درِ خزینۂ صد راز کھولتا ہے کوئی
نہ جانے کون ہے وہ، مجھ میں بولتا ہے کوئی
کرنل نے میز کے نیچے اپنی ٹانگیں پھیلائیں۔ دونوں ہاتھ سر کی پشت پر باندھ کر کرسی ذرا پیچھے کھسکائی اور نظریں اٹھائیں۔ دو سبز گول آنکھیں اسی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ گہری سبز اور شفاف، جیسے پہاڑ کے دامن میں جھیلیں ہوں۔ نتھری نتھری، ہر آلودگی سے پاک اور گہرے اخروٹ کے رنگ کی محرابی بھویں ان پر سایہ فگن تھیں۔ براؤن الجھے ہوئے خاک آلود بالوں نے چہرے کے گرد ہالہ بنارکھا تھا۔ اس نے اپنے لبوں کو دانتوں تلے دبا رکھا تھا۔ جیسے ان کی کپکپاہٹ کو روکنے کی کوشش کررہی ہو۔ ڈھیلی سی فراک کے اندر اس کا بدن یوں کانپ رہا تھا جیسے تیز ہوا سے چیری کی گلابی شگوفوںسے لدی شاخ لرزنے لگتی ہے۔ وہ اس بے اختیار کپکپاہٹ کو روکتے روکتے تھک چکی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ دشمن کے سامنے اس کی کسی کمزوری کا اظہار ہو۔ فراک کا دامن اور پاجامہ پھٹا ہوا تھا۔ ننگے پاؤں بھی زخمی تھے۔ اس کی آنکھوں میں البتہ کوئی ہراس نہ تھا۔ وہ بڑی تیزی سے سوچ رہی تھی کہ اس کے باپ نے اسے کیا ہدایات دی تھیں۔ اگر کبھی دشمنوں کے ہتھے چڑھ جائے تو اسے چاہیے کہ انھیں غصہ دلانے کی کوشش کرے۔ ان کو کاٹے، نوچے، بھنبھوڑے اور ان کے ٹخنوں اور پنڈلی کی ہڈی پر چوٹ لگائے تاکہ وہ اسے بے عزت کرنے کی بجائے مار ڈالیں۔ تمام باتیں اس کے ذہن میں گڈ مڈ ہورہی تھیں۔ جیسے الجھی ہوئی اُون ہو جس کا سرا نہ ملتا ہو۔
’’سر یہ وہی لڑکی ہے جس نے یونیورسٹی میں تقریر کی تھی اور طالب علموں کو بغاوت پر اکسایا تھا۔ یہ باغیوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ اس نے سگریٹ بم بھی بنائے تھے۔ اس کی مشکوک سرگرمیوں کی پوری انوسٹی گیشن ہونی چاہیے۔ ہم بمشکل اس پر قابو پاسکے ہیں، اس نے ہمارے سپاہیوں کے منہ نوچ ڈالے ہیں۔‘‘
کرنل بدستور اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ جو انتہائی ظالم اور جابر افسر تھا، جس کی خشونت اور سنگدلی سے اس کے اپنے بھی گھبراتے تھے، نہ جانے کیوں اسے اُس لڑکی پر غصہ نہیں آرہا تھا۔ اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا، دونوں ہاتھ میز پر رکھے اور قدرے آگے جھک کر بولا۔
’’اچھا تو جنگلی بلّی کیا نام ہے تیرا؟‘‘
وہ چپ رہی۔ کرنل نے ذرا سختی سے پوچھا ’’میں نام پوچھ رہا ہوں تیرا‘‘
’’میرا کوئی نام نہیں ہے۔ غلاموں کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ نمبر ہوتا وہ بھی آپ ہی الاڈ کریں گے۔‘‘
آواز تھی کہ جلترنگ، جس میں اب لہو ترنگ بھی شامل ہوگئی تھی۔
’’مگر تم غلام کب ہو۔‘‘
