آج کے دور میں خاندانی نظام بہت تیزی سے بکھر رہا ہے۔ لیکن یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ عموماً ہم مغربی معاشرے کا تذکرہ ضرورکرتے ہیں اور اپنی ان نا انصافیوں اور مسائل سے روگردانی کرتے ہیں جو ہماری ناک کے نیچے ہو رہے ہیں۔ مسائل سے اعراض کے اس طریقے نے ہمیں ایک ایسے مقام پر لاکر کھڑا کردیا ہے جہاں ہمارے لیے انھیں حل کرنے کے امکانات بھی معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ ہم نے ابھی تک یہی فیصلہ نہیں کیا کہ اس بدحالی کی ذمہ دار، جہالت ہے یا معاشی حالات، سیاسی بصیرت کی کمی ہے یا دین سے دوری۔ عائلی مسائل ہمیشہ عورت کے لیے سخت ہوتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں شریعت کے حکم کے خلاف کام کرنے والے مرد کو سزا نہیں دی جاسکتی لیکن اسی مرد نے ایک غیر شرعی کام کرکے عورت کو اس میں مبتلا کیا ہے، اس کا اثر عورت پر ضرور پڑتا ہے جس کے لیے ابھی تک ہمارے پاس کوئی نظام نہیں کہ ہم خاطی کو سزا دے سکیں یا عورت کو انصاف دلاسکیں۔ جبکہ اسلامی قانون کی نظر میں دونوں برابر ہیں۔ پھر مسئلہ صرف جسمانی اذیت کا ہی نہیں بلکہ معاشی پریشانیوں کا بھی ہے، جس کے لیے ہمارے پاس نہ تو اجتماعی نظامِ زکوٰۃ ہے اور نہ ہی بیت المال۔ جبکہ اگر اس ملک کے مسلمانوں کی زکوٰۃ کا ایک محتاط اندازہ لگایا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ زکوٰۃ صحیح تقسیم ہوجائے تو لینے والے خود اگلے سال صاحب نصاب بن جائیں۔ بے شمار فرضی مدارس ہیں جن میں لوگ یہ رقم ادا کرکے ضائع کردیتے ہیں۔ ہم ساٹھ سالوں میں اپنے مدارس کا بھی ایک ایسا وفاق نہیں بناسکے جس کے ذریعے اس خطیر رقم کو خردبرد ہونے سے بچایا جاسکے۔
میں گزشتہ بیس سالوں سے خواتین کے سماجی، معاشی، تعلیمی اور اخلاقی مسائل پر کام کررہی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک عام مسلمان ان کے مسائل کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں لگاسکتا۔ عموماً عورت کی زندگی کے تمام تر فیصلے دوسرے افراد کرتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق جب خواتین سے ان کی زندگی کا مقصد پوچھا گیا تو انھوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری اکثر خواتین بے مقصد زندگی گزارتی ہیں۔ بمبئی کے ایک ادارے Women’s Research & Action Group نے ایک سروے کے بعد اعداد و شمار پیش کیے، جن کے مطابق وہ عورتیں جو مسائل لے کر تنظیموں کے پاس جاتی ہیں ان میں پچاس فیصد مسلمان عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر مسلمانوں کا ملک کی آبادی میں تناسب دیکھا جائے تو یہ اعداد مسئلے کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے غیر مسلم تنظیمیں اس کا پورا الزام طلاق کی آزادی پر رکھ دیتی ہیں۔ ہمارے لیے انھیں یہ بتانا مشکل ہوتا ہے کہ اسلام نے مرد کو آزادی ضرور دی ہے۔ لیکن اس کے استعمال کاطریقہ بھی بتایا ہے اور حالات بھی،نیز اس کے خلاف کرنے والے کے لیے سزا بھی ہے۔