ایک زمانہ تھا جب عوام کی صحت کی دیکھ بھال کو حکومت کی جانب سے سب سے زیادہ ترجیح دی جاتی تھی اور بزرگ لوگ کہا کرتے تھے کہ چاہے لباس موٹا پہنو لیکن کھانا پینا صرف ستھرا اور معیاری ہونا چاہیے۔ موجودہ دور میں یہ بات بالکل بدل گئی ہے۔ آج کل لوگ ایک سے ایک زرق برق اور مہنگے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں لیکن کھانے پینے کی ہر چیز میں ملاوٹ ہے۔ عام آدمی کے استعمال کی کھانے پینے کی جتنی بھی اشیاء ہیں ان میں ہر طرح کی جا اور بے جا ملاوٹ کی جارہی ہے۔ آٹے میں، گیہوں اور غذائی اجناس میں، مصالحوں میں، دودھ میں، گھی اور تیل میں غرض یہ کہ کھانے پینے کی کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جس میں کسی طرح کی ملاوٹ نہ ہو۔ یہ تو سب ایک لمبے عرصے سے چل ہی رہا تھا اور لوگ ان باتوں سے بے حد پریشانی اور تشویش میں مبتلا رہتے تھے کہ پتہ چلا کہ جو کولڈ ڈرنکس ہم لوگ اور خاص طور سے ہماری نوجوان نسل بڑے شوق کے ساتھ پیتی رہی ہے اور جس کے بارے میں اشتہارات میں آتا ہے کہ ’’یہ دل مانگے مور‘‘ یعنی ہماری نوجوان نسل اور عوام کی من پسند کولڈ ڈرنکس کوکا کولا اور پیپسی کولا میں جراثیم کش کیمیکل کی مقدار مقررہ پیمانے سے ۲۳ گنازیادہ ہے۔ یہ رپورٹ سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کی ہے جو اس نے ۱۲ شہروں میں واقع ۲۵ بوفلنگ پلانٹ کے نمونے لے کر گیارہ اس طرح کی سوفٹ ڈرنکس کے بارے میں تیار کی ہے جن میں کوکا کولا اور پیپسی بھی شامل ہیں۔ پیپسی کمپنی کی دوسری زہریلے کیمیکلز کی ملاوٹ والی سوفٹ ڈرنکس میں لیپی چینو، ماؤنٹین ڈیو، مرنڈا اور ینج اور لیمن، ڈیوک لیموینڈ اور سیون اَپ شامل ہیں جب کہ کوکا کولا کمپنی کی ملاوٹ آمیز کولڈ ڈرنکس میں تھمس اپ، لمکا اور فینٹا شامل ہیں۔ پیپسی کمپنی کی بوتلوں کے ۲۸ نمونے لیے گئے تھے جب کہ کوکا کولا کمپنی کے ۲۹ نمونے لیے گئے تھے۔ مختلف شہروں میں ان کولڈ ڈرنکس میں جراثیم کش کیمیکلز کی ضرر رساں مقدار منظور شدہ حد سے زائد کچھ اس طرح پائی گئی ہے۔ کولکاتا میں یہ مقدار سب سے زیادہ ۵۲ گنا، ممبئی میں ۳۴ گنا، بنگلور میں ۲۹ گنا، جے پور میں ۳۸ گنا اور حیدرآباد میں ۲۴ گنا جب کہ نینی تال اور گورکھپور میں ۴۲ گنا پائی گئی ہے۔ ان کولڈ ڈرنکس میں جو ضرر رساں جراثیم کش کیمیکلز پائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک انڈین ہے جس کی مقدار بی آئی ایس کے طے کردہ معیار سے ۵۴ گنا زائد اور کولکاتا کے ایک نمونے میں ۱۴۰ گنا زیادہ پائی گئی ہے۔ اس کیمیکل کو اناج کے گوداموں میں کیڑے مارنے کے لیے چھڑکا جاتا ہے اور اس سے پستان کا کینسر، کینسر، جگر کر بیماری کرونک ہیپیٹسائٹس، گردوں کی بیماری، اور جسم کے دفاعی نظام اور الرجی کی بیماریاں لاحق ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ ان کولڈ ڈرنکس میں جو دوسرا ضرر رساں کیمیکل پایا گیا ہے وہ کلورپائریفوس ہے جس کی مقدار تقریباً سبھی نمونوں میں ۴۷ گنا زائد پائی گئی ہے جب کہ کوکا کولا کے ایک نمونے میں جس کو ممبئی سے لیا گیا اور جس کو تھانے میں بوتل میں بھرا گیا تھا اس کی مقدار مقررہ حد سے ۲۰۰ گنا زیادہ پائی گئی ہے۔ یہ کیمیکل کوکروچ اور دیمک کو مارنے کے لیے عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کیمیکل سے شدید نفسیاتی و دماغی امراض رگ و پٹھوں کی بیماریاں، ڈپریشن اور چڑچڑے پن کے امراض پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ان کولڈ ڈرنکس میں جو تیسرا کیمیکل پایا گیا ہے وہ ہیپٹاکلور ہے اس کے استعمال پر ہمارے ملک میں پہلے ہی پابندی عائد ہے۔ ۷۱ فیصد نمونوں میں اس کی مقدار مقررہ حد سے چار گنا زیادہ پائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کیمیکل کے استعمال سے کچھ دوسرے امراض لاحق ہونے کے خطرات بھی رہتے ہیں مثلاً دماغی ٹیومر اوربچوں کی جسمانی نشو ونما ان کے دماغ کے خلیات پر بھی برے و شدید نوعیت کے ضرر رساں اثرات پڑسکتے ہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے متعدد ممبرانِ پارلیمنٹ نے پیپسی کولا اور کوکا کولا نیز دیگر ۹ ٹھنڈے مشروبات پر فوری پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ لوک سبھا میں ممبران پارلیمنٹ نے پارٹی کی سطح سے اوپر اٹھ کر حکومت ہند سے ایک آواز میں کہاہے کہ یہ کولڈ ڈرنکس بنانے والی کمپنیاں عوام کو دھیرے دھیرے زہر دے کر موت کے دہانے تک پہنچا رہی ہیں۔ جب کہ پارلیمنٹ ابھی حال ہی میں کھانے کی اشیاء کے معیار اور فوڈ سیفٹی سے متعلق ایک بل بھی پاس کرچکی ہے جس کو صدر جمہوریہ ہند کی منظوری کا انتظار ہے۔ حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی یقین دہانی نہ ملنے کی وجہ سے اپوزیشن پارٹیوں کے تمام ممبران پارلیمنٹ سے واک آؤٹ کرگئے تھے جس میں کانگریس کے ممبران پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔
ادھر راجستھان کی صوبائی حکومت نے سبھی تعلیمی اداروں میں ان کولڈڈرنکس کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔ جب کہ مہاراشٹر سرکار بھی ان پر پابندی عائد کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ دہلی سرکار نے اس سلسلے میں اسکولوں کے لیے ایک مشاورتی خط جاری کیا ہے اور وہ بھی ان کولڈ ڈرنکس کے استعمال پر پابندی عائد کرنے پر غور کررہی ہے۔ قریب ۳ سال پہلے بھی دہلی سرکار نے ایمس کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر اسکولوں میں جنک فوڈ اور کولڈ ڈرنکس کی فروخت پر پابندی لگانے کی ہدایت دی تھی لیکن چند نامعلوم وجوہات کی بنا اس پر خاطر خواہ عمل نہیں ہوپایا تھا ۔ اسی دوران سپریم کورٹ نے بھی اس سلسلے میں مفاد عامہ کی ایک پٹیشن کے تحت پیپسی اور کوکا کولا جیسی کمپنیوں کو نوٹس جاری کیے ہیں، جسٹس ایس بی سنہا اور جسٹس دلویر بھنڈاری پر مشتمل ایک بینچ نے نوٹس جاری کرتے ہوئے ان دونوں کمپنیوں کو چار ہفتے کے اندر جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔ مفاد عامہ کی اس پٹیشن میں پیپسی کمپنی اور کوکا کولا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کولڈ ڈرنکس تیار کرنے میں کن کن اشیاء کا استعمال کرتے ہیں اس کے بارے میں بتائیں۔ پٹیشنر کے وکیل کا کہنا ہے کہ صارف کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ اس کے استعمال کی اشیاء میں کیا کچھ ملا ہوا ہے۔ جب کہ یہ کمپنیاں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی تیار کردہ سوفٹ ڈرنکس صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہیں اپنے اشتہاروں کے ذریعہ نوجوانوں اور یہاں تک کہ بچوں کو اس کے استعمال کے لیے راغب کررہی ہیں۔ درخواست دہندہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ جب تک یہ کمپنیاں اپنی سوفٹ ڈرنکس کی بوتلوں پر ان میں استعمال شدہ اشیاء اور کیمیکلز کی جانکاری نہیں دیں گی۔ صارف ان کے استعمال کے سلسلے میں صحیح انتخاب نہیں کرپائے گا۔ ادھر مرکزی حکومت نے عدالت کے جاری کردہ نوٹس کے جواب میں کہا ہے کہ خوراک میں ملاوٹ کو روکنے سے متعلق موجودہ ایکٹ میں پہلے ہی سے اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ کولڈ ڈرنکس میں اگر اس طرح کے ضرر رساں کیمیکلز کی ملاوٹ موجود ہے تو اس سے مناسب طریقے سے نپٹا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل بھی فروری ۲۰۰۳ سے نومبر ۲۰۰۴ کے درمیان یہ سلسلہ سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کے ذریعہ اٹھایا گیا تھا اور مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی اس بارے میں چھان بین اور اس تصدیق کے بعد بھی کہ سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کی کولڈ ڈرنکس میں ضرر رساں کیمیکلز کی موجودگی کی بات درست ہے، بی آئی ایس کے طے کردہ معیارات کو اس سلسلے میں نوٹیفائی نہیں کیا گیا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں کولڈ ڈرنکس تیار کرنے والی یہ کمپنیاں اپنے کارخانوں کے ذریعہ بھی پانی اور زمین میں کثافت اور گندگی پھیلارہی ہیں۔ اس بارے میں بھی ان کو غور کرنا چاہیے نہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ صارف جس کو اب پوری معلومات حاصل ہیں، ان کے زہر پلانے کے اس پورے کھیل کی بساط ہی الٹ کر رکھ دے۔ سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ کمپنیاں آخر اس طرح کی ملاوٹ کرنے کی جرأت کیوں نہیں کرتیں؟ اس کی وجہ ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ وہاں ایسے سرکاری و غیر سرکاری ادارے ہیں جو فوراً ان کو گرفت میں لے لیں گے۔
حکومت کا بھی اب فرض بنتا ہے کہ وہ اس پورے معاملے کی ایک غیر جانبدار اور معتبر کمیٹی سے چھان بین کرکے ایک ایسا واحد ادارہ قائم کرے جو خوراک کی تمام اشیاء میں ملاوٹ کی دیکھ بھال کرے اور خوردنی اشیاء میں ملاوٹ سے متعلق اس کو ایک مربوط قانون بھی تشکیل دینا چاہیے۔ اس بات کی سفارش مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے بھی کی تھی اور ابھی تک کمیٹی کی ان سفارشات پر بہت کم عمل آوری ہوپائی ہے۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ اگر ہمارے ملک کو ایک مضبوط اقتصادی طاقت کے طور پر ابھرنا ہے تو ہمیں خوردنی اشیاء میں ملاوٹ کے معاملات سے سختی کے ساتھ نپٹنا ہوگا اور یہ کوششیں تبھی کارگر ثابت ہوسکتی ہیں جب کہ ہم اپنے صارفین کو متحرک اور بیدار کریں۔
ا