ہم نفس

سلمیٰ یاسمین نجمی

’’نیند نہیں آرہی؟‘‘ کرنل نے پوچھا۔

’’کھلی فضا میں سونا زیادہ اچھا لگا تھا۔ یہ کمرہ تو کال کوٹھری لگ رہا ہے۔‘‘ تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ ’’جلال آباد سے سرحد کیسے عبور کریں گے۔‘‘

’’جیسے سب کرتے ہیں۔ مگر جلال آباد جا کون رہا ہے۔‘‘

’’آپ ہی نے تو کہا تھا۔‘‘

’’میں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ شاید نورستان میں ہی یہ مسئلہ حل ہوجائے۔‘‘

’’بیچ سفر میں کیوں ساتھ چھوڑتے ہیں۔ پوری طرح ہی ٹھکانے لگائیے۔ پاکستان کے اندر تک چھوڑ آئیے۔‘‘

’’اور اگر وہاں پکڑا گیا تو۔‘‘

’’روسیوں کی قید سے پھر بھی اچھے رہیں گے۔ سیاسی پناہ لے لیجیے گا۔‘‘

’’تم مجھے جلاوطن کرانا چاہتی ہو۔‘‘

’’جلاوطن تو وہ بھی کریں گے۔ وہاں کی جلا وطنی آپ کو پتہ ہی ہے کیسی ہے۔ اور پھر آپ کا انتظار بھی وہاں کس کو ہے۔‘‘

’’اور یہاں میرا انتظار کون کرے گا۔‘‘

’’شاید کوئی کرے۔‘‘

’’مثلاً‘‘

ماہ گل خاموش رہی۔

’’میں مفروضوں پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘

’’میں بھی مفروضوں کی بات نہیں کررہی۔‘‘

’’توپھر مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ دریا کے دو کنارے کبھی آپس میں نہیں ملتے۔ نہ زمین آسمان کا میل ہوتا ہے۔ افق تو محض نظر کا دھوکہ ہے۔ میں ایک حقیقت پسند آدمی ہوں۔‘‘

’’آپ اگر حقیقت پسند ہوتے تو میرے ساتھ یوں مارے مارے نہ پھرتے۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ ہم یہاں محفوظ ہیں۔ ہوسکتا ہے یہاں ان کا کوئی مخبر ہو۔ شاید ہر طرف اطلاع پہنچ گئی ہوکہ آپ کے حلیے کا ایک شخص افغان لڑکی کے ساتھ فرار ہوگیا ہے۔ پھر؟‘‘

’’پھر کیا؟ ایسا واقعی ہوسکتا ہے چند لمحوں کے اندر اندر ہم گرفتار ہوسکتے ہیں۔ مجھے تمہاری فکر ہے میرے پاس تو یہ کیپسول ہے جو میرے گلے میں لٹک رہا ہے۔ جیسے ہی دانتوں تلے رکھا، دنیا سے رشتہ ٹوٹ جائے گا۔‘‘

’’آپ واقعی اتنے بے حس ہیں یا بن رہے ہیں۔‘‘

’’انسان تقدیر کے ہاتھ میں محض ایک کھلونا ہے ماہ گل۔ وہ جو خود کو طاقت اور قوت کا سرچشمہ سمجھتا ہے، ہر ایک کو ملیا میٹ اور زیرو زبر کرنے کا زعم رکھتا ہے، اسے یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔ اگلا سانس آئے گایا نہیں۔ تدبیر اور تدبر کوئی چیز کارگر نہیں ہوتی۔ پھر بتاؤ انسان بے حس نہ ہوجائے اور کیا ہو۔‘‘