عموماً جو طلاقیں ہوتی ہیں اس میں مرد ظلم کرتے ہیں، نان و نفقہ تو دور رہا چھوٹے بچوں کو پالنے کی معاشی ذمہ داری بھی عورت پر ہی ڈال دیتے ہیں اور خود دوسری شادی کرکے الگ رہنے لگتے ہیں۔ اگر ہم اپنی بات وضاحت کے ساتھ ان تنظیموں کو سمجھا بھی دیں تو پھر ایک سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ آخر ہم خاطی مرد کو وہ سزا دلوانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جو خیرالقرون میں ایسے مردوں کو دی گئیں۔ سروے میں یہ بھی پتہ چلا کہ ایسی عورتیں جنھیں ان کے شوہروں نے چھوڑ دیا اور وہ تنہا اپنے بچوں کو پالنے پر مجبور ہیں، ان میں سے ۲۰؍فیصدی اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس کوئی متبادل انتظام نہیں ہے۔ عموماً والدین کے انتقال کے بعد ایسی عورتوں کو پھر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔کیونکہ موروثی گھر اور جائدادوں پر نرینہ اولاد قابض ہوجاتی ہے، عورتوں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا اور نہ بھائی ایسی بہنوں کو اپنے ساتھ رکھنے پر رضا مند ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان میںاکثر عورتیں جو شہروں میں رہتی ہیں وہ علیحدہ رہنا چاہتی ہیں، لیکن ان کے مالی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ سروے سے اس بات کا بھی انکشاف ہواہے کہ بیشتر مسلمان بچیوں نے گھریلوں تشدد، طلاق اور جائداد کے تنازعات سے بچنے کے لیے شادی کرنے ہی سے انکار کردیا۔
اس میں ایک صورتحال بہت زیادہ اذیت ناک ہے۔ بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کے شوہروں نے دوسری شادی کرلی ہے یا کسی دوسری عورت سے ناجائز تعلقات ہیں یا اس نے طلاق دے دی ہے لیکن کوئی اور ٹھکانہ نہ ہونے کے سبب وہ سابقہ شوہر ہی کے گھر میں رہ رہی ہے۔ ایسے میں وہ مرد کے ظلم و ستم، جس میں مار پیٹ بھی شامل ہے، برداشت کررہی ہے۔ لیکن ایسی عورت اگر خلع لینا چاہے یا علیحدگی اختیار کرنا چاہے تو خود اس کے والدین اور بھائی اجازت نہیں دیتے کیونکہ ایسی صورت میں اس عورت کی ذمہ داری خود ان پر آجائے گی۔ بعض معاملات ایسے بھی علم میں آئے کے مطلقہ یا بیوہ کی دوبارہ شادی کردی گئی لیکن عموماً اس میں مقصد صرف سرکا بوجھ اتارنا ہوتا ہے اور کسی بھی شخص سے نکاح کردیا جاتا ہے جو یا تو عمر میں بہت بڑا ہوتا ہے یا ایسا ہوتا ہے جس سے کوئی اپنی بیٹی نہیں بیاہنا چاہتا۔ کچھ بیوائیں ایسی بھی ہیں جن کے شوہر ان کا اور بچوں کا خاطر خواہ انتظام کرکے گئے لیکن ایسی جائداد یا رقم پر سسرال والے قبضہ کرلیتے ہیں یا وہ سسر کی تحویل میں رہتی ہے۔ یہی نہیں اگر وہ عورت ملازمت کرکے بچوں کی پرورش کر رہی ہے تو اس کی پوری تنخواہ ساس سسر لے لیتے ہیں اور کل اختیار انہی کو حاصل ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ ملازمت سے واپس آنے کے بعد پورے گھر کے لیے کھانا بنانے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہے اور اسے اس کام کے لیے اپنی تنخواہ سے بھی ملازمہ رکھنے کی اجازت نہیں۔ ایسی عورتیں خود اپنے گھر میں بھی ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرتی ہیں۔ ہمارے سامنے بہت سے کیس ایسے بھی آتے ہیں جہاں نباہ نہ ہونے کی صورت میں اگر لڑکی طلاق لینا چاہے تو اسے دھمکیاں دی جاتی ہیں اور پولیس کیس بھی بنادیا جاتا ہے جس میں ہزاروں روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ لیکن مرد یا اس کے گھر والے نہ تو عدت میں نان ونفقہ ادا کرتے ہیں نہ بچوں کی نگہداشت کا کوئی بندوبست کرتے ہیں اور نہ ہی مہر ادا کیا جاتا ہے۔
