ہم نہیں کھیلتے زندگی زندگی!

رضیہ فرید

ایک دن میں لکھنے کا موڈ طاری کرکے اپنی چھوٹی سی میز پر کاغذوں کا پلندہ رکھ کر بیٹھی تھی کہ ساتھ والے بنگلے سے آتی ہوئی باتوں کی آوازوں نے مجھے ڈسٹرب کردیا۔ یہ اس ملحق بنگلے کا پچھواڑہ تھا، جو میری بالکنی کے سامنے تھا۔ اس پچھواڑے میںبنگلے کی ماسیاں کپڑے اور برتن وغیرہ دھوتے ہوئے اونچی اونچی آوازوں میںباتیں کرتی رہتی تھیں، آفس کے دکھ سکھ شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ کام بھی کرتی رہتی تھیں، دو ڈھائی گھنٹے یہ سلسلہ روز جاری رہتا تھا، اس وقت بھی یہ آوازیں میرے کانوں تک پہنچ رہی تھیں، جس کی وجہ سے میں لکھنے میں یکسوئی محسوس نہیں کرپارہی تھی۔ میں نے گھڑی دیکھی، ساڑھے گیارہ بج رہے تھے، سوچا کچھ دیر بعد یہ عورتیں اپنے اپنے کام سے فارغ ہوکر چلی جائیں گی، پھر یکسوئی سے لکھوں گی۔ موسم کی دلکشی نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی۔ میرے کانوں میں ماسیوں کی آوازیں اب بھی آرہی تھیں۔ ایک ماسی کہہ رہی تھی: ’’بچوں کو ذرا سی ڈھیل دو، تو وہ پھیل جاتے ہیں، میرا بیٹا نواز ہٹ دھرم ہوگیا ہے۔ روزانہ اسے اٹھاتی ہوں، وہ مجھے جل دے کر پلنگ کے نیچے جاکر سوجاتا ہے۔‘‘

دوسری ماسی نے جواب دیا: ’’وہ اپنے بچے پر ظلم کررہی ہے، ابھی وہ پانچ سال کا مشکل سے ہوگا اور تو چاہتی ہے، وہ تجھے کما کر دے۔ میرے نواز کو دیکھ، پورا بائیس سال کا ہوگیا، اسے میں کام پر جانے کے لیے اٹھاتی ہوں، تو الٹا مجھ پر برسنے لگتا ہے کہ اسے کچی نیند سے اٹھا دیا، جب میں جواب میں غصہ کروں، تو ناشتے کے بغیر گھر سے نکل جاتا ہے اور میں سارا دن کڑھتی رہتی ہوں کہ مجھے اپنے غصے پر قابو رکھنا چاہیے تھا۔ میرا بچہ بھوکا چلا گیا۔ پہلی ماسی کی آواز آئی: تو نے اس کا بیاہ بھی تو کردیا،اس کی بیوی کے ذمے یہ کام لگا کہ وہ اسے اٹھا کر ناشتہ کروا دیا کرے، تو کیوں فکر کرتی ہے۔‘‘ ماسی نے جواب دیا: ’’اس بے چاری کو شادی کے بعد ایک دن بھی اس کا پیار نہیں ملا، ہر وقت منہ پھلائے رہتا ہے، اس کی کیا مجال جو اسے سوتے سے اٹھا سکے۔ ہروقت ڈری ڈری پھرتی ہے۔‘‘ پہلی ماسی کی آواز آئی ’’تو نے انوار کی شادی کرنے میں بہت جلد بازی کی، وہ خود بھی شادی کرنے پر راضی نہیں تھا، پہلے اسے کچھ کمانے کھانے کے قابل توکرتی، میں نے تو اپنے نواز سے کہہ دیا ہے کہ پہلے کچھ کما کر ہمیں کھلا، اپنی بہن کی شادی کر، پھر اس کا بیاہ ہوگا۔ ورنہ ساری عمر لنڈورا پھر، مجھے اس کا بیاہ نہیں کرنا۔‘‘

