اس وقت میرے سامنے ایک خط ہے جو ڈاک سے میرے پاس پہنچا ہے۔ خط لکھنے والے (جسے میں نہیں جانتا اور نہ ہی ایسی کوئی علامت خط میں موجود ہے کہ میں اسے پہچان سکوں) نے ایک ایسا واقعہ بیان کیا ہے جس کی ہر سطر اشک بار ہے اور جو غم و اندوہ کی آگ میں جھلسے ہوئے دل کا حال بیان کر رہا ہے۔صاحب خط نے لکھا ہے کہ وہ ایک پاک دامن و پاک باز شخص ہے۔ دین کی رسّی کو تھامے ہوئے ہے اور بلندی کردار سے آراستہ ہے۔ اس کی ایک بیٹی ہے جو قدم بہ قدم برائی کے راستے پر چلتی چلی جا رہی ہے، حتی کہ اس نے حجابات چا ک کر ڈالے، برے لوگوں کی صحبت اختیار لی ، پھر اس آخری حد کو پہنچ گئی جو گمراہی کے راستے پر چلنے والی ہر لڑکی کی آخری منزل ہوتی ہے۔
وہ کہتا ہے کہ اس سب کی وجہ پہلے نمبر پر اسکول ہے اور دوسرے نمبر پر کالج اور یونیورسٹی ہے۔ اس کے بعد اس نے بیٹی کی سہیلیوں اور اس کی بیٹی کو پڑھانے والی معلمات پر لعنت بھیجی ہے اور اس معاشرے پر لعنت بھیجی ہے جس نے ان لڑکیوں کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
میں نے اس شخص کو جواب میں لکھا : میں جانتا ہوں کہ تم غم و اندوہ سے دوچار ہو، لیکن میں اب تمھارے لیے کیا کر سکتا ہوں؟
کیا وقت رہتے تم مجھے یہ خط نہیں لکھ سکتے تھے؟
اب جب کہ گھر آگ کے شعلوں میں گھِر چکا ہے، پانی سر سے اونچا نکل چکا ہے، جسے جل کر خاک ہونا تھا وہ ہو چکا یا جسے غرق ہو نا تھا ہو چکا۔ اب میں اس میں آپ کے لیے کیا کروں؟ چڑیا چگ گئی کھیت تو اب پچھتائے کیا ہوت؟
مریض کی موت واقع ہوجانے کے بعد ڈاکٹر کو بلایا جائے گا تو وہ کیا کر لے گا؟ کچھ نہیں ہو سکتا میرے بھائی؟ آپ کی تعزیت کے علاوہ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں بھی بس اللہ سے دعا کر سکتا ہوں کہ اس مصیبت پر آپ کو صبر دے۔
اگرچہ میں مذکورہ شخص کی مدد کرنے سے قاصر ہوں ، تاہم ان دوسرے لوگوں کی مدد کرنے سے قاصر نہیں ہوں جن کا حال ابھی اس انجام تک نہیں پہنچا ہے۔اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ میں بھی اس کے ساتھ وہی کر رہا ہوں جو وقت اس کے ساتھ کر رہا ہے اور میں اس کے درد میں اضافے کا سبب بن رہا ہوں، تو میں اس سے یہی کہتا کہ اے لڑکی کے باپ ، غلطی تیری ہے۔ اے لڑکی کی ماں غلطی تیری ہے۔یہ لعنت — اگر اسے لعنت کہنا جائز ہے — اپنی بچی پر لادنے والے دوسروں سے پہلے آپ دونوں ہیں۔