۱۹۹۴ء میں جب مجھے یہ اطلاع ملی کہ بمبئی کے شراب خانوں میں ساقی کا کام کرنے والی اکثر لڑکیاں مسلمان ہیں جو مجبوراً یہ کام کررہی ہیں تو میرے اپنے ادارے الصلاح انٹرنیشنل نے بھی ایک سروے کیا۔ ایسی مسلم خواتین جو ممبرا، تھانہ مالونی، ملاڈ، جوگیشوری، گووونڈی، انٹاپ ہل سیوڑی وغیرہ میں رہتی ہیں۔ اس سروے سے یہ تکلیف دہ صورتحال سامنے آئی کہ طلاق ثلاثہ کے غلط استعمال کے بعد شوہروں نے جب ایسی عورتوں کو بچوں سمیت چھوڑ دیا تو پورے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اس عورت کے سر آگئی۔ پھر یہی نہیں، نرینہ اولاد عام طور پر ماں باپ کی ذمہ داری بھی بیٹیوں پر ڈال دیتی ہے اور ایسے بے شمار خاندان ہم نے دیکھے جہاں ایک تنہا لڑکی اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے بھائی بہن اور بوڑھے اور بیمار ماں باپ کی دمہ داری اٹھانے پر مجبور ہے۔ چونکہ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتی اس لیے ملازمت ملنے کا امکان نہیں ہوتا لیکن وہ شراب خانوں میں روزانہ ایک ہزار روپیہ کمالیتی ہے۔ میں نے خود ان میں سے کئی عورتوں سے گفتگو کی اور پوچھا کہ وہ یہ برا کام کیوں کررہی ہیں۔ اکثر نے یہی جواب دیا کہ ہم اپنی مرضی سے نہیں بلکہ مجبوری کے تحت یہ کام کررہے ہیں۔ آپ اس کی آدھی رقم کا انتظام کردیجیے ہم یہ کام چھوڑ دیں گے۔ اسی بمبئی شہر میں ہم نے ایسی مسلمان گھرانوں کی شادیاں بھی دیکھیں جن میں بیس پچیس لاکھ صرف ڈیکوریشن پر خرچ ہوتا ہے اور کھانے کی سو سے ز ائد اقسام ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہم نے ہزاروں لوگوں کو لاکھوں روپے خرچ کرکے نفلی حج اور عمرے میں اللہ کی خوشنودی تلاش کرتے بھی دیکھا ہے۔ یقینا وہ اللہ کے حضور اس اسراف کی جواب دہی کی ہمت رکھتے ہوں گے ورنہ کوئی باشعور شخص ان حالات میں ایسا نہیں کرسکتا۔ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے علماء کرام بھی ایسے مواقع پر ان منکرات کے خلاف آواز نہیں بلند فرماتے۔
شریعت اسلامی نے مطلقہ اور بیوہ عورتوں کی ذمہ داری باپ اور بھائیوں پر ڈالی ہے، لیکن عام طور پر یہ حضرات اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے جس سے سنگین صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر ایسے بھی بہت سے کیس ہمارے پاس آتے ہیں جن میں شوہر نہ تو طلاق ہی دیتا ہے اور نہ بیوی بچوں کی کفالت کرتا ہے۔ ان میں اکثر ایسے ہیں جنھوں نے اپنی بیوی کو الگ بھی کردیا ہے لیکن طلاق نہیں دیتے کہ وہ دوسرا نکاح کرسکے۔ یہ عورتیں ان پڑھ ہوتی ہیں اس لیے انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ شریعت میں ان کے لیے کیا گنجائشیں ہیں۔ اسلام نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کے غم گسار اور مددگار ہوں۔ جبکہ سماجی طور پر ہم نے اسے بالکل مخالف مفہوم دے رکھا ہے، جہاں عورت صرف مرد کی آسودگی کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔ جب معاشرے میں بگاڑ اس درجہ تک پہنچ جائے تو صرف مذہب ہی وہ طاقت ہے جو انسان کو راہِ راست پر لاسکتی ہے۔ میرے نزدیک اصلاح معاشرہ کسی پروگرام کے تحت ایک مہم کے طور پر نہیں کیا جاتا، یہی سبب ہے کہ اس کے بڑے بڑے پلان بنتے ہیں لیکن نتیجہ صرف رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو مسلمان علم اور شعور رکھتے ہیں یہ ان کی روز مرہ کی زندگی کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس کام کے لیے باقاعدہ جلسوں کی ضرورت نہیں بلکہ جمعہ کے خطبے اس چیز کے لیے بہترین مواقع ہیں، جب عموماً سارے ہی مسلمان مسجد میں جمع ہوجاتے ہیں۔ علماء جب تک اس سلسلے میں اسلامی قوانین کو پامال کرنے کے گناہ کی سنگینی کا احساس نہیں دلائیں گے اس وقت تک حالات بدلنے ممکن نہیں۔
ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عائلی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو ملکی قوانین کے تحت بھی مجرم گردانا جائے۔ اس کے لیے قانون میں ترمیم کروائی جاسکتی ہے۔ اس میں یہ اشکال کہ حکومت کے لیے پرسنل لا میں تبدیلی کا دروازہ کھل جائے گا غلط ہے۔ کیونکہ یہ دروازہ بعد میں آپ بند بھی کرسکتے ہیں۔ البتہ پرسنل لا سے چھیڑ چھاڑ کرنے میں حکومت کو جو خوف آج دامن گیر رہتا ہے وہ کل بھی رہے گا۔
افسوس اس پر ہوتا ہے کہ جو اصلاحات حکومت تمام قوموں کے لیے نافذ کرنا چاہتی ہے ہم اسے بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مثلاً حکومت نے تمام ہندوستانیوں کے لیے شادی کے رجسٹریشن کو ضروری قرار دیا او راس کے لیے ایک قانون بھی پاس کردیا۔ اس سے مسلمان عورتوں کو بھی فائدہ ہوگا کہ عورت اپنے حقوق ،جن میں مہر، نان و نفقہ اور بچوں کا خرچ وغیرہ شامل ہیں، قانونی طورپر لے سکتی ہے اگر اس کا شوہر اسے ادا نہیں کررہا ہے۔ رجسٹرڈ شادی عورت کے لیے ایک ایسی دستاویز ہوگا جسے وہ اپنی حفاظت کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اصولی طور پر شادیوں کے رجسٹریشن کا مخالف نہیں ہے۔ مگر ملک کی ساری آبادی ممبئی یا اس جیسے بڑے شہروں میں نہیں رہتی۔ رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کے نتیجے میں دور دراز کی آبادی اور دیہاتوں اور قریوں میں رہنے والی کم معاش آبادی بڑی مشکلات کا شکار ہوگی کہ شادی کرنے کے بعد بیوی، گواہوں اور شادی کرنے والوں کو وہ بلاک اور تعلقہ لے جائے، تین چار دن ٹھہرے اور رجسٹریشن کروائے۔ اس نقطۂ نظر سے اس قانون کا نفاذ مشکل ہے، اس کے لیے ایسی صورتیں اختیار کی جائیں جو پیدائش اور موت کے رجسٹریشن کے لیے ہیں۔ بورڈ اس مسئلے میں کوشاں ہے۔ مسلمان ایک میت کو اس وقت تک دفن نہیں کرسکتے جب تک کہ ڈاکٹر سے موت کا سرٹی فیکٹ نہ لے لیں کیونکہ یہ ایک قانونی ضرورت ہے۔ (یہ صرف ممبئی اور دو تین بڑے شہروں میں ہے) تواسی طرح اگر ایک قانونی ضرورت کے تحت شادی کا رجسٹریشن بھی ضروری ہو تو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے کہ غیر رجسٹرڈ شدہ شادی کو قانون غیر قانونی سمجھ رہا ہو۔ یہ ایک قانونی ضرورت ہے جس سے مسائل حل کرنے میں آسانی ہوگی۔