’’کیا آپ نے انسان کی عظمت اور اس کی قدرت پر غور نہیں کیا۔‘‘

’’میں نے تو اب سوچنا شروع کیا ہے۔‘‘ کرنل نے ایک طویل سانس لیا۔

’’انسان ہے کیا چیز۔ جب چاہتا ہے اپنے ہی جیسوں کو چیونٹیوں کی طرح مسل کر پھینک دیتا ہے۔ میرے دیس میں تو ہمیشہ سے موت کا راج رہا ہے۔ اسٹالین کا دورِ تطہیر کیا تھا، ایک اجتماعی موت کا میلہ تھا۔ ایک آسیب تھا جس نے پورے ملک کو جکڑ رکھا تھا۔ قافلے تھے کہ دن رات موت کی وادی کی طرف دھکیلے جاتے تھے۔ شہر کے شہر خالی ہوگئے تھے۔ بیویاں شوہروں سے اور بچے ماؤں کی گود سے چھین لیے گئے۔ ہونٹوں پر چپ کے پہرے لگ گئے۔جیسے کسی نے دل و دماغ اور لب کنکریٹ سے جوڑ دئے ہوں۔ اک آہ بھی نکلتی تھی تو وہ اگلے جہاں یا کسی لیبر کیمپ میں بھجوادیا جاتا۔ میں بھی سوچا کرتا تھا کہ واقعی تطہیر کا عمل ضروری ہے۔ جنگلی جڑی بوٹیاں گھاس پھونس صاف ہوگی۔ تب ہی تو بھر پور ہری بھری فصل اگے گی۔‘‘

’’انسان گھاس پھوس تو نہیں ہوتا، جسے یوں روند ڈالا جائے۔‘‘ ماہ گل نے پوچھا۔ اس کی سبز آنکھوں میں دکھ کی پرچھائیاں تھیں۔

’’ہاں شاید انسان اتنا حقیر نہیں ہوتا۔ مگر یہ جو عمل تھا نا یہ آکاس بیل کی طرح تھا۔ یہ تو سارے ہی پودوں کو چٹ کرگیا۔ تن آور پھلدار درخت سوکھ گئے اور تھوہر کے درخت رہ گئے۔‘‘

’’آپ کو پتہ ہے تھوہر جہنم کا پودا ہے۔‘‘

’’اچھا؟‘‘ کرنل نے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیریں۔ وہ اپنے ہی خیالوں میں گم تھا۔

’’دراصل کسی بھی سوسائٹی کا اگر سارا ذہین طبقہ ختم ہوجائے تو پیچھے میڈیا کر رہ جاتے ہیں اور وہ ملک کو ذہانت کے بجائے ظلم اور جبر کے زور پر چلاتے ہیں۔ کیوںکہ ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے یہی ہتھیار رہ جاتے ہیں۔

اچانک کرنل اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ’’مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں اب اس آسیب زدہ ملک میں واپس نہیں جانا چاہتا، میں آزاد ہونا چاہتا ہوں۔ کسی پرندے کی طرح آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں پرواز کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’کیا واقعی؟‘‘ ماہ گل کی آنکھوں میں ستارے اتر آئے۔

’’نہ جانے میں کیا چاہتا ہوں۔ میری پوری زندگی اون کے دھاگوں کی طرح الجھ کر رہ گئی ہے۔‘‘

’’صبر استقامت اور یقین سے کام لیں گے تو ساری الجھنیں دور ہوجائیں گی۔ سارے دھاگوں کے سرے مل جائیں گے۔ اصل میں آپ ان میں سے نہیں ہیں۔‘‘

’’پھر میں کن میں سے ہوں؟‘‘ اس نے حیران ہوکر پوچھا۔

’’آپ ہم میں سے ہیں۔‘‘ ماہ گل نے پورے تیقن سے کہا۔ ’’آپ اپنی ڈار سے بچھڑ گئے تھے۔ آپ کو غلط فہمی تھی کہ آپ ان میں سے ہیں۔ آپ پر انھوں نے جو ملمع چڑھایا تھا، وہ اتر رہا ہے، لال رنگ کچا تھا، یہ لہو کا رنگ ہے۔ خطرے کا نشان ہے۔ اس کا اترنا ہی بہتر ہے۔ اصل رنگ سبز رنگ ہے کھیتوں کا، گھاس اور درختوں کا، سمندر اور جھیلوں کا، امن اور آشتی کا، ہر طرف یہی رنگ ہے۔ میرے رسول ﷺ کی آخری آرام گاہ کے گنبد کا بھی یہی رنگ ہے۔‘‘