اگر تم نے اپنے گھر اور اپنی بیٹی پر نگاہ رکھی ہوتی ، کام کی مصروفیت یا لہو و لعب یا دوست و احباب کے ساتھ جاکر چائے نوشی اور گپ بازی نے تمھیں گھر اور بیٹی کی ذمہ داری سے عافل نہ رکھا ہوتا، اور اے لڑکی کی ماں! اگر تم نے اپنے گھر اور بیٹی کی نگرانی کی ہوتی، سلائی کڑھائی، فلم اور سیریل اور پڑوسنوں سے ملاقاتوں نے تمھیں بیٹی سے غافل نہ رکھا ہوتا، اگر گھر کو تم نے آیائوں اور خادمات کے حوالے نہ کیا ہوتا تو وہ نہ ہوتا جو ہوا ہے۔
اگر چہ میں اسکول کو بری الذمہ قرار نہیں دے رہا ہوں، نہ معاشرے کو ہی کلین چٹ دے رہا ہوں۔ باپ ذمہ دار ہے، معلم بھی ذمہ دار ہے، صحافی بھی ذمہ دار ہے، قانون وضع کرنے والا بھی ذمہ دار ہے، ہر شخص ذمہ دار ہے ،لیکن یہ تمام لوگ ذمہ داری کی فہرست میں سب سے آخر میں ہیں اور بگاڑ کی شکار ہونے والی لڑکی یا لڑکے کی ذمہ داری ان پرسب سے کم عائد ہوتی ہے۔
اللہ تعالی نے نفس کے اندر جنسی جبلت رکھ دی ہے اور اس کا ایک راستہ متعین کر دیا ہے ۔ یہ جبلت اپنے راستے پر اسی طرح چلتی رہتی ہے جس طرح دریا کا پانی اپنے راستے پر بہتا رہتا ہے۔ اللہ نے اس کے لیے باڑھ بھی بنا دی ہے تاکہ وہ اپنے راستے سے روگردانی نہ کرے اور طغیانی کی صورت میں اپنے راستے سے باہر نہ نکل جائے جس طرح دریا کا پانی طغیانی کی صور ت میں نکل پڑتا ہے اور کھیت کھلیان کو برباد کرتا چلا جاتا ہے۔
اس جبلت کا فطری راستہ شادی ہے۔ اس راستے سے بھٹکنے کا مطلب بغاوت اور فساد ہے۔ لیکن ہم نے اللہ کی اس فطرت کی مخالفت شروع کر دی۔ اس جبلت کے فطری راستے کو مسدود کر دیا اور اس کی حدود و قیود کو ختم کر دیا۔
ہم نے(عملاً) نوجوان لڑکیوں سے کہا: شادی ممنوع ہے، یہی وجہ ہے کہ نوجوان لڑکے حرام کاری کے سبب شادی سے غافل ہو گئے ہیں۔ ہم نے نوجوانوں کو یہ بتایا کہ شادی مشکل امر ہے۔ شادی کی راہ میں سو دقتیں حائل ہیں ۔ حرام راستہ آسان ہے اور اس کی طرف سینکڑوں بلانے والے موجود ہیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ نکاح کی تعداد کم ہوگئی، بدکاری کے واقعات زیادہ ہونے لگے اور اس کی شکار بنی بیٹی!