’’چند ساعتیں پہلے نہیں تھی۔ اور اگر آپ نوازش کریں تو غلامی کی یہ زنجیر ٹوٹ سکتی ہے۔‘‘
کرنل نے حیران ہوکر پوچھا ’’یعنی تمہیں چھوڑدوں۔‘‘
’’قید حیات سے آزادی چاہتی ہوں۔‘‘
’’مرنا کیوں چاہتی ہو، تمہار مشن تو ابھی ختم نہیں ہوا۔‘‘
لڑکی کچھ دیر خاموش رہی، پھر آہستگی سے بولی۔ ’’میں نہ رہی تب بھی میرا مشن جاری رہے گا۔ علم اٹھانے والے بہت لوگ ہیں، مجھے ذلت کی زندگی نہیں چاہیے۔ میں کافروں کی قید پر موت کو ترجیح دوں گی۔‘‘
’’موت بھی کبھی مانگے سے ملی ہے لڑکی۔ تمہارا خیال ہے کہ بس تم نے درخواست کی اور ہم نے مان لی۔ کیا تمہیں کبھی کسی نے نہیں بتایا کہ قیدی عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ تمہارا انجام اُن سے کیسے مختلف ہوسکتا ہے۔‘‘
لڑکی کے گلابی چہرے کا رنگ سرسوں کے پھول کی طرح زرد ہوگیا۔ اس کی جھیل جیسی آنکھوں پر دھند سی چھاگئی۔ اس نے نظریں جھکا کر اپنے خاک آلود پیروں کی طرف دیکھا۔ کرنل کے لبوں پر خفیف سے مسکراہٹ سورج کی اولین کرن کی طرح پھوٹی۔ ماتحتوں نے حیران ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ یہ افسر تو بہت کم مسکراتا تھا۔ بلکہ بات بھی اتنی ہی کرتا تھا جتنی ضرورت ہو۔ لہجہ ہمیشہ خشک رہتا۔ بیکار ہوتا تو اپنی واکنگ سٹک لے کر وادیوں میں، جنگل میں، پہاڑ کی ڈھلانوں پر تنہا گھومتا پھرتا تھا۔ ماتحت سوچ رہے تھے کہ شاید اب وہ اس لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنائے گا۔ طرح طرح کی اذیتیں دے گا۔ تاکہ وہ اپنے ساتھی طالب علموں کے نام بتادے۔ مستقبل کے منصوبوں کا پردہ چاک کردے۔ بسماچیوں سے رابطے کے ذرائع اور طریقے بتادے۔ مگر وہ تو مسکرارہا تھا۔ کیسی انہونی سی بات ہورہی تھی۔ شاید یہ بھی کوئی طریق کار ہو، لڑکی کو اعتماد میں لے رہا ہو۔ مگر ایسا پہلے کبھی ہوا نہیں۔ اس کا طرز عمل ہمیشہ ایک رہا ہے جیسے دو اور دو ہمیشہ چار ہوتے ہیں۔ کہیں اس لڑکی کے حسن کا جادو تو نہیں چل گیا۔ مگر اسے حسین لڑکیوں کی کمی کب رہی ہے۔ آج بھی مقامی امراء اور جرنیلوں کی بیٹیاں اس کے ساتھ ناچنا، گھومنا اور فلم دیکھنا پسند کرتی ہیں۔ وہ اپنی سخت مزاجی اور اکھڑپنے کے باوجود بے حد سمارٹ اور ہینڈ سم آفیسر تھا۔ مردانہ وجاہت کا شاہکار۔
’’کس سوچ میں ہو‘‘ کرنل نے پوچھا۔
’’سوچ رہی تھی کہ وہ کیسی مائیں ہیں جنھوں نے ایسے سپوت جنے ہیں جو کمزور اور نہتی لڑکیوں پر ظلم کرنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے بلکہ اسے اپنی بہادری سمجھتے ہیں۔‘‘
’’تو پھر تم نے دیکھ لیے ایسے سپوت یا ابھی حسرت باقی ہے۔‘‘
’’بات تو تب ہے جب تم میرے ہاتھ میں سنگین دو اور میں دست بدست لڑوں۔ کسی عورت سے نہیں بلکہ تمہارے انہی بہادر سپوتوں کے ساتھ۔‘‘