دوسری ماسی نے ایک لمبی آہ بھری اور کہنے لگی: ’’میں نے تو اسے پڑھانے کا سوچا تھا۔ آٹھ جماعت تک اسکول بھیجا، نواز کے ابا بیمار پڑگئے۔ مجھے اس کا اسکول چھڑوانا پڑا۔ نواز کے ابا نے اپنی جگہ اسے فیکٹری میں لگوادیا۔ بس اس دن کے بعد سے آج تک وہ مجھ سے خفا ہے کہ اسے اسکول سے کیوں چھڑوایا۔ چار سال سے مجھے یوں ہی تنگ کررہا ہے، کبھی فیکٹری جاتا ہے، کبھی دو دودن نہیں جاتا۔ اجرت کی نوکری ہے، روز کے روز پیسے ملتے ہیں۔ گھر میں دس آدمی کھانے والے ہیں۔ ہم تین ماں بیٹیاں بنگلوں پر کام کرکے کچھ پیسے لے آتی ہیں۔ نواز سے بڑا لڑکا اختر بھی کچھ پیسہ دے دیتا ہے، مگر اس کے اپنے بیوی بچے ہیں، ان کے خرچے بھی اسے کرنے ہوتے ہیں۔ میں نے یہ سوچ کر نواز کی بھی شادی کردی کہ بیوی آئے گی، تو یہ ذمے داری سے کام پر جانے لگے گا، مگر شادی کو چھ مہینے ہوگئے، یہ مشکل سے دو مہینے کام پر گیا ہوگا۔ بیوی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا، بس اپنے اسکول کے زمانے کے یار دوستوں میں خوش رہتا ہے۔ پہلے مجھ سے کہتا رہتا تھا کہ وہ کام کے ساتھ پڑھائی بھی کرنا چاہتا ہے۔ مگر جب شام کو سات بجے فیکٹری سے گھر آتا تھا، تو اتنا تھکا ہوا ہوتا تھا کہ نہ پڑھائی کا وقت ملتا تھا، نہ کبھی اتنے پیسے ہاتھ میں آتے تھے۔ مگر اس زمانے کے دو تین دوست آج بھی اس سے ملنے آتے ہیں، اور ان سے مل کر یہ بہت خوش ہوتا ہے۔ بعد میں کئی کئی دن مجھے طعنے دیتا رہتا ہے کہ میں نے اسے اسکول سے اٹھا کر اس کی زندگی خراب کردی، اب تو ہی بتا ہاجرہ! میں اسے کہاں سے پڑھاتی۔ اس کے باپ کو ہی چاؤ چڑھا تھا کہ نواز کو پڑھا لکھا کر افسر بناؤں گا، وہ ہی اس کے ناز اٹھاتا رہا، پھر خود کمانے لائق نہیں رہا، تو اسے فیکٹری میں لگوادیا۔ اس میں میرا کیا قصور، مگر یہ چھوکرا سارا غصہ مجھ پر اتارتا رہتا ہے۔

میں دلچسپی سے ان دونوں ماسیوں کی گفتگو سن رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ یقینا نواز ذہین لڑکا ہوگا، پڑھائی میں بھی اچھا ہوگا، جب ہی اسے پڑھائی کے چھٹ جانے کا صدمہ ہوگا، ورنہ تو اس ماحول کے بچے عموماً اسکول کے چھٹ جانے پر خوشی مناتے ہیں کہ پڑھائی سے جان چھوٹ گئی، مگر بیچارا نواز کئی برس گزر جانے کے باوجود اس غم کو سینے سے لگائے پھر رہا ہے، جب اپنے اسکول کے زمانے کے دوستوں سے ملتا ہوگا، تو اس غم کی آبیاری ہوتی ہوگی اور اپنے ذہنی سطح کے دوستوں سے ملنے میں مزا بھی ملتا ہوگا۔ وہ دہری زندگی جی رہا ہوگا اور سیدھی سادی ان پڑھ محنت کش عورت اپنے مالی مسائل میںالجھی ہوئی تھی، وہ اپنی روایتی عینک سے نواز کو دیکھ رہی تھی اور اسے سارا قصور اپنے بیٹے کا دکھائی دیتا تھا جو اس کی توقع پر پورا نہیں اتر رہا تھا، وہ کہہ رہی تھی ’’بڑا ہی ڈھیٹ ہوگیا ہے، پرسوں شام کو فیکٹری سے آتے ہوئے کسی موٹر سائیکل والے سے ٹکرا گیا، پیر میں معمولی سی چوٹ آئی، میں نے مرہم ملا، سنکائی کردی اور اگلے روز کام پر نہیں گیا۔ آج بھی میں نے اٹھایا، تو نہیں اٹھا۔ میں نے اختر سے کہا، وہ اسے اٹھائے۔ اس نے اللہ جانے ایسا کیا کہہ دیا کہ وہ بھنّا کر اٹھا اور اپنی بیوی پر برس پڑا،اسے منحوس، کم عقل او رجاہل کہہ کر لڑنے لگا، مجھے غصہ آگیا، میں اسے مارنے کو دوڑی، تو اس نے کمرے کی کنڈی چڑھالی۔ میں بکتی جھکتی کام پر چلی آئی، سوچ رہی ہوں، آج جلدی چھٹی کرکے گھر چلی جاؤں، اس ہڈ حرام کو تو ہمیں یونہی تنگ کرنا ہے، اس کی بیوی کو کسی بنگلے پر کام دلادوں، خدیجہ گاؤں جارہی ہے، وہ کہہ رہی تھی، اس کی جگہ اگر نواز کی بیوی کو لگادوں، تو اچھا رہے گا۔ وہ لوگ اچھا دیتے ہیں، کھانا پینا بھی وہیں ہوگا۔

