غم جہاں کی کڑی دھوپ سر پہ ہے لیکن
کسی کے ہاتھ کا سایہ ہے سائباں کی طرح
شگوفے جھڑ گئے تھے اور درخت نوزائیدہ منے منے سبز پھلوں سے لد گئے تھے۔ معلوم نہیں ان کی قسمت میں پکنا لکھا تھا یا معصوم افغانی بچوں کی طرح آگ و بارود کی نذر ہوجانا تھا۔ وہ باورچی خانے میں بیٹھی افغانی تکے بھون رہی تھی۔ اس نے سر پر سیاہ رومال باندھ رکھا تھا۔ شعلے اس کی آنکھوں اور رخساروں پر ناچ رہے تھے۔ شام ابھی ملگجی نہیں ہوئی تھی۔ البتہ شام کا روشن ستارہ سرمئی آسمان کی پیشانی پر دمک رہا تھا۔ ذرا فاصلے پر پہلی تاریخوں کا نازک سا روپہلا چاند بھی ٹکا ہوا تھا۔ دروازے سے آنے والی روشنی رکی تو اس نے چونک کر اوپر دیکھا۔ دروازے کی اونچائی اور چوڑائی کرنل یاکوف کی بلند قامتی اور چوڑے چکلے وجود کے سامنے سکڑ گئی تھی۔ ماہ گل کے ہاتھوں کی لرزش لوہے کی سیخوں میں سرایت کرگئی۔ شعلوں کی سرخی کے ساتھ حیا کی لالی بھی شامل ہوگئی۔ وہ خاموش کھڑا خالی خالی نظروں سے اسے تک رہا تھا۔ شیو بڑھی ہوئی، بال بے ترتیب اور الجھے الجھے سے تھے۔ وردی مسلی ہوئی اور بوٹ گرد سے اٹے ہوئے تھے۔
’’ساشا تو کہہ رہا تھا کہ آپ دوپہر سے آئے ہوئے ہیں۔ اسی نے آپ کے لیے مجھ سے یہ تکے بھنوائے تھے۔‘‘
وہ کھویا کھویا سا تھا جیسے یہاں نہ ہو کہیں اور ہو۔
’’کیا بات ہے طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔‘‘ ماہ گل نے کسی قدر پریشانی سے پوچھا۔
’’ہمارا پورا کنوائے بھسم ہوگیا۔ ایمونیشن پر اشرار نے قبضہ کرلیا۔ ہم نے جو نیا راستہ بنایا تھا وہ وہیں گھات میں بیٹھے تھے۔ جیسے انھیں پہلے سے سارا پلان معلوم ہو۔‘‘
ماہ گل کا دل زور سے دھڑکا۔ وہ اپنے چہرے کے اثرات چھپانے کے لیے جھک کر کوئلوں میں پھونکیں مارنے لگی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے کرنل کی نگاہیں برمے کی طرح اس کے وجود کو چھیدتے ہوئے گہرائیوں میں اتر رہی ہوں۔
’’آپ جلدی سے غسل کرکے کپڑے بدل لیں۔ ساشا انتظار کررہا ہے کھانا بس تیار ہی ہے۔‘‘
کھانا کھاتے کھاتے اچانک کرنل نے کہا ’’تم تیار ہوجاؤ ہمیں آدھے گھنٹے کے اندر یہ جگہ چھوڑنی ہے۔‘‘
’’کیوں کیا مجاہدین یہاں بھی حملہ کرنے والے ہیں۔‘‘ ماہ گل سخت فکر مند ہوگئی۔
’’تمہیں کسی محفوظ مقام پر پہنچانا ہے۔‘‘
’’مگر کیوں، صرف مجھے ہی کیوں؟‘‘
’’جیسے ہی انھوں نے اس کو توڑا وہ تمہارے بارے میں سب کچھ اگل دے گا۔‘‘
’’میں سمجھی نہیں۔‘‘ ماہ گل کے حلق میں نوالا اٹک گیا۔ اس نے پلیٹ زمین پر رکھ دی۔
’’ملٹری انٹلی جنس نے ان لوگوں میں سے ایک کو پکڑلیا ہے جن کو تم نے اس راستے کے بارے میں بتایا تھا۔‘‘ اس نے بڑے اطمینان سے کھانا کھاتے ہوئے کہا۔ ’’تکے بڑے مزیدار ہیں۔‘‘
’’کیا اس آدمی نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ میں نے اطلاع دی تھی۔‘‘
’’نہیں کیا تو کرلے گا۔‘‘
’’ناممکن ہے۔‘‘
’’اچھا‘‘ وہ مسکرایا۔ ’’ان کے لیے کوئی چیز ناممکن نہیں۔ ان کے پاس بڑے بڑے حربے ہیں۔ تشدد کے علاوہ بھی طریقے ہیں اور اب تو ایسے کیمیکل ہیں جن کا اثر انسان کو لوتھڑا بنادیتا ہے۔ اور وہ سب اگل دیتا ہے۔ یہ کیمیکل ایج ہے خاتون محترم۔‘‘
’’جب اس نے فی الحال کوئی اعتراف نہیں کیا تو آپ کو کیسے یقین ہے کہ اس کی معلومات کا ذریعہ میں ہی بنوں گی۔‘‘
’’وہ یہاں منڈلاتا ہوا پکڑا گیا ہے۔‘‘
’’کوئی اور وجہ بھی تو ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے مجھے چھڑانے آیا ہو۔‘‘
’’مگر تم نے تو کہا تھا میں یوں چپکے سے نہیں جاؤں گی۔ لڑکر چھڑاؤ تب بات بنے گی۔‘‘
ماہ گل کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ یوں دم سادھ گئی جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ کرنل کا رویہ بھی اس کی سمجھ سے بالا تر تھا۔
’’وقت بہت کم ہے ساشا کو بھی میں نے بہانے سے کہیں بھیج دیا ہے۔ ایک بیگ میں جو بھی کھانے کا سامان ڈال سکو ڈال لو۔ چھاگلیں پانی سے بھرلو ہم کو پیدل ہی جانا ہوگا۔‘‘
’’آپ کیوں میرے ساتھ اپنی زندگی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا۔‘‘
وہ سنی ان سنی کرکے بولا ’’تمہارے بھائی اور والد کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ تمہاری ماں بہن اور چھوٹا بھائی پاکستان چلے گئے ہیں۔ تمہیں بھی سرحد عبور کرلینی چاہیے۔‘‘
’’مگر آپ کیوں میرے ساتھ جانا چاہتے ہیں؟‘‘
’’تاکہ تمہیں سرحد عبور کراؤں یا باغیوں کی کسی چوکی تک پہنچادوں۔‘‘
’’واپس آکر کیا جواب دیں گے کہ کہاں گئے تھے۔ اور میں کہاں گئی۔‘‘
’’کہہ دوں گا بھاگ گئی تھی۔ تلاش میں گیا تھا۔ بہر حال یہ بعد کی باتیں ہیں۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ فی الحال وقت ضائع نہ کرو۔‘‘
’’میرا دل نہیں مانتا کرنل یاکوف۔ آپ کے مجھ پر بے شمار احسانات ہیں۔ میںاتنی بڑی قربانی مانگنے کا حق نہیں رکھتی۔‘‘
’’تو میری ماں کی کی ہم شکل ہے لڑکی۔ مجھے تجھ میں اس کا پرتو نظر آتا ہے۔ میں ہرگز تجھے ان کے حوالے نہیں کرسکتا۔ مجھ پر تیرا بڑا حق ہے۔ البتہ تو یہ بات نہیں جانتی اور نہ سمجھ سکتی ہے۔ مجھے یہ قرض چکانے دے۔ میرے راستے کی رکاوٹ نہ بن۔‘‘ کرنل کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ ماہ گل کچھ سہم سی گئی اور اس کی ہدایات کے مطابق چیزیں جمع کرنے لگی۔ گو کرنل کا انجام سوچ کر اس کا منا سا دل رو رہا تھا۔ کرنل نے ایک ریک میں سے دوربین، نقشہ، کمپاس اور دوسری ضرورت کی چیزیں لے لیں۔ پستول اور کارتوسوں کی پیٹی گلے میں ڈالی۔ ماہ گل نے چادر لپیٹی اور کرنل کے پیچھے ڈھلوان سے نیچے اترنے لگی۔ وہ تقریباً لڑھک رہی تھی۔ پتھر اس کے قدموں تلے پھسل رہے تھے۔