’’اچھا تو تم سنگین کے ساتھ لڑسکوگی۔ چلو تمہاری یہ حسرت بھی پوری کردی جائے گی تاکہ تم یہ سوچ سکو کہ ایسی مائیں بھی ہیں جن کے بیٹے دشمن کی آرزو پوری کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔‘‘
’’میں ابھی اسی وقت تیار ہوں۔ میرا نشانہ خراب نہیں ہے۔ میں اڑتی چڑیا گراسکتی ہوں۔‘‘ لڑکی نے جوش سے کہا۔
’’صبر لڑکی صبر‘‘ کرنل پھر ہلکے سے مسکرایا۔ ’’ابھی نہیں۔ مجھے اپنی تفتیش مکمل کرلینے دو اور جب تمہاری موت کا فیصلہ ہوجائے گا تو تمہاری یہ خواہش بھی پوری کردی جائے گی۔‘‘ وہ کرسی پیچھے کھسکا کر کھڑا ہوگیا۔ لڑکی کے چہرے پر مایوسی اور خوف کے رنگ بکھر گئے۔
’’سر کیا ہمیں اجازت ہے کہ ہم اس سے سب کچھ اگلوانے کی کوشش کریں۔ بس ایک رات ہمیں دے دیں صبح تک وہ یہ بھی بتادے گی کہ چھ ماہ کی عمر میں اس نے کیا کھایا پیا تھا۔ یہ لڑکی ہے۔ یہاں تو بڑے بڑے جیالے مردوں کی چیں بول جاتی ہے۔‘‘
کرنل نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ اس کی نظر ان گہرے سمندروں جیسی آنکھوں سے جا ٹکرائی۔ اسے یوں لگا جیسے وہ آنکھیں التجا کررہی ہوں کہ مجھے ان درندوں کے حوالے نہ کرنا،یہ میرے اس ان چھوئے پاکیزہ جسم کی دھجیاں اڑادیں گے۔ اس کو غلاظت میں لتھیڑدیں گے۔ کرنل کو اپنے دل کے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا سا محسوس ہوا۔ پتھر موم کی طرح پگھلنے لگا۔ وہ کچھ گڑبڑا سا گیا۔ یہ مجھے کیا ہوگیا ہے۔ کیا ہے اس لڑکی میں۔ یہ کیوں میری قوتِ ارادی کو ریزہ ریزہ کررہی ہے۔ عورت کی حقیقت میرے نزدیک محض ایک کھولنے کی ہے جسے صرف تسکین کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ محض نشاط کی چندگھڑیاں گزارنے کے لیے۔ جس کا کام نگاہوں کو لبھانا ہے مگر اسے دل میں اترنے کی اجازت نہیں۔ مگر اس کمبخت نے سیدھا وار ہی دل کی فصیل پر کیا ہے۔ نگاہیں تو خیرہ ہوئی ہی نہیں۔ اس کی کیا توجیہہ ہوسکتی ہے۔ کوئی نفسیاتی الجھن، تحت الشعور کا کوئی گھپلا۔ آخر کیا بات ہے۔ ماتحت اس کی خاموشی پر حیران تھے۔
’’سر پھر کیا حکم ہے۔‘‘
وہ چونک اٹھا ’’تم بھی اس لڑکی کی طرح ہی بے صبرے ہورہے ہو۔ اس کو میری رہائش گاہ پر لے جاکر بند کردو۔ اردلی سے کہنا کہ خیال رکھے۔ بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔ اس کی تفتیش میں خود کروں گا۔‘‘
