا کر دے گا۔ اس سے جو ماحول بنے گا اس میں کسی معقول بحث و مباحثہ کی گنجائش نہ ہوگی۔ پھر محاذ آرائی عقل کی سطح پر نہ ہو کر جذبات کی سطح پر ہوگی ۔ ماس موومنٹ ہمیشہ جذبات کی شدید رو میں اٹھتے ہیں اور غالب آجاتے ہیں۔ قانون میں تبدیلی کا مطالبہ دراصل ’’ہم جنس پرستی ‘‘ کے خلاف’ جبر ‘ اور طاقت کے استعمال کا مطالبہ ہے ۔ اور جہاں طاقت کی بات آتی ہے وہاںافہام و تفہیم اور عقل کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ پھر جو تحریک جس قدر عوامی حمایت حاصل کرے گی فتح اسی کی ہوگی۔ یورپی نشاۃ ثانیہ سے لے کر اس مابعد جدید دور تک تاریخ نے مذہب کی پے درپے شکست ہی کو دیکھا ہے۔مسلم ممالک کو چھوڑ کر دنیا کے اکثر و بیشتر ملکوں میں قانون سازی کا عمل مذہبی حدود و قیودسے آزاد ہے۔ اس لیے مذہب کے علمبرادروں کو حد درجہ احتیاط برتتے ہوئے ’’قانون‘‘ کی سطح پر ٹکرائو مول لینے سے بچنا چاہیے ۔
اب مذہب کے علمبرداروں کے لیے صرف ایک ہی راستہ باقی بچا ہے۔ وہ ہے تبلیغ و اصلاح کے ذریعے موجودہ صورت حال کو بدلنے کی جدوجہد کا پرامن راستہ ۔ اب ہم جنس پرستوںکے سلسلے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں جینے کا حق نہیں، انہیں زندہ دفن کر دیا جائے کیوں کہ وہ انسانیت کے دائرے سے خارج ہیں۔ اسی ضمن میں یہ سوال بھی پوری شدت سے اٹھتا ہے کہ کیا ہم جنس پرستوں کو محض ان کی ہم جنس پرستی کی وجہ سے ’’جینے کے حق‘‘ سے محروم کر دیا جائے یا کسی قسم کی سزا دے کر راہ راست پر لایا جائے۔
اس مابعد جدید دور میں اس قسم کی باتیں وہی لوگ کہہ سکتے ہیں ہیں جو نہ کسی مذہب کی صحیح اسپرٹ سے واقف ہیں اور نہ اس دور کے حقائق سے ۔ ایسے لوگ اگر اپنی ناعاقبت اندیشی کے سبب اس طرح کے مطالبات کریں گے تو اس سے ہم جنس پرستی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہو گا کہ اس کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے۔ اس دور کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ لوگ نظریاتی طور پر’فرد کی آزادی‘، ’اظہار خیال کی آزادی‘ اور’انسانی حقوق‘ میں بے پناہ یقین رکھتے ہیں اورکسی بھی قیمت پر اس نظریاتی آزادی سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جمہوریت ، انسان دوستی ، اور حقوق انسانی کا پروپیگنڈہ کچھ اس طرح کیا گیا ہے کہ یہ فی زمانہ مذہبی عقیدے کی طرح مقدس ہو گیا ہے۔بلکہ خود ایک مذہبی عقیدہ بن گیا ہے۔ جس طرح آج کل مذہبی عقائد کی توہین ہوتے دیکھ کر لوگ لڑ مرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اسی طرح جمہوریت ، سیکولرازم، اور انسانی حقوق جیسے ’ مقدس عقائد‘ کے لیے بھی سیکڑوں این جی اوز اور فلانتھروپسٹس Philanthropistموجود ہیں جو اپنا سب کچھ دائو پر لگا دینے لیے ہمہ تن تیارہیں۔ جس طرح مذہبی تنظیمیں اپنے اپنے مذہب کا پرچار کرنے میں ہمہ وقت لگی رہتی ہیں اسی طرح یہ غیرسرکاری تنظیمیں بھی اپنے ان ’مقدس عقائد‘ کا پرچار کرنے میں لگی ہیں۔