نوجوان آتا ہے اور لڑکی کو بہکاتا ہے ۔ جب دونوں مل کر گناہ کر چکتے ہیں تو لڑکا تو صاف ستھرا ہو کر چل دیتا ہے او رلڑکی تنہا اس گناہ کا بوجھ اٹھائے رہتی ہے۔بعد میں لڑکا توبہ کر لیتا ہے اور معاشرہ اس کے گناہ کو بھول جاتا ہے۔اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ لڑکی بھی توبہ کر لیتی ہے لیکن معاشرہ اس کی توبہ کبھی قبول نہیں کرتا۔ پھر جب یہی نوجوان شادی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسی لڑکی سے اعراض برتتا ہے جس کو خراب کر چکا ہے۔ اس سے خود کو بری کر کے یہ کہنے لگتا ہے کہ میں فاسد عورت سے شادی نہیں کروں گا۔
اب لڑکی کیا کرے۔ شادی ممنوع ہو گئی ، بدکاری مباح ہوگئی ۔ جنسی جبلت و رغبت موجود ہے لیکن اس رغبت کو روک کر رکھنے والے موانع مفقود ہیں۔
آپ لوگ کہتے ہیں: کیا ہم نے شادی سے روکا ہے؟
ہاں، آپ لوگوں نے ہی شادی سے روکا ہے۔ آپ حضرات نے زور زبردستی کر کے نہیں روکا ہے ، بلکہ اپنے عمل کے ذریعے اسے شادی سے روک رکھا ہے۔
جنسی رغبت کا آغازپندرہ برس کی عمر میں ہو جاتا ہے۔ بیس سے پچیس برس کے درمیان میں یہ رغبت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ کیا نوجوان لڑکا اس عمر میں شادی کر سکتا ہے؟ کیسے کرے گا؟ جب کہ نظام تعلیم اس عمر میں اسے طالب علمی کی میز پر ہی بٹھائے رکھتاہے اور اگر اعلی تعلیم کے لیے وہ یوروپ یا امریکہ چلا گیا تو تعلیم کا سلسلہ تیس سال کی عمر تک دراز ہوجاتا ہے۔
پھر وہ کیسے شادی کر لے گا؟
اور اگر شادی کا سوچ بھی لے تو مال کہاں سے آئے گا۔ ابھی تو وہ خود اہل و عیال کی فہرست میں شامل ہے۔ ہٹا کٹا جوان، جسم پر کپڑے عالی شان، لیکن کماتا ایک روپیہ بھی نہیں۔ حالانکہ قدیم زمانے میں بیس سال کی عمر کے بچے، صاحب روزگار ہوجاتے تھے۔ ان کا اپنا کاروبار ہوتا تھا اور بال بچے دار ہو جاتے تھے۔
اور اگر اس کے پاس شادی لائق پونجی ہو جائے تو کیا ماں باپ اسے شادی کرنے دیں گے؟
لڑکیوں کے والدین اس مسئلے کا اصل سبب ہیں۔ وہ بیٹی کو حلال کے علاوہ ہر راستے پر چلنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔گھر سے باہر بے پردہ اور زیب و زینت کے ساتھ آرستہ ہو کر نکلنے کی چھوٹ دیتے ہیں۔ اسے ڈھیل دیے چلے جاتے ہیں۔ جب کوئی رشتہ لے کر آتا ہے تو وہی صورت حال ا س کے سامنے ہوتی ہے جس سے عرب قیدی اسرائیل میں دوچار رہتا ہے۔ بھاری بھرکم مطالبات لاد کر بے چارے کو ہلکان کر ڈالتے ہیں۔ مہر کی رقم بے پناہ، گراں بار اخراجات، ایک کے بعد ایک تقریب کا انعقاد، تحفے تحائف ، آخرکار وہ تھک کر ہار مان لیتا ہے یا صبر کر کے بیٹھ جاتا ہے، حتی کہ اس ’یومِ سیاہ‘ کے لیے اس نے جو کچھ جمع کیا تھا، پائی پائی کر کے یہ خبیث رسمیں ختم کر ڈالتی ہیں۔ اپنے شادی شدہ گھر میں مفلس و قلاش بن کر داخل ہوتا ہے۔ بس اول روز سے ہی لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور جب کسی گھر میں لڑائی جھگڑا داخل ہو جائے تو اس گھر سے سعادت و مسرت رخصت ہو جاتی ہے۔