کیا اس لڑکی میں یہ قوت ہے کہ وہ اس کی مرضی کے بغیر اس سے احکامات صادر کراسکے۔ اسے یہ تو نہیں کہنا تھا۔ اس نے آج تک کب کسی کی انوسٹی گیشن خود کی ہے۔ یہ تو عام سی لڑکی ہے۔ جیسی اور بے شمار افغان لڑکیا ںہیں۔ کوئی مافوق الفطرت ہستی نہیں ہے۔ پھر ایسا کیوں ہوا۔ وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ ماتحت بھی گنگ سے رہ گئے۔ ہر بات اپنی ڈگر سے ہٹ کر ہورہی تھی۔ قیدی عورتوں میں اس نے کبھی کوئی دلچسپی نہیں لی تھی۔ ہائی سوسائٹی کی لڑکیاں اس کی کمزوری تھیں۔ انھوں نے کندھے اچکائے۔ ہمیں اس سے کیا۔ ہم نے اپنا فرض پورا کردیا۔ آگے افسر جانے اور اس کا کام
( ۲ )
عجب کرید، عجب بے کلی سے ہے جیسے
مجھے مری رگِ جاں تک ٹٹولتا ہے کوئی
سورج ڈھل رہا تھا۔ شام دبے پاؤں پہاڑوں اور وادیوں پر اپنا ملگجی ملگجی آنچل ڈالتی جارہی تھی۔ پرندوں کی ڈاریں بسیرا لینے کے لیے اڑ رہی تھیں۔ گھاس میں سے جنگلی پھولوں کے منے منے سے عنابی، کاسنی اور سفید چہرے جھانک رہے تھے۔ آڑو خوبانی اور ناشپاتی کے درخت سفید اور گلابی شگوفوں سے لد گئے تھے۔ گولے بارود کی بُو کے باوجود فضا میں ابھی بھی پھولوں کی مہک تھی۔ یہ خوشبو اس کے سینے میں اتر رہی تھی۔ اسے مدہوش کررہی تھی۔
برآمدے میں قدموں کی چاپ گونجی۔ اردلی آواز سن کر کچن سے باہر نکل آیا۔ کرنل برآمدے ہی میں کینوس کی آرام کرسی پر نیم دراز ہوگیا۔ اردلی نے اس کے بھاری فوجی بوٹ اتارے اور نرم چمڑے کے مکیسن سامنے رکھ دئیے۔
’’لڑکی کہاں ہے؟‘‘
’’سر میں نے اس کو کچن کے ساتھ والے اسٹور میں بند کردیا تھا۔‘‘
’’کچھ کھانے کو دیا تھا؟‘‘
’’اس نے کھانے سے انکار کردیا۔ کہتی تھی تمہارا کھانا حرام ہے۔‘‘ پھر وہ ہنسا۔
’’آنے والے کہہ رہے تھے بڑی جی دار اور خطرناک لڑکی ہے۔ پر وہ تو اندر سے بڑی ڈرپورک نکلی۔‘‘
’’وہ کیسے‘‘
’’چیخنے لگی کہ یہاں کوئی چوہا ہے۔ کھڑ پڑ کی آوازیں آرہی ہیں۔ میں نے کہا بس ترکی تمام شد! اس بوتے پر تم ہم سے ٹکر لینے چلی تھیں۔ ایک چھوٹے سے چوہے سے ڈر گئیں۔ کہنے لگی میں تو شیر سے بھی نہیں ڈرتی بس مجھے چوہے اچھے نہیں لگتے۔ گھن آتی ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’مِسّی انسانوں سے ڈرنا سیکھو۔ چوہے بے چارے کسی کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔‘‘
’’تم باتیں بہت کرتے ہو ساشا۔ تم سے کس نے کہا تھا کہ بیٹھ کر لڑکی سے فلسفہ بگھارتے رہو۔‘‘
’’سر ایسے ہی کبھی زبان میں کھجلی ہونے لگتی ہے۔ سارا دن چپ رہ رہ کر ڈر لگتا ہے کہ کہیں بولنا نہ بھول جاؤں۔ آخر انسان بولے بغیر کتنے دن زندہ رہ سکتا ہے۔ میں کھائے پیئے بغیر تو زندہ رہ سکتاہوں مگر بولے بغیر نہیں۔‘‘
’’وطن میں کیا بس گپیں ہی ہانکا کرتے تھے یا کچھ کام کاج بھی کرتے تھے۔‘‘