یہ تمام صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ لیکن اسی بیچ دارالعلوم دیوبند سے ایک فتویٰ بھی جاری ہوا ہے جس کے مطابق لڑکیوں کی اعلیٰ (کالج کی) تعلیم کی مخالفت کی گئی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم عورتوں کی اعلیٰ تعلیم کی مخالفت کے بجائے تعلیم کے فقدان کے سبب جو مسلمان عورتیں ایک حرام کام کرنے پر مجبور ہورہی ہیں اس کی مخالفت کے ساتھ اس کا مداوا ڈھونڈتے۔
تجاویز
۱- حکومتِ ہند نے اقلیتوں کی اقتصادی مدد کے لیے مولانا آزاد کارپوریشن بنایا ہے جس میں کروڑوں روپیہ اس مقصد کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ لیکن عموماً یہ روپیہ استعمال نہ ہونے کے سبب حکومت کے پاس واپس چلا جاتا ہے۔ اس میں مسلمانوں خصوصاً عورتوں کو بہت ہی آسان شرطوں پر اور صرف تین فیصد سالانہ شرح سود پر جو آج کے دور میں نہ ہونے کے برابر ہے، تجارت یا کام کرنے کے لیے قرضے فراہم کرتی ہے۔ مسلمان عورتیں دو وجوہات سے اس سے فائدہ نہیں اٹھاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے ذہنوں میں یہ خیال بیٹھ گیا ہے کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں اس لیے تعصب کے سبب ہمیں قرض نہیں ملے گا اور دوسرے یہ کہ سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ پہلی بات پر تو میں یہ کہوں گی کہ حالات بدل رہے ہیں اور میں نے خود بہت سی عورتوں کو کارپوریشن بھیج کر قرضے دلوائے اور اب وہ اپنے گھر سے تجارت کرکے باعزت زندگی گزار رہی ہیں۔ کیونکہ ۲۵۰۰۰ روپئے تک کے قرض کے لیے کسی کاغذ یا سند تک کی شرط نہیں ہے۔ البتہ دوسری وجہ یعنی سود کے متعلق پرسنل لاء بورڈ کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ اوپر جو حالات لکھے ہیں جن سے مجبور ہوکر عورتیں حرام کام تک کرنے پر مجبور ہوگئیں کیا ان کے لیے اس حالت اضطرار میں بھی کوئی گنجائش نہیں کہ وہ حکومت سے آسان شرائط پر سودی قرض لے کر باعزت زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔
۲- سچر کمیٹی پر مسلمان بحث ومباحثہ تو بہت کرتے ہیں لیکن حکومت مسلمانوں کے لیے جو فلاحی اسکیمیں بناتی ہے ، اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ بجائے اس کے کہ ہم حکومت کی مخالفت میں بیان بازی کریں کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم حکومت سے یہ بات کریں کہ مسلمانوں کے قرضوں پر بجائے سود کے حکومت منافع لے لے یا پھر کچھ بھی نہ لے۔ اگرصحیح طریقے سے حکومت تک بات پہنچے گی تو یقین ہے کہ حکومت اس پر بھی تیار ہوسکتی ہے کیونکہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد وہ مسلمانوں کی حالت سدھارنے کے بارے میں سنجیدہ ہے۔
——