’’تمہاری آنکھوں کا بھی یہی رنگ ہے۔‘‘ کرنل نے نرمی سے کہا۔ ماہ گل کے رخساروں پر ہلکی سی سرخی پھیل گئی، اس نے نظریں جھکالیں۔

’’ہاں میری آنکھوں کا بھی یہی رنگ…‘‘

’’میری ماں کی آنکھیں بھی سبز تھیں۔ بڑی معصوم تھی میری ماں۔ فرشتوں کی طرح پاکیزہ۔ میں نے اس کے منہ سے کبھی کوئی گالی نہیں سنی تھی۔ وہ کبھی درشتی سے نہیں بولی تھی حالانکہ چاروں طرف عورتیں ہر وقت لڑتی جھگڑتیں گالی گلوچ کرتی تھیں۔ بچوں کو بیدردی سے مارتی تھیں اپنے شوہروں سے لڑتیں اور مار کھاتی تھیں۔ بڑی گندی اور غلیظ تھیں۔ مگر میری ماں دلدل میں اگا ہواکنول کا پھول تھی۔ گندی نالیوں کے درمیان شفاف پانی کا چشمہ تھی۔ ہر جمعہ کو وہ خود نہاتی، مجھے نہلاتی۔ محلے کی بڑی بوڑھیوں کے سر سے جوئیں نکالتی۔ انہیں بھی نہلا دھلادیتی۔ کوئی مانگنے والا اس کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں جاتا تھا۔ خواہ اسے ایک کوپک یا رائی کی روٹی کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ دینا پڑتا۔ وہ کہتی یاکوف زیادہ پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے آدمی شیطان بن جاتا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم آدھا پیٹ کھائیں اور آدھا کسی بھوکے کو کھلادیں۔‘‘

’’واقعی آپ کی ماں مومن عورت تھی۔ یہی تو وہ تعلیم ہے جو میرے پیغمبرﷺ نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو دی تھی، اور انھیں شیطان سے انسان بنادیا تھا۔‘‘

’’میں نے پہلی بار ماں کو اس وقت غصے میں دیکھا جب ہمارے علاقے کے تاتاریوں کو کشتیوں میںبھر کر سائبیریا یا گلاگ آرچی پلاگو کے عقوبت خانوں میں بھیج دیا گیا۔ کتنے ہی وقت اس نے کھانا نہ کھایا، نہ کام پر گئی اس کی آنکھوں کے آنسو خشک نہیں ہوتے تھے، وہ خود کلامی کرتی رہتی۔ مجھے اپنے سینے سے بھینچ بھینچ کر پیار کرتی۔ اپنے ہاتھوںکے پیالے میں میرا چہرہ رکھ کر ایک ٹک دیکھے جاتی۔ انقلاب پر لعنت بھیجتی۔ مسجدوں اور چرچوں پر تالے پڑگئے تھے۔ مولوی پادری، راہب اور ننوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ’’کرنل کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اس کی پیشانی پر سلوٹیں سی ابھر آئیں۔ اس نے ایک طویل سانس لیا۔

’’اور پھر ایک دن وہ اسے بھی پکڑ کر لے گئے۔ میرا باپ اور میں بہت روئے۔ میں آج اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا قصور تھا میری ماں کا۔ کیا وہ اتنی طاقتور تھی کہ وہ انقلاب کے اس بل ڈوزر کو روک سکتی۔ اتنے شور اور ہنگامے میں اس کی نحیف سی صدائے احتجاج کون سن سکتا تھا۔ وہ اس سے کیوں خوف زدہ ہوگئے تھے۔ میرا باپ سارا دن پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے کدال چلاتا تھا۔ خندقیں کھودتا تھا۔ وہ کوئی لیڈر یا دانشور نہیں تھا۔ اس میں کوئی تحریک چلانے کی اہلیت نہیں تھی۔ ایک معمولی سا مزدور تھا۔ نہ بورژوا تھا نہ ارسٹو کریٹ۔ اسے کس جرم میں جلاوطن کیا گیا۔ یہ ہیں وہ سوال جو کانٹے بن کر میرے وجود میں اترگئے ہیں۔‘‘