’’وہاں تو سر ہر شام چائے خانے میں گزرتی تھی۔ یار دوست جمع ہوجاتے۔ ووڈکا پی کر مدہوش ہوجاتے۔ دنیا بھر کے قصے کہانیاں ہوتیں۔ پرانی داستانیں اور پرانی جنگوں کی کہانیاں سناتے۔ نپولین اور جرمنوں کا کیا حشر ہم نے کیا۔ پھر کوئی وائیلن پر لوک دھن چھیڑ دیتا تو دوسرا گیت گانے لگتا۔ کوئی دوست ناچنے لگتا۔ میرا ایک دوست ٹیپ ڈانس غضب کا کرتا تھا۔ یہاں کیا ہے سر؟ خاموشی اور تنہائی۔ ‘‘ساشا اداس ہوگیا۔ ’’چلیے غسل کا پانی تیار ہے۔ آپ تھکے ہارے ہیں اور میں کان کھا رہا ہوں۔‘‘
انگریزی حرف ایل (L) کی طرح برآمدہ تھا جس کی لمبی طرف میں دو کمروں کے دروازے کھلتے تھے اور چھوٹی طرف کچن اور سٹور کے دروازے اور کھڑکیاں تھیں۔ یہ عارضی طور پر بنائی گئی رہائش گاہ تھی۔ لکڑی کے لٹھوں سے تیار کردہ۔ درخت کے موٹے موٹے تنوں کی کڑیاں ڈال کر چھت بنادی گئی تھی۔ کوئی چاردیواری نہیں تھی۔ بس چاروں طرف کھلی زمین اور ڈھلانیں تھیں۔ نیچے وادی میں فوجیوں کے کیمپ تھے۔ کرنل نے غسل کرکے فلینیل کی ڈھلی سی پتلون اور نصف آستین کی قمیض پہن لی۔ وہ باہر آیا اور اسٹور کے دروازے کی زنجیر کھول دی۔ لڑکی اسے دیکھ کر یوں ٹھٹک گئی جیسے کوئی معصوم سی ہرنی اچانک کسی شیر کو دیکھ لے۔ اندر اندھیرا تھا مگر اس کی سبز آنکھیں یوں چمک رہی تھیں جیسے زمرد کی قاشیں ہوں۔ وہ چند لمحے خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
’’باہر آجاؤ۔‘‘ وہ واپس جاکر اپنی کرسی پر نیم دراز ہوگیا۔
لڑکی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی باہر آگئی۔ برآمدے کے لکڑی کے ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور اپنے گھٹنوں کے گرد بازوؤں کا حلقہ قائم کرلیا۔ اس نے اپنے سارے الجھے ہوئے بالوں کو سمیٹ کر ایک دھجی کے ساتھ پونی ٹیل کی طرح باندھ لیا تھا۔ میلے پھٹے ہوئے کپڑوں میں بغیر کسی آرائش کے بھی اس میں عجیب دلکشی اور تمکنت تھی۔ مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ اس کو دیکھ کر کرنل کے دل میں کسی بری خواہش نے جنم نہیں لیا تھا۔ اس کے حصول کے لیے بے تابی اور اضطراب نہیں پیدا ہوا تھا۔ اس کو چھولینے کا خیال نہیں آیا تھا۔ اس کو شوریدگی اور گرم تابی کی بجائے خنکی اور سکون کا احساس ہوتا تھا۔ ایسا کیوں تھا؟ کیا اس لڑکی میں کسی چیز کی کمی تھی یا خود اس کے جذبے یخ بستہ ہورہے تھے۔
’’میں خود انٹیروگیشن نہیں کرتا لیکن تمہیں لے آیاتاکہ تمہیں اذیت اور تشدد سے بچاسکوںاب تمہارا یہ فرض بنتا ہے کہ تم مجھے سب کچھ بلا کم و کاست بتادو۔‘‘
’’آپ نے ناحق سب کچھ کیا کیونکہ میں آپ کے اس احسان کا بدلہ نہیں چکاسکتی۔‘‘
’’یعنی‘‘
’’اول تو میرا کسی زیر زمین تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے، میں نے جو کچھ کیا ہے اپنے طور پر کیا ہے، اور اگر واقعی میرا تعلق ہوتا بھی تو آپ خواہ میرے بدن کا ریشہ ریشہ بھی الگ کردیتے تب بھی مجھ سے کچھ نہ اُگلواسکتے۔‘‘
اردلی نے چائے کی ٹرے ٹی پائی پر رکھ دی۔
’’تو پھر کیا میں تمہیں انھی کے حوالے کردوں تاکہ وہ جیسے چاہیں تم سے معلومات حاصل کرلیں۔ تم تنہا بہر حال نہیں ہو۔ تمہارے کچھ ساتھی بھی ہیں۔‘‘
لڑکی خاموش رہی۔ کرنل نے چائے کی پیالی بناکر اس کی طرف بڑھائی۔
’’یہ حرام نہیں ہے۔‘‘ لڑکی نے انکار میں سر ہلایا۔
’’کب تک؟ بغیر کھائے پئے آخر تم کب تک زندہ رہو گی۔‘‘
’’زندہ رہنا کون چاہتا ہے۔‘‘
’’تو پھر یہ تو خود کشی ہوئی جو شاید تمہارے مذہب میں حرام ہے۔‘‘
لڑکی نے چائے کی پیالی تھام لی۔ کرنل نے بسکٹوں کی پلیٹ آگے کی۔
’’لو یہ بھی لو۔ اس لیے کہ آگے جو تم پر گذرنے والی ہے اس کے لیے قوت درکار ہے۔ جو بھوکے رہنے سے زائل ہوجائے گی۔‘‘
ایک سایہ لڑکی کے چہرے پر سے گزرگیا۔ ’’تو کیا واقعی آپ مجھے ان روسی درندوں کے حوالے کردیں گے۔‘‘
’’کیا فرق پڑتا ہے میں بھی تو انہی روسی درندوں میں سے ایک ہوں۔‘‘
’’آپ……‘‘ لڑکی کچھ سوچنے لگی۔
’’ہاں میں…… کہو کیا کہنے والی تھیں۔‘‘
’’کچھ نہیں۔ میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ یہاں تو سارا اختیار آپ کا ہے۔ میں تو فقط ایک لاچار اور بے بس قیدی ہوں۔‘‘
کرنل خاموشی سے چائے پی رہا تھا۔ اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔ بے شمار پتنگے منڈلاتے پھر رہے تھے۔ وادی سیاہ پوش ہوگئی تھی۔ دور کوہ ہندوکش کی بلند چوٹیاں اس پس منظر میں کسی پینٹنگ کا حصہ لگ رہی تھی۔ اردلی نے جنریٹر آن کردیا۔ کچن کی بتی جلنے لگی۔ روشنی کی لکیر لڑکی کے بالوں اور دائیں گال پر چمکنے لگی۔
’’یونیورسٹی میں کیا پڑھتی تھیں؟‘‘
’’تاریخ‘‘
’’تاریخ سے تم نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا؟‘‘
’’تاریخ ہی نے تو یہ ولولہ مجھے دیا ہے۔ میں نے امام شامل کی ساری جدوجہد کی داستان پڑھی ہے۔‘‘
’’ان کا انجام نہیں پڑھا۔‘‘
’’سب کا یہی انجام ہوتا ہے۔ وہ بھی تہہ خاک سورہے ہیں اور جن کے خلاف وہ اٹھے تھے سو وہ بھی زمین کے نیچے ہیں۔ ظالم اور مظلوم کا یہی انجام ہوتا ہے۔ جلدیا بدیر۔‘‘
’’جب انجام یہی ہے تو پھر خود کو تباہ و برباد کرنے سے کیا حاصل۔ خود سوچو انھوں نے کیا کھویا کیا پایا۔‘‘
’’دنیا کی تباہی و بربادی کی کوئی حقیقت نہیں۔ بے شک یہاں سب کچھ کھودے اور کچھ بھی نہ پائے۔ اصل کامیابی وکامرانی اس دنیا کی ہے جہا ںظالم اور مظلوم کا انجام ہرگز ایک سا نہ ہوگا۔ وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے گا۔ مسلمان اس دنیا میں مسافر کی طرح رہتا ہے۔ عارضی ٹھکانے کی کوئی وقعت نہیں۔‘‘
’’کیا تم دیکھ آئی ہو وہ دنیا۔ جو اتنے وثوق سے کہہ رہی ہو۔‘‘
’’یہ بات آپ نہیں سمجھیں گے۔ اس لیے کہ آپ اپنے آپ کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ آپ اس عظیم ہستی اور قوت بالا کو نہیں مانتے۔‘‘
’’اونہہ عظیم ہستی! جیسے کسی نے اسے دیکھا ہی تو ہے۔ پاگل لڑکی اگر تو نے تاریخ پڑھی ہوتی تو ایسی باتیں نہ کرتی۔ جو بھی روسیوں سے ٹکرایا تباہ ہوگیا۔ کیا عظیم فاتح نپولین بونا پارٹ کو بھول گئی ہے۔ کس طرح ذلیل و خوار اور تباہ ہوکر نکلا۔ پھر ہٹلر آیا دندناتا ہوا۔ اس کا انجام کیا ہوا۔ ترکوں سے پوچھو۔ جن کے سینے میں آج بھی ہم کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہوں گے۔ اٹھارویں صدی ہی میں تاشقند، بخارا، سمرقند، کوکند اور فیفا پر قبضہ کرتے ہوئے تمہارے دروازے پر دستک دینی شروع کردی تھی اور اُدھر یورپ میں ہماری یلغار کے سامنے پولینڈ، ہنگری، بلغاریہ، یوگوسلاویہ، چیکوسلواکیہ وغیرہ دم توڑتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ نصف جرمنی ہمارے قدموں پر ڈھیر ہوگیا۔ تم لوگوں کی ہستی کیا ہے۔ تم بھی اسی طرح پس جاؤگے جیسے ہاتھی کے پاؤں کے نیچے چیونٹی پس جاتی ہے۔‘‘
کرنل کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے۔ اس کی گردن اور چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا تھا۔ لبوں کے کونوں پر کف جمع ہوگیا تھا جسے اس نے ہاتھ کی پشت سے پونچھ لیا۔
’’اگر پس کر سرمہ ہونا ہی مقدر میں لکھا ہے تو کیوں نہ اچھی طرح مقابلہ کرکے پسیں۔ ہم جیتے جی ملحدوں اور کافروں کو اپنی زمین پر قدم نہیں جمانے دیں گے۔ ‘‘ لڑکی نے دھیمے مگر پُراعتماد لہجے میں کہا۔ کرنل کا جی چاہا کہ وہ ایک زوردار تھپڑ اس لڑکی کے رسید کرے۔ مگر وہ ضبط کرگیا۔ ابھی تک اس کا چہرہ تپ رہا تھا۔
’’یہ محض مذہبی جنون ہے اور کچھ نہیں۔ ملاؤں نے چکنی چپڑی باتیں کر کرکے اور ان دیکھی جنت کا لالچ دے دے کر تمہیں ہمارے خلاف کھڑا کررکھا ہے۔ سچ کہتا ہے مارکس کہ مذہب افیون ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے۔‘‘
’’مذہب افیون ہے تبھی تو اس کے نشے میں سرفروش افغان روسی ریچھوں سے جابھڑے ہیں اور انھیں مزے چکھا رہے ہیں۔‘‘
’’تم مجھے غصہ دلانے کی کوشش کررہی ہو۔‘‘
’’غصے کی کہانیاں بہت سن چکی ہوں۔ آپ کا اردلی مجھے آپ سے یوں ڈراتا رہا ہے جیسے آپ انسان نہ ہوں۔ خون آشام بھیڑئیے ہوں۔ مگر میرا تجربہ برعکس ہے۔‘‘
’’یعنی مجھے غصہ نہیں آتا۔‘‘
’’یعنی آپ بھیڑئیے نہیں ہیں۔‘‘
’’یعنی میں انسان ہوں۔ کسی روسی کو انسان کہہ کر تم اپنے کاز سے غداری کررہی ہو۔‘‘
’’سچ کو سچ ہی کہا جاتا ہے۔‘‘ لڑکی نے لاپروائی سے کہا وہ باہر فضا میں جگنوؤں کی اڑتی ہوئی چنگاریاں دیکھ رہی تھی۔ کرنل بھی پرسکون ہوتا جارہا تھا۔
’’تمہارا خیال ہے کہ مجھے تمہاری باتوں پر واقعی غصہ آنا چاہیے تھا۔‘‘
وہ ذرا حیران ہوئی ’’دراصل مرد میں غیرت ہونی چاہیے۔ اگر کوئی عورت اس کو چیلنج کرے تو اسے صبر سے کام نہیں لینا چاہیے۔ فوراً ختم کردینا چاہیے۔‘‘
’’یہ تم مرنے پر اس طرح ادھار کیوں کھائے بیٹھی ہو۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ مرنے مارنے کا بھی اور غصہ کے اظہار کا بھی۔ میں تمہیں اتنی آسانی سے کیسے مارسکتا ہوں۔ ابھی میرا مقصد کہاں پورا ہوا ہے۔ گھبراؤ نہیں میں بے عزت نہیں ہوں۔‘‘ کرنل مسکرایا۔ مسکراہٹ سے اس کا چہرہ جگمگا اٹھا۔ کیا مسکراہٹ کسی چہرے کو اتنا بدل سکتی ہے جیسے پتھر میں جان پڑجائے۔ جیسے سنگلاخ چٹانوں پر پھول کھل اٹھیں۔ وہ بھی بے اختیار مسکرادی۔ دانت چمکے اور آنکھوں میں ستاروں کی لو تیز ہوگئی۔ ماحوں کی کثافت دھل سی گئی۔
’’کیا آپ ایک احسان اور اس ناچیز پر کرسکتے ہیں؟‘‘
وہ چند لمحے خاموش رہا پھر ذرا رکتے رکتے بولا ’’میں وعدہ نہیں کرتا۔ پورا کرسکا تو کروں گا۔‘‘
’’آپ کے سپاہیوں نے میرے سر سے چادر کھینچ لی تھی اور سر کا رومال بھی نوچ ڈالا تھا کیا ایک چادر مل سکے گی۔‘‘
’’کیا سردی لگ رہی ہے؟‘‘
’’نہیں سردی کہاں۔ جس کے اندر نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک رہی ہو اسے سردی کہاں لگتی ہے۔ یہ میرے اللہ کا حکم ہے کہ میں خود کو چادر سے ڈھانپے رکھوں۔‘‘
کرنل نے اردلی کو چادر لانے کو کہا اور خود کہیں کھو سا گیا۔ اس لڑکی جیسی آواز اس نے پہلے بھی کہیں سنی تھی۔ مگر کہاں؟ اسے یاد نہیں آرہا تھا۔ یہ مسکراہٹ اس کی جانی پہچانی تھی۔ کچھ ایسے ہی الفاظ وہ پہلے بھی سن چکا ہے۔ شاید کبھی کوئی خواب دیکھا ہو۔ کسی کتاب میں پرھا ہو۔ وہ خوابناک نظروں سے لڑکی کو تک رہا تھا۔ جو بستر کی چادر اپنے گرد لپیٹ رہی تھی۔ اوپر کا پلو اس کی پیشانی پر جھک آیا تھا۔ بالوں کی لٹیں چھپ گئی تھیں۔ یوں چادر میں لپٹا وجود اسے بڑا دیکھا بھالا سا لگا۔ دور کہیں ایسا ہی ہیولا اس کے تصور میں محوِ خرام تھا۔ کہاں دیکھا تھا اس نے اس کو۔ اسے کیوں یاد نہیں آرہا۔ اس نے اپنی پیشانی مسل ڈالی۔ کوئی فائدہ نہیں یوں اپنے آپ سے لڑنے کا۔ اس نے اپنے خیالات کو جھٹک دیا۔
’’اب تو اپنا نام بتادو۔ نمبر الاٹ ہونے میں تو ابھی دیر ہے۔ وہ تو جیل جانے پر ہی ملے گا۔‘‘
’’ماہ گل‘‘ بے اختیار اس کے لبوں سے اس کا نام یوں ٹپک پڑا جیسے جھولی سے پھول گرگیا ہو۔ لڑکی نے پشیمان ہوکر نگاہیں اٹھائیں۔
’’ساشا ماہ گل کو میرے برابر والے کمرے میں بند کردو۔ سٹور تو کوئی سونے کی جگہ نہیں ہے اور پھر وہاں چوہے بھی تو ہیں۔‘‘
(جاری)