دوسری ماسی کہنے لگی: ’’نواز بیوی کو بنگلے پر بھیجنے پر راضی ہوجائے گا؟‘‘ تو ، تو کہہ رہی تھی، وہ بیوی کو بنگلے پر کام پر بھیجنے پر راضی نہیں ہوتا۔‘‘

پہلی ماسی چیخ کر بولی: ’’میں تو کہہ آئی ہوں، کہ تو پڑاسوتا رہ ، میںتیری بیوی کو آج ہی لے جاکر بنگلے پر کام کروانے کے لیے چھوڑ آؤں گی، اب کبھی اسے سوتے سے نہیں اٹھاؤں گی، بیوی کی کمائی کھارتے رہنا عمر بھر۔ مجھ سے تم دونو ںکا خرچا نہیں اٹھتا، آج دوہیں، کل چار ہوں گے، کیا ساری عمر یونہی کھاتا رہے گا۔ مجھے بیٹیا ںبھی بیاہنی ہیں اور مہنگائی نے الگ کمر توڑ دی ہے۔‘‘

اب ان دونوں ماسیوں کا رخ مہنگائی کی طرف بڑھ گیا اور پھر دوسری ماسی اپنے کسی عزیز کی شادی اور ولیمے کی باتیں سنانے لگی، میری توجہ ان کی گفتگو سے ہٹ کر پھر موسم کی دل کشی کی طرف چلی گئی تھی، لگتا تھا کہ بارش بس اب برسنے والی ہے۔ میںکاغذ سمیٹ کر وہاں سے اٹھنے کا ارادہ کررہی تھی، کیوں کہ بارش ہوجانے کی صورت میں ہوا کی تیزی بالکنی میں بھی پھواریں پھینکنے لگتی ہے۔ سوچا اپنے کمرہ میں چل کر لکھنے کا موڈ بناؤں، اچانک کال بیل سنائی دی۔ یہ اسی بنگلے کی بیل تھی، شاید کسی نے دروازہ جلدی ہی کھول دیا تھا اور اس کے ساتھ مجھے بنگلے کے اس حصے سے چیخ سنائی دی، جو ذرا سی دیر میں ہسٹریائی چیخوں میں بدل گئی اور پھر بہت ساری آوازیں اس میں شامل ہوگئیں۔ مجھے دوسروں کے معاملات میں تاک جھانک کی بچپن سے عادت نہیں، مگر اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی پر آسمان ٹوٹ پڑا ہو، میری ماسی جو کچن میں برتن دھو رہی تھی، ان چیخوں کو سن کر دوڑتی ہوئی آگئی اور بالکنی سے جھانکنے لگی۔ چیخوں کی آوازیںمسلسل آرہی تھیں، میں سمجھی کہ ان ماسیوں میں سے شاید کسی کو کرنٹ لگ گیا۔ بارش کے پانی میں تار بھیگ گیا ہوگا اور اس ماسی کا ہاتھ، پاؤں اس پر پڑگیا ہوگا۔ ساتھ میں اس گھر کی خواتین کی آوازیں بھی آرہی تھیں، جو ماسی کو تسلیاں دے رہی تھیں، اب مجھ سے نہیں رہا گیا۔ بالکنی کی منڈیر ڈھائی تین فٹ کی تھی۔ وہاں جاکر اس سمت نظر ڈالی تو، وہ ماسی سر پیٹ پیٹ کر رورہی تھی، اور گھر کی خواتین اسے سنبھال رہی تھیں۔ دوسری ماسی پانی کا گلاس لیے اسے پانی پلانے کی کوشش کرہی تھی۔ پھر وہ عورت اسی طرح روتی چلاتی دروازے کی طرف چلنے لگی۔ ایک دس بارہ سالہ لڑکی نے اسے سنبھالا ہوا تھا، دونوں عورتیں باہر چلی گئیں، میں وہاں سے ہٹ گئی، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ چند لمحات پہلے یہ خواتین زور زور سے باتیں کررہی تھیں، پھر اچانک یہ کیا ہوا؟ میری ماسی کو شاید مجھ سے زیادہ تجسس تھا، اس نے وہیں کھڑے کھڑے غالباً گھر کی مالکن سے پوچھ لیا ’’باجی اسے کیا ہوا تھا؟ ‘‘