’’مگر بعد میں آنے والے تو اسٹالین کو برا بھلا کہتے تھے۔‘‘

’’اسے معتوب قرار دینے والوں نے کیا کیا؟ کیا انھوں نے آرچی پلاگو، سائبیریا اور دوسرے قید خانے بند کردئیے؟ انھوں نے اسٹالین کو برا کہا مگر اس کی قید کردہ زندہ لاشوں کو رہائی نہیں دی بلکہ اب اپنے مخالفوں کو وہاں روانہ کرنا شروع کردیا۔‘‘

ماہ گل کے خاموش آنسو اس کے رخساروں پر بہہ رہے تھے۔ اس کا دکھ اس کی جلن اسے اپنی لگ رہی تھی۔ نہ جانے کب کسی کا دکھ سکھ اپنا ہوجاتا ہے۔ کب یوں ہوتا ہے کہ جب دوسرے کے آنسو اپنی آنکھوں میں اتر آتے ہیں۔ جیسے دریا سمندر میں اتر جاتا ہے، اور دل چاہتا ہے کہ اپنے حصہ کی ساری مسکراہٹیں کسی اور کے لبوں پر سج جائیں۔میرا دل اس طرح کیوں چاہ رہا ہے۔ میں کہیں اس دشمن جان کے کسی جال میں تو نہیں پھنس گئی۔ بھلا میرا اس کا کیا تعلق۔ نہ قوم ایک، نہ زبان ایک، نہ وطن ایک۔ مگر پھر بھی آنسو ابلے چلے آرہے تھے۔ کرنل یاکوف کی آنکھوں نے بھی مدت کے بعد آنسوؤں کا نمک چکھا تھا۔ وہ بھلا اس اجنبی سرزمین پر اس انجان لڑکی کے سامنے اپنی داستانِ حیات کے اوراق کیوں الٹ رہا تھا۔ یہ تو وہ باب تھے جو اس نے بند کردئے تھے۔ ایک بھولی بسری کہانی بن گئے تھے مگر آج یوں لگ رہا تھا جیسے کل کی بات ہو اور وہ پھر سے ماں کی جدائی کے عذاب سے دوچار ہوگیا تھا۔ ایک ننھے منے معصوم اور بے کس بچے کی طرح۔ اس لڑکی سے میرا کوئی رشتہ نہیں مگر مجھے یہ کیسی اپنی اپنی لگتی ہے۔ جیسے صدیوں کا رشتہ ہو۔ کاش کہ یہ رات کبھی ختم نہ ہو۔ یوں ہی صدیوں پر محیط ہوجائے۔ یہ سناٹا جاوداں ہوجائے۔ فاصلے خواہ سمٹیں یا نہ سمٹیں مگر جدائی کی گھڑائی نہ آئے۔ آدمی ایک بار کسی کو دنیا کے اس بازار میں کھودے تو پھر دوبارہ پانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ کاش کہ اس بے یارومددگار نازک وجود کے سامنے میرا سینہ ایک مضبوط فصیل بن جائے۔ اس کے گرد میرے بازوؤں کا حصار قائم ہوجائے۔ کوئی اس تک نہ بڑھ سکے۔ کوئی بیدرد اس کو یوںنہ نوچ لے جیسے شاخ سے گلِ تر کو نوچا جاتا ہے۔ گدھ اس کے زندہ وجود کے حصے بخرے نہ کرنے بیٹھ جائیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146