حالانکہ اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں حکم یہ دیا ہے کہ ہم جس سے رشتہ کرنا چاہتے ہیں اس کے دین اور اخلاق کو دیکھیں اور اس کے لیے شادی کے عمل کو آسان بنائیں۔
لیکن لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ کیا آج کے زمانے میں ایسا ممکن ہے؟ ہاں، یہ ممکن ہے۔ میں نے خود ایسا ہی کیا ہے۔ میری پانچ بیٹیاں ہیں۔ جب بھی کوئی ایسا رشتہ آیا جس کا دین و اخلاق پسند آیا میں نے اس سے کہا: ہاتھ پکڑو اور لے جائو۔ نہ میں نے مہر کی بڑی رقم لکھی اور نہ اس سے کچھ لیا، نہ میں نے رسموں اور رواجوں کو یہ موقع دیا کہ مجھے اپنا غلام بنائیں، بلکہ میں نے ہی رسموں کو اپنے پنجوں کے نیچے دبائے رکھا۔ عورتوں کو اس معاملے میں اپنی چلانے کی اجازت نہیں دی، بلکہ سب سے پہلے شریعت کو فیصلہ کرنے کا موقع دیا، پھر عقل اور مصلحت کا خیال رکھا۔ اور جو کچھ کیا اس پر نہ مجھے ندامت ہے اور نہ بیٹی کو ہی ندامت ہے۔
بعض والدین ایسے ہیں جو اپنی بیٹی کو بے پردہ گھر سے نکلنے کی آزادی دے دیتے ہیں ۔ ہر راہ رو ، حتی کہ گدھے بھی اسے دیکھتے ہوئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی رشتے والا یہ کہے کہ وہ اسے شرعی پردے میں دیکھنا چاہتا ہے تو والدین پکار اٹھتے ہیں: آپ کیا پردہ، دین داری اور رسمیں لیے بیٹھے ہیں!
ہم نے نوجوانوں کے سامنے شادی کا جائزہ و مشروع راستہ مسدود کر دیا ہے اور شریعت نے جنسی جبلت میں آنے والی طغیانی اور بے راہ روی کا سد باب کرنے کے لیے جو بندھ باندھ رکھے ہیں انھیں کھول دیا ہے۔
شریعت نے حیاء و عفت کا باندھ باندھا تو لوگ کہنے لگے: کیا؟ کیا پردے کی طرف لوٹیں؟ پیچھے کی طرف واپس جائیں؟
ہم خاموش ہو گئے تو یہ پہلا باندھ ٹوٹ گیا۔
شریعت نے مرد و زن کے اختلاط سے منع کیا اور یہ کہا کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو شیطان لازمی طور پر ان کے درمیان گھس آتا ہے۔ لوگوں نے کہا:’’ یہ کیا رجعت پسندی ہے؟ یہ کیا عورت کی تحقیر کی جا رہی ہے؟ اس کے بارے میں سوء ظن رکھا جا رہا ہے؟کیا عورت کو اپنی آزادی سے محروم کیا جا رہا ہے؟ آپ لوگ عورت کے دشمن ہیں۔‘‘ ہم نے کہا: لوگو! خدا کی قسم ہم عورت کے دشمن نہیں ہیں، ہم بہ خدا عورت کے بہی خواہ ہیں۔ ہم تو اس کا دفاع کرنے والے اور اس کی حفاظت کرنے والے لوگ ہیں۔ ہم مرد کے ظلم و زیادتی سے اور معاشرے کے ظلم و جبر سے اس کا دفاع کر رہے ہیں۔
انھوں نے ہماری بات نہیں مانی اور عورت کو فریب میں ڈال دیا۔ اس نے بھی یہ بات نہیں مانی کہ ہم اس کے دوست و ہم درد ہیں۔ سماج کے لوگوں نے مرد کے ساتھ اسے تنہا چھوڑ دیا۔ کلینک میں اسے مرد کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا جہاں وہ طبی جانچ کے نام پر اپنے اعضا کھولتی ہے۔ وکیل کے دفتر میں تنہا چھوڑ دیا جہاں وہ مسئلے کی وضاحت کے لیے اپنا کیس اسے سمجھاتی ہے۔ تاجر کی دکان میں، سینما میں، تفریح گاہ میں ، یونیورسٹی میں، سفر میں ، حضر میں، کھیل کے میدان میں اور ساحل سمندر پر عورت کو مرد کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا!اور کہا کہ یہی تمدن و شائستگی ہے۔ ہم شکست کھا گئے اور دوسرا باندھ ٹوٹ گیا ۔
تیسرا باندھ فضیحت اور رسوائی کا خوف تھا۔ پھر حالات ایسے بدلے کہ فاسق و فاجر نوجوان اپنے فسق و گناہ پر فخر کرنے لگا۔ اپنے گناہ گارانہ کارناموں کو بیان کرنے لگا۔ حالانکہ پہلے وہ انھیں چھپاتا اور پوشیدہ رکھتا تھا اور اگر اس سے پوچھا بھی جاتا تو انکار ہی کرتا تھا۔ شوخ اور فحش کہانیاں ہر پڑھنے والے کے لیے مباح قرار پائیں۔ یہ کہانیاں بھیانک قسم کے جنسی واقعات کو مصوِّرکے برش کی مدد سے یا مصنف کے قلم کے توسط سے پیش کرتی ہیں۔ ان کہانیوں کو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پڑھتے ہیںاور جو پڑھنا نہیں جانتے ان کے لیے فلمیں پیش کی جاتی ہیں۔ان کہانیوں اور فلموں کے ذریعے تیسرا باندھ بھی ٹوٹ گیا ۔
چوتھا باندھ (جنسی) امراض کے لاحق ہوجانے کا خوف تھا۔ پھر بعض ڈاکٹروں نے آکر علی الاعلان یہ کہنا شروع کر دیا کہ ارے فاسقو! امراض سے کیا ڈرنا؟ ہمارے پاس پنسلین، اسٹرپٹومائسین اور ٹیرامائسین ہے نا! تمھیں کوئی حرام مرض لاحق ہوجاتا ہے توہم اس کا ازالہ کرنے کے لیے موجود ہیں۔ اس لیے (جنسیات کی دنیا میں) قدم آگے بڑھائو ، ڈرو مت۔لوگوں نے قدم آگے بڑھا دیا ، ان کا ڈر ختم ہوگیا اور چوتھا باندھ بھی ٹوٹ گیا۔
پانچواں باندھ جو تھا وہ حکومت کا خوف اور ڈر تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حکومتیںمعروف کا حکم دیا کرتی تھیں اور منکر سے روکتی تھیں۔ پھر ہم نے سزا کے قوانین فرانس (ہندستان میں انگریزوں) سے لیے۔ یعنی اس ملک سے جسے فسق و فجور نے اس قدر تباہ کر دیا تھا کہ ستر سال کے دوران میں جرمنوں نے فاتحانہ شان سے اس ملک کو تین بار روند ڈالا تھا۔ہم (عرب دنیا)نے اپنے قوانین میں ان قوانین کو جگہ دی جو زنا کو مباح قرار دینے کے مشابہ ہیں، جو زانی کے خلاف دعوی کرنے سے روکتا ہے الا یہ کہ یہ دعوی شوہر کی جانب سے ہو۔ اگر شوہر بھی راضی ہوگیا تو اس جرم پر نہ دعوی قائم رہے گا اور نہ ہی سزا ہوگی۔ یہ جرم ماں اور بیٹے کے درمیان اور بیٹی اور باپ کے درمیا ن واقع ہو تو اس کی سزا اس سزا سے بھی کم رکھی گئی ہے جو چوری کے لیے بیان کی گئی ہے۔
ہم اس قانون پر خاموش رہے ، علماء اور مفتیانِ کرام نے اپنی زبانیں بند رکھیں، عوامی نمائندے اور حکمراں چپ رہے۔ اور پانچواں باندھ بھی ٹوٹ گیا۔