’’مجھے یقین ہے کہ آپ کی حکومت اور آپ کے افسر آپ کو کبھی معاف نہ کریں گے۔ وہ ضرور آپ پر شک کریں گے۔‘‘
’’کیا فرق پڑے گا اس سے۔‘‘
’’وہ آپ کو سائیبریا بھیج دیں گے۔‘‘
’’تو بھی تمہیں اس سے کیافرق پڑے گا۔‘‘
ماہ گل کی زبان اس کے دل کا ساتھ کہاں دے سکتی تھی۔ اس کی ایک ایک دھڑکن پکار پکار کر یہ کہہ رہی تھی لوٹ جاؤ، لوٹ جاؤ۔
’’چپ کیوں ہوگئیں۔‘‘ کرنل نے پلٹ کر دیکھا اور مسکرایا۔ ’’اچھا ذرا تیزی سے چلو۔ اس سے پہلے کے انھیں خبر ہوجائے ہمیں ان کی پہنچ سے دور نکل جانا چاہیے۔‘‘
کرنل کسی غزال کی طرح چوکڑیاں بھرتا، کھائیوں کو پھلانگتا، پتھروں کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ ماہ گل کے لیے ساتھ دینا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ اس نے اپنی پھولتی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا:
’’آپ مجھے نقشہ دے کر راستہ سمجھادیں میں کسی نہ کسی طرح پہنچ جاؤں گی۔‘‘
’’وہی ایک رٹ طوطے کی طرح لگا رکھی ہے۔ تمہیں نہیں معلوم زبان سے نکلی بات اور کمان سے نکلا تیر کبھی واپس نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’فوج سے نکلا ہوا سپاہی بھی کبھی واپس نہیں ہوسکتا۔ آپ کو کیا یہ معلوم نہیں۔‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تمہیں میری اتنی فکر کیوں ہے۔ میری زندگی کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انسانوں کے سمندر میں میرا وجود قطرے کی طرح ہے۔ تنہا اور رائیگاں۔ میرے نہ ہونے کا احساس سمندر کو ہرگز نہ ہوگا۔‘‘
ماہ گل کی پنڈلیوں میں گلٹیاں پڑگئی تھیں۔ سرمئی شام رات کی سیاہ چادر اوڑھ رہی تھی۔ آسمان پر ستاروں کے چراغ ایک ایک کرکے روشن ہورہے تھے۔ وادیوں میں کہیں کہیں دئیے سے ٹمٹمارہے تھے۔ نہ جانے وہ فوجی پڑاؤ تھے کہ دہقانوں کے گھر۔
’’تھک گئی ہو؟‘‘ کرنل نے پوچھا۔
’’ظاہر ہے‘‘
’’وقت نہیں تھا ورنہ ایک خچر تو اڑایا جاسکتا تھا۔‘‘
’’ایسا کیوں نہ کریں ذرا دم لے لیں۔ میں بھی نماز پڑھ لوں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے کوئی مناسب سی جگہ دیکھ کر رک جاتے ہیں۔ مگر پانی تو ہے نہیں، منہ کیسے دھوؤگی۔ میری ماں تو ہمیشہ کسی چشمے یا برساتی نالے کے پانی سے منہ دھوتی تھی، بلکہ پاؤں بھی دھوتی تھی۔‘‘
’’پانی نہ ہو تو انسان خاک سے منھ دھوسکتا ہے۔‘‘
’’اچھا!‘‘ اس نے حیرت سے کہا ’’ وہ کیسے؟‘‘
’’ایسے‘‘ ماہ گل نے تیمم کرکے دکھایا۔ ایک بڑے پتھر کے پیچھے وہ لوگ رک گئے۔ ماہ گل نماز پڑھ رہی تھی اورکرنل پتھر سے ٹیک لگائے اسے یوں دیکھتا رہا جیسے کوئی شخص کسی خوبصورت پھول، خوشنما پرندے، چمکتے ستارے، ریشمی پروں والی تتلی اور چاندی جیسے چمکتے پانی والی صاف شفاف جھیل کو دیکھتا ہے۔ ماہ گل اٹھی تو قدرے لڑکھڑا گئی۔
’’اب تو چلنا اور مشکل لگ رہا ہے۔ ٹانگیں ساری اکڑ گئی ہیں۔‘‘
’’تھوڑا سا اور چلنے کی کوشش کرو، رات گزارنے کے لیے کوئی غار مل جائے تو بہتر ہوگا۔‘‘
ماہ گل آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔
’’کیا تھک گئی ہو؟‘‘
’’نہیں جی نہیں۔‘‘ ماہ گل گھبرا کر بولی۔
’’ میں بالکل ٹھیک ہوں، چل تو رہی ہوں۔‘‘
اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔ بس تاروں کی لو تھی۔ تاریکی کے اس لامتناہی سمندر میں ان کا وجود چھوٹی چھوٹی کشتیوں کا سا تھا جو اپنی منزل کی طرف ہولے ہولے رواں ہوں۔ کرنل کسی کسی وقت ٹارچ روشن کرکے گردوپیش کا جائزہ لے لیتا تھا۔ رات نے اپنے کان سے چاند کا جھمکا بھی اتار پھینکا تھا۔ ایک جگہ بہت بڑی چٹان آگے کو جھکی آئی تھی اور سائبان کی طرح کھڑی تھی۔ غار تو نہیں تھا مگر بہرحال ایک پناہ گاہ سی بن گئی تھی۔ کرنل نے اپنا ریک سیک اتاردیا۔ اس میں سے سلیپنگ بیگ اور کمبل نکالا کمبل ماہ گل کو دے دیا۔ خنکی خاصی بڑھ گئی تھی۔ سناٹا ایسا تھا کہ سانس کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔ ماہ گل کمبل میں سمٹ کر لیٹ گئی۔ تھکن خمار بن کر اس کی رگ رگ اور ریشے ریشے میں اتر رہی تھی۔ انگ انگ پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ وہ کب نیند کی پرسکون وادی میں اتر گئی۔ سپیدئہ سحر ابھی نمودار بھی نہ ہواتھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ جس کروٹ سوئی تھی اسی کروٹ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کرنل سویا ہوا تھا۔ اس نے اٹھ کر چھاگل سے پانی لے کر کلیاں کیں اور دو چار چھپکے منھ پر مارے تاکہ نیند سے متاثر آنکھیں ذرا کھل جائیں۔ سارا جسم اکڑا پڑا تھا، دو اینٹیں رکھ کر اس نے چولہا سا بنایا اور جھاڑ جھنکار جمع کرکے آگ جلا کر پانی کی چھوٹی سے کیتلی اوپر رکھ دی۔ چٹیل پہاڑوں پر کوئی درخت نہ تھا۔ آسمان بتدریج روشن ہورہا تھا۔ ستارے مدھم پڑ رہے تھے، اردگرد کے مناظر اجاگر ہورہے تھے۔
’’اٹھ گئیں تم؟‘‘
’’جی ہاں کب کی۔ آپ کے اٹھنے کا انتظار تھا۔‘‘
’’ارے واہ، تم نے تو آگ بھی جلالی۔ غالباً چائے کا پانی تیار ہورہا ہے۔‘‘
’’بس آپ اٹھئے، پانچ منٹوں میں جائے تیار ہوجائے گی۔ میںپنیر اور ڈبل روٹی نکالتی ہوں۔‘‘
چائے کے گھونٹ بھرتے ہوئے کرنل نے کہا ’’پہاڑوں سے اترکر جب ہم بستی میں داخل ہوں گے تب معاملہ ذرا خطرناک ہوجائے گا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’افغان کہیں گے کہ یہ روسی ہماری لڑکی کو لے کر کہا ںجارہا ہے؟‘‘
’’آپ شکل سے روسی تو نہیں لگتے۔‘‘
’’افغان بھی نہیں لگتا۔‘‘
’’آپ کہیے گا کہ میں ایرانی ہوں، فارسی تو آتی ہے نا۔‘‘
’’ہاں فارسی تو آتی ہے تمہارے بارے میں کیا کہوں گا کہ تم میری کون ہو؟‘‘ کرنل نے ذرا مسکراکر پوچھا۔
’’کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ لوگ اتنے متجسس نہیں ہوتے جتنا ہم سمجھتے ہیں۔‘‘
’’ہمیں دریا بھی عبور کرنا ہوگا۔‘‘
’’کیا دریائے ہلمند؟‘‘
’’بہت کمزور ہے جغرافیہ تمہارا۔ البتہ تاریخ مضبوط ہے۔ کہاں ہم کہاں دریائے ہلمند۔ اگر ہم جلال آباد گئے تو دریائے کابل عبور کرنا ہوگا۔ ہوسکا تو نورستان میں مجاہدین کے حوالے تمہیں کرکے میں واپس چلا جاؤں گا۔‘‘
’’کہاں‘‘
’’یہ بعد میں سوچوں گا۔ فی الحال تو تمہیں ٹھکانے لگانا ہے۔‘‘
ماہ گل خاموش ہوگئی اور ان کا سفر پھر سے شروع ہوگیا۔ طویل تھکا دینے والا سفر۔ سر پر سورج آگ برسا رہا تھا اور نیچے سنگ ریزے چنگاریاں بن گئے تھے۔ کرنل نے سر اور چہرے پر رومال ڈھاٹے کی طرح باندھا ہوا تھا۔اس کی آنکھوں کی نیلاہٹوں میں سمندر کی سی گہرائی اور آسمان کی سی بلندی تھی۔ جو ماہ گل کو تقویت اور حوصلہ دے رہی تھی۔ وہ چل کیا بس لڑھک رہی تھی۔ اپنی قوت ارادی اور کرنل کی ہمراہی کی بدولت۔
وہ ایک بستی میں داخل ہوچکے تھے۔ ایک قہوہ خانے سے انھوں نے قہوہ لے کر پیا اور پھر بغلان کے شہر سے کرنل نے مقامی لباس اور چپل خریدے۔ ماہ گل نے بھی اپنے لیے جوتے لیے۔ شام ہوچکی تھی لہٰذا ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ایک معمولی سا کمرہ کرائے پر لیا جس میں دو چارپائیاں تھیں۔ پرانی میلی سی چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ دو گھسے پٹے کمبل رکھے ہوئے تھے۔ بلب بھی بس ٹمٹماتا ہوا ہی تھا۔ کرنل نے اپنی چارپائی دیوار کے ساتھ لگائی اور ماہ گل کی چارپائی دوسری دیوار کے ساتھ۔ وہ خود دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر نیم دراز ہوگیا اور سگار سلگایا۔
’’خوشبو باہر پھیل جائے گی۔ لوگ سوچیں گے نہیں کہ ان کے پاس روسی سگار کہاں سے آئے۔‘‘
’’سوچنے دو‘‘ کرنل نے بے پروائی سے کہا ’’اس کے بغیر مجھے سکون نہیں ملے گا۔‘‘
ماہ گل اپنی چارپائی پر بیٹھی تھی۔ سگار کا دھواں کمرے میں پھیل رہاتھا۔ کھڑکی کی سلاخوں کے اوپر چاند یوں نظر آرہا تھا جیسے کسی کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوں۔
(جاری)