انبیاء کرام اور ان کی پیروی کرنے والے نیک اور صالح لوگوں کے سامنے یہی مقصد تھا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اور دوسرے سارے کلمے اس کے سامنے پست ہوں۔ اسلام کے بارے میں سبھی کو یہ معلوم ہے کہ وہ تمام انسانوں کو خدا کی بندگی کی دعوت دیتا ہے اور ان میں بھی خصوصاً مسلمانوں کو پکارتا ہے کہ وہ اپنا چھوڑا ہوا فرض بجالائیں۔ وہ انسانی زندگی کے سارے گوشوں کو بندگیٔ رب کے تحت لانا چاہتا ہے۔ جس طرح انسان اللہ کا بندہ ہے اور سارے کا سارا ہی اللہ کا بندہ ہے۔ اس کا کوئی عضو اور کوئی جذبہ اللہ کی تخلیق ہونے سے انکار نہیں کرسکتا۔ اسی طرح انسان کی زندگی کا کوئی گوشہ بھی اللہ کی بندگی سے منحرف نہ ہو۔ نہ گھر میں، نہ بازار میں، نہ دربار میں۔ کہیں پر وہ خود مختارنہیں ہے۔ ہر جگہ وہ ایک مالک الملک کا بندہ ہے۔ اسی لیے اسے بندگی کے آداب زندگی کے ہر گوشے میں بجالانے چاہئیں۔ فرد کو اپنی انفرادی زندگی میں، معاشرے کو اپنی اجتماعی زندگی میں اور دونوں کو اپنی زندگی کے ہر گوشے میں!
اسلام یہ تبدیلی اس لیے لانا چاہتا ہے کہ اس کے نزدیک بندے کو اپنی زندگی خدا اور قیصر کے درمیان تقسیم کرنے کا کوئی حق کہیں سے نہیں ملا ہے۔ سارے بگاڑ کی جڑ یہی ہے کہ انسان جو حقیقت میں اللہ کی مخلوق ہے، زندگی کے مختلف گوشوں میں اپنے خالق کے احکام سے بھاگ کر کبھی اپنے اورکبھی دوسرے انسانوں کے احکام نافذ کرکے زندگی کی مشینری کو بگاڑتا رہتا ہے۔ سارے بگاڑوں کی جڑ اپنے اور اس کائنات کے مالک سے انحراف ہے اور ایک مسلمان کا انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے فریضہ ہی یہ ہے کہ وہ عمر بھر اس بات پر کمر بستہ رہے کہ خود بھی اور دنیا کو بھی اس راہ راست پر چلائے جسے وہ صراطِ مستقیم قرار دیتا اور نجاتِ اخروی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسلام اس کام کو کس طرح سر انجام دینا چاہتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کے عین مطابق دل و دماغ کی تبدیلی اور اصلاح احوال کا کام چار مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ویسے تو یہ کام ایک ہی ہے یعنی بندگیٔ رب کو انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنا یا دوسرے لفظوں میں مسلمانوں کو مختلف بھٹکنے والی راہوں سے ہٹا کر اسلام پر یکسو کردینا۔ لیکن تقسیم کار اور ترتیب و تدریج کے لیے اسے چار نمایاں درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
اصلاح کے کام کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ سب سے پہلے لوگوں کے دل و دماغ کو اسلام کے لیے یکسو کیا جائے۔ ان میں اسلام کا شعور پیدا کیا جائے۔ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ اس کی شناخت اور پہچان پیدا کی جائے، انھیں اسلام کا علم کھول کھول کر بتایا جائے۔ اس طرح ان کو اسلام پر مطمئن اور غیر اسلام پر غیر مطمئن کردیا جائے۔ ان کے اندر جو صدیوں کے پیہم انحطاط سے بہت سے غیر اسلامی افکار و اعمال اسلامی لبادے اوڑھ کر گھس گئے ہیں۔ ان کی چن چن کر نشاندہی کی جائے اور ان کو بہت سے غیر اسلامی نظریات وخیالات نے جو مرعوب کررکھا ہے تو ان کا رعب ان پر سے دور کرکے اسلام کی سچائی اور صداقت ، دلائل کے ساتھ واشگاف انداز میں ان پر ثابت کردی جائے۔ پھر اسلام کے نقشے پر زندگی کی عمارت کس طرح تعمیر ہوسکتی ہے، وہ ان کے معاشی، سیاسی، معاشرتی، تعلیمی اور تمدنی مسائل کو کس طرح حل کرسکتا ہے اور جدید مغربی تہذیب کے مقابلے میں وہ کس طرح بہتر اور برتر ہے اور مسائل کو حل کرنے میں فائق تر ہے۔یہ چیز واضح اور بین انداز میں ثابت کردی جائے۔ چنانچہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی اللہ کے کچھ نیک بندوں نے وسیع اور جامع دعوتی لٹریچر کے ذریعے یہ خدمت اپنی قوم کے اندر جس حد تک سر انجام دی ہے اور اس کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس کے نتیجے میں جس طرح مسلمانو ںمیں اسلامی شعور کی ایک پرزور لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ اس سے ساری باخبر دنیا کے لوگ اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اب اسلام کی دعوت پیش کرنے والا وہ اسلامی لٹریچر ہمارے ملک سے نکل کر دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل رہا ہے۔
اس کام کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ قوم کے اندر سے جو جو حضرات مردوں میں،عورتوں میں بوڑھوں میں، جوانوں میں، زندگی کے مختلف طبقات میں، جہاں جہاں بھی اس بات پر آمادہ ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور اس حق کے لیے جسے انھوں نے فہم و شعور اور تحقیق و مطالعہ سے حق تسلیم کیا ہے۔ کچھ ایثار و قربانی اور جدوجہد کرنے پر آمادہ ہوں۔ ان سب کو تنظیم کی لڑی میں پرودیا جائے۔ اپنی قوم کے اندر سے ایسے افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھوج کھوج کر نکالا جائے، اور نکال نکال کر انھیں دین کے کام کے لیے منظم کیا جائے اور اس تبلیغی تنظیم کی قوت کو اس طرح بڑھایا جائے کہ پوری طرح ساتھ دینے والوں کو پوری طرح تبلیغ کے کام پر لگایا جائے اور جس سے جتنا تعاون ملے اسے قبول کیا جائے۔ کام اسی طرح پہلے بھی ہوا ہے اور بحمداللہ اب بھی ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے۔
انقلابی تبدیلی لانے کے لیے ان افراد کو محض منظم کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ان کی مناسب ذہنی،اخلاقی اور دینی تربیت بھی کی جائے تاکہ جو عظیم کام ان کے سامنے ہے اور جس مالک کا کام وہ کرنے اٹھے ہیں، اس کی فوج کے اہل تر سپاہی بن سکیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی زبانیں تو اسلام کے ذکر سے ترہوں اور ان کے ہاتھ پاؤں اسلام کے خلاف گواہی دینے میں مشغول ہوں۔
اس کام کا تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ پورے معاشرے کے اندر اجتماعی اصلاح کی جدوجہد اور مساعی کا ایک سلسلہ قائم کردیا جائے۔ سوسائٹی کا کوئی طبقہ ایسا نہ رہے، جس تک اصلاحِ حال کی دعوت نہ پہنچائی جائے اور کوئی مسئلہ ایسا نہ رہے جس کا اسلامی حل پیش نہ کیا جائے، کوئی گوشہ ایسا نہ رہے جہاں اصلاح کے داعی اور تبدیلیِ احوال کے مبلغ اپنی دعوت لے کر نہ پہنچیں اور انھیں اصلاح پر نہ ابھاریں۔ پرانے جمود اور نئی تہذیبی مرعوبیت نے قوم کے اندر جو علیحدہ علیحدہ رجحانات پیدا کردیے ہیں، ان کی اصلاح ہو اور وہ دونوں اعتدال کا راستہ اختیار کرکے صرف اسلام کو مزاجاً اور عملاً اختیار کریں اور اس کو دورِ حاضرکے مسائل کی شاہِ کلید سمجھ کر اسی کی طرف رجوع کریں۔ مزدور، کسان، طلبا، خواتین، تاجر، اجیر، عالم، ادیب کوئی ایسا نہ ہو جو اسلام کے سرچشمے سے اپنے مسائل کا حل نہ پائے۔ جس کو اسلام میں اپنی عافیت محسوس نہ ہو جس کے اندر اسلام کی فکر پیدا کرکے اسے اسلامی نظامِ حیات کی برکات پر مطمئن نہ کرلیا جائے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر اجتماعی مسائل میں قوم کے دست و بازو بن کر اس کی مدد بھی کی جائے۔ اس کے محتاجوں کے لیے اعانتیں جمع ہوں۔ اس کے بیماروں کے لیے شفا خانے کھولے جائیں۔ اس کے کمزوروں کی آواز بلند کی جائے۔ اس کے اَن پڑھوں کے لیے مدارس اورتعلیم بالغان کے مراکز کھولے جائیں۔ اس کے دیہاتوں میں صفائی، ستھرائی اور حفظانِ صحت کا سلیقہ پیدا کیا جائے۔ اس کے مظلوموں کی مدد کی جائے، اس کے مزدوروں کو اشتراکیت کے شکاریوں سے بچاکر سمجھ بوجھ سے کام لینے اور اپنے آپ کو تباہ کرنے سے بچایا جائے۔ غرض یہ کہ اسلامی طرزِ زندگی کا علمبردار ہر فرد قوم کے اندر گھس کر جس جس مقام پر جس جس نوعیت کا اصلاحی کام کرسکتا ہو اسے پوری قوت سے شروع کردے تاکہ ہر طرف سے اصلاح اخلاق و عمل کی لہریں اٹھیں اور گندے افکار اور برے اعمال کا دھارا تھم جانے پر مجبور ہوجائے اور یوں پوری قوم کے اندر سے چھٹ چھٹ کر اصلاح پسند عناصر ایک موقف، ایک مقصد اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں۔
اس کام کا چوتھا مرحلہ یہ ہے کہ حکومت کی بھی اصلاح ہو۔ آج کے اس زمانے میں حکومت زندگی کے سارے گوشوں کو نہ صرف متاثر کرتی ہے بلکہ انھیں اپنے دائرے میں لے کر ان کے لیے سمتِ سفر تک متعین کرتی ہے۔ آئندہ آنے والی پوری نسل اس کے بتائے ہوئے نقشۂ تعلیم و تربیت کے مطابق تیار ہوتی ہے۔ لوگ ریڈیو حکومت کے بنائے ہوئے پروگراموں کا سنتے ہیں۔ سینما اس کی پاس کی ہوئی فلموں کا دیکھتے ہیں۔ کاروبار حکومت کے چلائے ہوئے نظامِ تجارت کے مطابق کرتے ہیں، جھگڑے اور تنازعے اس کی قائم کی ہوئی عدالتوں کے پاس لے کر جاتے ہیں۔ لین دین اس کے چلائے ہوئے اور بنائے ہوئے ضوابط و قواعد کے مطابق کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ سڑک پر اس کی بتائی ہوئی سمت پر چلتے اور ایک معمولی پوسٹ کارڈ اس کی لگی ہوئی مہر والا خرید کرڈاک میں ڈالتے ہیں۔ زندگی کا کوئی گوشہ حکومت کی ہمہ گیر گرفت سے محفوظ نہیں ہوتا۔ اگر نیک، صالح اور خدا ترس حکومت ہو تو وہ جنت کا درخت ہے، جس کے پھل میٹھے، جس کا سایہ ٹھنڈا، جس کی ہوا معطر اور جس کا منظر شاداب ہے ، اور اگر وہ ناخدا ترس، خود غرض، ظالم اور بری حکومت ہوتو وہ دوزخ کا ایک ایسا گڑھا ہے جس کے پھل انگارے، جس کا سایہ شعلے، جس کی ہوا دھواں اور جس کا منظر ہیبت ناک ہے۔ پہلے زمانے میں ایسی بری حکومت کا مسلط ہوجانا کچھ دوسری نوعیت رکھتا تھا۔ اسے ہٹانا مشکل ہوتا تھا۔جب تک فوجیں جمع کرکے اس کے خلاف کھلم کھلا جنگ نہ لڑی جائے اور اس کے قلعے فتح کرکے اس کو مسخر نہ کرلیا جائے،لیکن اس کے نقصانات آج کے مقابلے میں کم تھے۔ ذرائع و اسباب اور سائنسی ایجادات کی کمی کے باعث وہ زندگی کے سارے پہلوؤں پر حاوی نہ ہوتی تھی۔ لیکن آج کی بری حکومت کو ہٹانے کے لیے فوجوں کی فراہمی اور قلعوں کی تسخیر کی ضرورت نہیں۔ عوام کے ووٹوں کو ہمنوا بناکر اسمبلی کی نشستوں کو فتح کرلینا حکومت کو بدل دینے کے لیے کافی ہے۔ اس زمانے کی جنگ میں خواتین کے ووٹوں کی قوت مردوں کے برابر اثر رکھتی ہے اور اچھی یا بری حکومت لانے میں وہ برابر کا حصہ ادا کرتی ہیں۔
موجودہ زمانے میں اسلام کے مطابق اصلاح کی چوتھی تدبیر یہ ہے کہ انتخابات میںحصہ لے کر نیک مردوں اور نیک عورتوں کی منظم قوت سے بدی اور فسق و فجور کی قوتوں کو پیچھے دھکیلا جائے اور نیک لوگوں کو اسمبلی میں بھیجا جائے تاکہ مسلمان قوم کی نمائندگی اسمبلی میں بھلے لوگ کریں۔ اس کے کاموں کے مختار بھلے لوگ ہوں۔ اس کی امانتوں کے امین دیانتدار لوگ ہوں۔ اس کے لیے ضوابط بنانے والے خدا اور رسولؐ کے ضوابط میں بندھے ہوئے اور ان کے پابند ہوں۔ نیکی چاہنے والے اور نیکی کرنے والے اگر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں تو وہ نیکی ہی کریں گے اور نیکی ہی پھیلانا چاہیں گے۔ اسلام کے معیار پر پورا اترنے والی کسی بھی اسلامی جماعت کے نزدیک نظامِ حیات کے مکمل انقلاب کی یہی آخری تدبیر ہے کہ انقلابِ قیادت ہوجائے۔
——