سب سے زیادہ مضبوط اور مستحکم باندھ اللہ کا خوف اور جہنم کا ڈر تھا۔ہم نے نوجوان نسل کو دینی تربیت سے دور رکھا۔ ان کے دل سے اللہ کا خوف اور جہنم کا ڈر بھلا دیا۔ نئی نسل کا جوان اگر مسلمان ہے تو مسجد کا راستہ نہیں جانتا اور عیسائی ہے تو اسے کلیسا کا راستہ نہیں معلوم۔
چنانچہ سب سے مضبوط باندھ بھی ٹوٹ گیا۔
پھر ہم نے گمراہیوں سے کہا نکلو اور وہ نکل پڑیں۔ عورتیں سڑکوں پر ایسی شکل میں چلنے لگیں کہ چالیس پچاس برس پہلے اس شکل میں گھر کے اندر اپنے باپ اور چچا کے سامنے آتی ہوئی بھی شرماتی تھیں۔ واللہ یہ حقیقت ہے۔ حالانکہ دین اسلام، دین عیسائیت اور دنیا کا ہر صحیح و باطل مذہب عورت کے لیے اس بات کو حرام قرار دیتا ہے کہ وہ کسی اجنبی کے سامنے اس طرح اپنے اعضا کو کھول کر آئے کہ اس سے فتنہ پیدا ہو۔ بیت المقدس کے اندر میں نے کلیسا کے دروازے پر عبادت کے لیے آنے والی عیسائی خواتین کے لیے ایک اعلان لکھا دیکھا ۔ اس اعلان کی رو سے اگر عورتیں لمبی آستین کا لباس پہنے ہوئی نہیں ہیں، سر پر اسکارف نہیں ہے جس سے بال ڈھکے ہوئے ہوں، اور چہرے پر میک اپ کیا ہوا ہو تو کلیسا کے اندر عورتوں کا داخلہ ممنوع تھا۔
عورت اپنے کپڑوں کو ایک انگل یہاں سے اور ایک انگل وہاں سے کم کرتی ہی جا رہی ہے ، یہاں تک کہ جب وہ ساحل سمندر پر پہنچتی ہے لباس نام کی کوئی چیز اس کے جسم پر باقی نہیں رہتی۔
سماج کی یہ تو حالت ہے، پھر اس میں لڑکی کیا قصور ہے؟
بلکہ نوجوان کا بھی کیا قصور ہے جب کہ جنسی خواہش و جبلت اس کے اندر عروج پر ہے اور شادی میں عذر ہے ، شادی کرنا آسان نہیں ہے، لیکن بدکاری آسان اور لذت اندوز ہے۔ گمراہی او ربدکاری کی طرف لے جانے والے اسباب ہر طرف موجود ہیں؟
آپ یہ کیسے چاہ سکتے ہیں کہ نوجوان صبر کرے اور اس صورت حال کا مقابلہ کرے؟
آپ یہ کیسے چا ہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی تعلیم اور کتابوں میں دل لگائے رکھے؟
یہ ایک مسئلہ ہے ، جس کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ حکومتیں، عوام ، اہل علم، اہل قلم،اور خاص طور سے خواتین کی جمعیتیں متحد ہوں، کیو ںکہ اس مسئلے سے خطرہ لڑکی کو ہے، اس کی ضرب بھی اسی پر ہے اور یہ جمعیتیں مظلوم خواتین کا دفاع کا زیادہ حق رکھتی ہیں۔
اگر آج خط لکھنے والے دوست کی بیٹی غلط راستے پر گئی ہے تو یہ فساد چل کر میرے اور آپ کے پاس، میرے او رآپ کے گھر، میری اور آپ کی بیٹی تک پہنچنے والا ہے۔ یہ آگ ہے جو گھر کے اندر لگی ہوئی ہے اور ہم بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اسے بجھانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں، بلکہ اس پر تیل ڈال رہے ہیں اور خواہش یہ رکھتے ہیں کہ آگ کی لپٹیں ہمیں نہ چھو لیں۔کیسے بچ جائیں گے جب کہ ہم خود جلتی آگ پر تیل ڈال رہے ہیں؟
کیسے ؟ دانش ورانِ ملت !بتائیے کیسے بچ جائیں گے؟lll