مگر عملی طور پر ساری دنیا اس وقت ’’کیجیے غلط، بولیے غلط نہیں ‘‘کے اصول پر عمل کر رہی ہے۔تقریباً ہم سب اسی اصول کو مانتے ہیں۔ اپنے مقدس عقیدے کو ٹھیس پہنچی نہیں کہ ہم اپنے جان و مال کی قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔لیکن جب خود ہی اپنے مذہبی اصولوں اور مقدس عقائد پر چلنے اور اس کو برتنے کی باری آتی ہے تو واقعہ یہ ہے کہ ٹیں بول جاتے ہیں۔ہم جنس پرستی کی حمایت میں بولنے والے زیادہ تر لوگ خود ہم جنس پرست نہیں ہیں ۔ ان کے اپنی ’’روایتی اور فطری طور پر ‘‘پیدا شدہ اولادیں ہیں اور وہ جنس مخالف کے ساتھ ازدواجی زندگی کی مسرتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ زیادہ تر لوگ جو اس کی حمایت میں ہیں وہ بس ’انسانی حقوق ‘ اور ’فرد کی آزادی‘ کے نام پر اپنے باطل عقائد کے جنون میں بول رہے ہیں۔
جس طرح متعددمذہبی عقائد یکسر باطل ہیں اسی طرح انسانی حقوق کے نام پر ہم جنسی کی آزادی کا یہ عقیدہ بھی یکسر باطل ہے۔سورج کی طرح روشن اس حقیقت کو کس طرح جھٹلایا جا سکتا ہے کہ مردوزن میں سے ہر ایک کو ایک دوسرے کے لیے پیدا کیا گیا ہے؟ اور اگر سائنسی آلات وغیرہ کو بیچ میں سے نکال دیا جائے تو بچہ بھی عورت ہی کو ہو سکتا ہے، مرد کو نہیں۔ اور رحم مادر عورت ہی میں ہو سکتا ہے مر د میں نہیں۔
رہی بات یہ کہ عام لوگ بھی اپنے ہم جنسوں کے لیے کشش محسوس کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہو سکتا کہ جو کچھ وہ محسوس کرتے ہیں اس کو کر ہی ڈالیں۔ ہمیں دنیا میں چند چیزوں سے رکنا ہوتا ہے، اور ہم رکتے ہیں ، اگر نہیں رکتے تو اس سے نقصان ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہیں نہ کہیں ہمیں رکنا ہے۔ اب یہ فیصلہ کون کرے گا کہ ہمیں کہاں رکنا ہے اور کہاں نہیں؟
ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ یا تو خدا کر سکتا ہے یا خود انسان ۔ اب جو لوگ خدا کے وجود ہی کو تسلیم نہ کرتے ہوں، یا یہی تسلیم نہ کرتے ہوں کہ اس نے کوئی کتاب نازل کی ہے ، ایسے لوگ خود ہی اپنے لیے راہ عمل متعین کریں گے کہ انہیں کس حد کو پار نہیں کرنا ہے۔ اب رہی بات یہ طے کرنے کی کہ کیا ’’ہم جنس پرستی ، چوری ، ڈاکہ زنی ، زنابالجبریا قتل عمد جیسا جرم ہے کہ اس کے ارتکاب پر مجرموں کو کسی بھی قسم کی ’’سزا ‘‘دی جائے؟اگر ہم جنس پرستی کو ’فرد کی آزادی اور حقوق انسانی‘ کی بنیاد پر جائز قرار دیا جاتا ہے تو اسی دلیل سے ہر قسم کے جنسی تعلق ، خواہ کسی بھی شئے یا جاندار کے ساتھ ہو‘ سے بھی منع نہیں کیا جا سکتا ۔ عقل کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ جنسی معاملات میں صرف ہم جنس پرستوں کو ہی رخصت نہ دی جائے بلکہ Animal Sexسے لے کر Incestتک کوجائز قرار دیا جائے کیوں کہ یہ بھی انسانی حقوق اور فرد کی آزادی کا معاملہ ہے۔
دور حاضر کے ارباب ِ عقل اپنے فہم و فکر کے مطابق خود ہی قانون بناتے ہیں اور خود ہی آگے چل کر اسے رد کر دیتے ہیں۔ کسی زمانے میں امریکہ میں شراب پر پابندی لگی تھی اور بعد میں وہ پابندی مجبوراً ہٹا دینی پڑی۔ کیوں کہ پابندی کی وجہ سے شراب اور زیادہ مقدار میں فروخت ہونے لگی تھی۔ پابندی لگانے ، یا رخصت دینے کا یہ عمل جدید ذہن و فکر کی پرانی عادت ہے۔ جس چیز کا دل چاہا اس کے لیے پہلے تو اس نے عقل سے دلیل فراہم کی اور پھر اسے عوام کے لیے جائز کر دیا یا پھر اس کو سرے سے حرام ہی قرار دے دیا۔ حلال و حرام کی سخت تاکید صرف مذہبی لوگوں کی نہیں بلکہ جدید ذہن کے افراد کی سرشت میں بھی کوٹ کوٹ کر بھراہے۔مختلف ملکوں کے جدیدقوانین میں لگائی گئی حلت و حرمت کو تسلیم نہ کرنے پرمختلف مذاہب کے لوگوں کو کٹر پنتھی، دقیانوسی اور انتہاپسند ، جیسی گالیوںسے نوازا جاتا رہا ہے۔ مسلمانوں کے اس سلسلے میں بڑے تلخ تجربات ہیں۔ جدید قانون کے مطابق میں عام طور پرایک ہندو یا عیسائی یا دہریہ ایک سے زیادہ بیوی نہیں رکھ سکتا۔ حالانکہ غور کیا جائے تو یہ قانون بھی انسانی حقوق کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اگر دو عورتیں خود چاہتی ہوں کہ وہ ایک مرد کی زوجیت میں رہیں تو آخر انسانی حقوق کے ٹھیکداروں، جدید ذہن کے علمبرداروں کو واویلا مچانے کی کیا ضرورت ہے کہ ایک سے زیادہ بیوی رکھنا غلط ہے، غیر انسانی ہے ؟اور نہ صرف واویلا بلکہ صدیوں سے ایسا نامعقول قانون بھی بنا ہوا ہے ۔ کیا دنیا کی تمام عورتوں سے پوچھ کر ایسا قانون بنایا گیا تھا؟اور یہ بات محتاج ثبوت نہیں ہے کہ بے شمار فراخ دل خواتین ایسی ہیں جو دوسری تیسری یا چوتھی بیوی بننا بہ خوشی قبول کر سکتی ہیں۔ اس لیے جدید قوانین فرداً فرداً پوچھ کر نہیںبنائے گئے۔یہ من مانے (Arbiterary)ہیں۔ان کی حقیقی بنیاد عقل پر نہیں ، خواہشِ نفس پر ہے۔ لیکن بظاہر ہمیں ایسا نظر آتا ہے کہ جدید قوانین عقل پر مبنی ہیں۔ حالانکہ عقل سے ان کا بہت کم واسطہ ہے۔چونکہ جدید ذہن Trial and Errorکے اصول پر کام کرتا ہے اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ جس چیز کو جدید ذہن آج انسانیت کے لیے بے ضرر سمجھ رہا ہے کل اسی چیزکو نقصان دہ قرار دے سکتا ہے۔ابھی ہم جنس پرستی کی رخصت دی جا رہی ہے اور کل یہی جدید ذہن ہوگا جوایک صدی بعد اس کے بھیانک اثرات دیکھنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے ہم جنس پرستوں کا قتل عام شروع کرے گا ۔
ہم جنس پرستی کے حامیوں کی موجودہ چیخ و پکار سے ہرگز یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ محض خواہش نفس کے ماروں کا کوئی جم غفیر اٹھ کر کھڑا ہو گیا ہے جو لذت پرستی کو عام کرنا چاہتا ہے۔ اس کے حامی انسانی حقوق اور انفرادی آزادی کے اپنے عقیدے کے جنون میں بول رہے ہیں۔ لہٰذاجب تک اس عظیم فتنے کاعقلی اور فلسفیانہ جائزہ نہ لیا جائے ، اور عوام کو اس کے نتائج و عواقب سے آگاہ نہ کیا جائے ، اس وقت تک اس فتنے کا سد باب ناممکن ہے۔
ایک آفاقی قانون
مردو زن کے مابین جنسی کشش کائنات میں ہر لمحہ جاری و ساری ایک عام قانون کے ماتحت ہے۔ اس قانون کو محض بہتر طور پر سمجھنے غرض سے ’’مثبت منفی کشش ‘‘کا آفاقی قانون کہیں گے۔ اس قانون کو اچھی طرح سمجھ لینے سے ہی ’ہم جنسیت‘ کے فریب کا پردہ چاک کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کی ہر شئے اور ہر جنس کے لیے اس کا ایک جوڑا یا مخالف جنس موجود ہے۔ ہر جنس کے لیے اس کی ایک مخالف جنس پیدا کی گئی ہے ۔ کوئی بھی جنس اپنے جنسِ مخالف ہی کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم اجالے کو اجالے کے سبب نہیں بلکہ اندھیرے کے سبب پہچانتے ہیں۔مثبت برقی رو کی شناخت منفی برقی رو سے ہوتی ہے اور منفی برقی رو کی شناخت مثبت سے۔
مردوزن میں سے ہر ایک کی شناخت بلکہ ہر ایک کا وجود بھی دوسرے پر منحصر ہے۔اگر ایک کا وجود نہ ہوگا تو دوسرے کا وجود بھی برقرار نہیں رہ سکتا ۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ مرد عورت سے وابستہ رہ کر ہی زندگی کی حقیقی مسرت حاصل کر سکتاہے۔ اِس کے بغیر مرد کی زندگی بے کیف اور ویران ہو کر رہ جاتی ہے اور اس کی مردانگی پر ُمردنی چھا جاتی ہے ۔ پھر وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔
اس قانونِ فطرت میں مداخلت کی جو استطاعت انسان کو حاصل ہے اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ انسان کی آزمائش کی جائے ۔ خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا انسان اس کی عطا کردہ قوت کا اچھا مصرف لیتا ہے یا برا۔ خدا کی عطا کردہ قوت کی بدولت کائنات کے اس بالاتر قانون میں مداخلت کے بعد بھی یہ قانون اپنی مسخ شدہ شکل میں جاری رہتا ہے۔ مثال کے طور پردو ہم جنس پرست اشخاص آپس میں نکاح کریں تو ان میں سے ایک مرد یعنی میاں کا رول ادا کرے گا اور دوسرا عورت یعنی بیوی کا۔ہم جنس جوڑے کسی سائنسی طریقہ کارکی مدد سے اولاد بھی حاصل کرلیتے ہیں یا کسی لاوارث بچے کو گود لے لیتے ہیں۔ مگر دونوں ہم جنسوں میں سے ایک باپ کا رول ادا کرنے پر مجبور ہوگا اور دوسرا ماں کا رول۔ یعنی مردوزن کے اس تصور سے چھٹکارا ناممکن ہے خواہ انسان کچھ بھی کر لے۔ پس یہ ثابت ہوا کہ مسخ کیے جانے کے بعد بھی یہ قانون اپنی بگڑی ہوئی شکل میں باقی رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ’خود ‘ یا ’’اپنے جیسے ‘‘ سے محبت کرنے کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ اس کی ایک واضح حد مقرر کر دی ہے۔ اس مقررہ حد کے بعد’خود ‘ یا’ اپنے جیسے‘ سے محبت درحقیقت محبت ہی نہیں رہتی بلکہ وہ مسخ ہو کر’’ خودپسندی اور خودپرستی ‘‘کے جذبات میں بدل جاتی ہے۔
’مرد ‘ عورت کا’’ مخالف جنس‘‘ یا اس کا’ غیر‘‘ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو اس کی قدروقیمت بتاتے ہیں۔دونوں ایک دوسرے کے لیے آئینے کی طرح ہیں۔ جس میں دونوں اپنی حقیقی صورت دیکھتے ہیں۔ دونوں کا وجود ایک دوسرے کی اخلاقی و عمرانی زندگی کے لیے آکسیجن کی طرح ضروری ہے۔انسان کا مردانہ وجود(Male Self) انسان کے نسوانی وجود(Woman Self) کی جستجواور آرزو ہے ۔
ہم جنسیت کے حامی کائنات کی اس حقیقت کبریٰ سے بے خبر ہیں۔ ہم جنس پرست اس آئینے کو چور چور کر دیتے ہیں جو انہیں ایک صالح جنسی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرسکتا تھا۔ ہم جنسیت اپنا کر وہ اپنا آئینہ آپ بننے کی ناکام سی کوشش کرتے ہیں ۔ یہی خود بینی وہ بھرم ہے جس میں پڑکر وہ ’’اپنے جیسے‘‘ سے جنسی طور پر وابستہ ہوتے ہیں۔
ہم جنس پرستی کی تعریف:
ہم جنسیت بھی ایک قسم کی خود پرستی ہے جس کا تعلق انسان کیجنسی جذبے سے ہے۔ اس میں انسان اپنے جیسا نظر آنے والے سے Attachہوتا ہے۔ اور اس طرح کائنات کے اس بالاتر قانون میں مداخلت کرتا ہے جس میں مداخلت کرنے میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔اکثر اوقات یہ ہم جنس پرستی لوگ خود ہی اختیار کرتے ہیں۔
اوپر کی باتوں کی روشنی میں ہم جنس پرستی مندرجہ ذیل تعریف کی جا سکتی ہے۔
’’ہم جنس پرستی درحقیقت ایک پیدائشی ، حادثاتی یا اختیاری مرض یا معذوری ہے جس کی وجہ سے فردایک جنسی کرائسس میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اپنے جیسے جنسی اعضا رکھنے والوں سے مجامعت کی خواہش رکھتا ہے۔‘‘
اور اس جنسی کرائسس (فتنے) کے نتیجے میں نوعِ انسانی کا تسلسل متاثر ہوتا ہے اور اگر ہم جنس پرستوں کی تعداد حد سے زیادہ بڑھی تو اس کے نتیجے میں دوسرے سماجی، سیاسی، معاشی، ماحولیاتی ، اخلاقی، نفسیاتی اور صحت ِ عامہ کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس کے اثرات بد اتنے دور رس ہونگے کہ اس کا احاطہ کرنے کے لیے پوری ایک کتاب بھی کافی نہ ہوگی۔
——