نیچے سے مالکن کی آواز آئی : ’’اس بدنصیب کا جوان لڑکا مرگیا۔ اس کی بیٹی ابھی ابھی یہ اطلاع لے کر آئی تھی۔ شاید ہارٹ اٹیک ہوگیا ہوگا۔

میرے ذہن کو جھٹکا سا لگا اور تب سے میں مضطرب ہوں، کیو ںکہ کچھ دیر بعد میری ماسی نے مجھے یہ اطلاع دی کہ اس ماسی کے جوان بیٹے نواز نے خود کشی کرلی۔ ماں اسے صبح کام پر جانے کے لیے اٹھا رہی تھی، وہ سستی کررہا تھا، پھر بڑے بھائی نے ڈانٹ دیا، شاید بیوی نے بھی کچھ کہا ہوگا۔ اس نے ماں کے گھر سے جانے کے بعد بیوی کو کسی کام سے باہر بھیج دیا، اور اندر سے کنڈی چڑھالی۔ وہ سمجھی کہ سونے کے لیے ایسا کررہا ہے، مگر جب دیر تک دروازہ بند رہا، تو اس نے کھٹکھٹایا۔ دروازہ نہیں کھلا، تو وہ گھبراگئی۔ گھر کے دوسرے افراد کو خبر کی، انھوں نے کھڑکی توڑی۔ اندر نواز گلے میں رسی باندھے پنکھے سے لٹک رہا تھا۔ جب اسے اتارا گیا، تو وہ کب کا دنیا چھوڑ چکا تھا۔

میں اگر بالکنی میں نہ بیٹھی ہوتی، مجھے اس واقعے اور اس کی جزئیات کا علم بھی نہ ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ میری ماسی اگلے دن سرسری انداز میں یہ بتادیتی کہ کسی ماسی کے لڑکے نے خوشی کرلی، ایسی خبریں ہم تقریباً روزانہ ہی اخبارات میں پڑھتے اور نظر انداز کرتے رہتے ہیں، مگر کہانی کو خود چل کر ادیب کے پاس آنا تھا، سو ان دو ماسیوں کے درمیان ہونے والی باتوں نے مجھے اس بدنصیب نوجوان کا ذہنی پس منظر پوری طرح سمجھا دیا کہ ملک کے سیکڑوں غریب بچوں کی طرح اسے بھی پڑھنے کا شوق ہوگا۔ باپ نے اپنے سارے خواب اس کے ذہن میں بساد یے تھے، وہ ذہین تھا، بڑاافسر بننے کی دھن میں پڑھائی میں گم ہوگیا ہوگا، مگر مالی مجبوریوں نے اس سے یہ شوق اور اس کے خواب چھین لیے اور اسے ڈیلی ویج مزدور بنادیا۔ ماں نے اسے سدھارنے کی کوشش میں شادی کی ذمے داریوں میں جکڑدیا، وہ اپنے خواب آنکھوں سے نہیں نوچ پایا اور اسی لیے کسی صورت سمجھوتا نہیں کرسکا، جب حالات کا جبر آخری حدوں کو چھونے لگا، تو اس نے اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کرلیا۔ کہ ہم نہیںکھیلتے زندگی زندگی۔ میں اس واقعے کو کیسے اپنے ذہن سے اتارسکتی ہوں، فی الحال تو نہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں