بدعنوانی دورِ حاضر کی سماجی برائیوں میں سے ایک بہت بڑی برائی اور لعنت ہے۔ یہ بیماری دنیا کے ہر سماج میں بہت تیزی اور خطرناک رفتار سے پھیل رہی ہے۔ آج کا کوئی بھی طبقہ اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔ شہر،گاؤں، سرکاری غیر سرکاری ادارے، تعلیم، مذہب، سیاست ہر جگہ یہ لعنت فروغ پا رہی ہے۔ آج زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں بدعنوانی نہ ہوتی ہو۔ سرکاری دفاتر میں تو یہ پیدائشی حق کے طور پر جاری ہے۔ بدعنوانی میں سب سے بدنام محکمہ پولیس ہے۔ بھارت کے دستور کے مطابق مقننہ (پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیاں) عاملہ (وزیرِ اعظم، وزراء اور سرکاری افسران) عدلیہ (ہائی کورٹ اور ملک کی تمام عدالتیں) وہ ستون ہیں، جن پر ہمارے ملک کی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بدعنوانی کی دیمک نے ان ستونوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک کی پوری عمارت کمزور ہورہی ہے اور ملک ترقی کی دوڑ میں پچھڑتا ہی چلا جارہا ہے۔
حال ہی میں لندن میں واقع ادارے ٹرانپیرینسی انٹرنیشنل کے ذریعے کیے گئے سروے کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق عوامی زندگی میں بدعنوانی کے معاملے میں دنیا کے بدعنوان ۹۱ ملکوں کی فہرست میں بھارت کا ۷۲واں نمبر ہے۔ آج بدعنوانی بھارت میں اپنے شباب پر ہے۔ یہاں سرکاری وغیر سرکاری اداروں کے افسران سے لے کر امراء، وزراء، آئی اے ایس افسران، آئی پی ایس اور دیگر اعلیٰ ترین عہدے داران بھی رشوت لیتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔ اور افسوس کا ’’صدرمقام‘‘ تو یہ ہے کہ ملک کے کئی وزرائِ اعظم بھی اس قسم کے الزامات کی زد میں آئے ہیں۔ آزادی سے لے کر آج تک درجنوں ایسے بڑے بڑے اسکینڈل اور گھوٹالے ہوئے ہیں جن میں کئی ہزار کروڑ کی رشوتیں اور کمیشن خوری کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ کئی وزرائے اعلیٰ تو اس معاملے میں جیل بھی گئے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کی افسوسناک صورتحال ہے، جس نے سماج میں عجیب قسم کی بے چینی پیدا کردی ہے۔ اور ہر شخص اس بیماری کو جھیل رہا ہے۔
آج کے انسان کے دل سے خداکا خوف اور یومِ آخرت میں جواب دہی کا ڈر نکل چکا ہے۔ انسان، مذہبی و اخلاقی تعلیمات سے کوسوں دور ہوگیا ہے۔ مذہب و اخلاق کی چند اقدار کو طوطے کی طرح رٹ لیتا ہے۔ مگر اس پر عمل بالکل نہیں کرتا۔ اس میں سچائی، ایمانداری، حق پرستی، محنت، فرائض کی ادائیگی جیسی اخلاقی قدروں کی زبردست کمی پائی جاتی ہے۔ اس نے اپنے نفس کو ہی اپنا خدا بنالیا ہے۔ اور اپنی نفسیاتی خواہشات کی تکمیل کو اپنا فرض سمجھنے لگا ہے۔ ان نفسیاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے وہ ہر قسم کی بدعنوانی کرنے پر کمربستہ نظر آتا ہے۔ اسے اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں رہ گئی ہے کہ کل قیامت میں اسے اپنے ایک ایک عمل کا جواب دینا ہے۔ اپنے اعمال کے متعلق جواب دہی کا یقین نہ ہونے اور بے فکری نے آج کے انسان کوبدعنوان اور بے رحم بنادیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا کرے ورنہ کوئی چیز اس کو اس لعنت سے باز رکھنے والی نہیں ہوسکتی۔ آنجہانی راجیو گاندھی نے تو ایک مرتبہ علی الاعلان اس صورتحال کا اعتراف کرتے ہوئے تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ ہم جو فنڈ مرکز سے بھیجتے ہیں تو ایک روپئے میں سے مشکل سے دس پانچ پیسے حق داروں تک پہنچ پاتے ہیں۔ اسی طرح ملک کے ایک اور وزیر اعظم اندر کمار گجرال نے بھی اس کیفیت سے دل برداشتہ ہوکر ایک مرتبہ کہا تھا کہ میرے دائیں، بائیں آگے پیچھے ہر طرف کرپٹ اور بدعنوان لوگ ہیں۔
اندازہ کیجیے کہ ملک کا وزیر اعظم جو سب سے زیادہ خود مختار اور اعلیٰ ترین عہدے دار ہے، وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے، تو عام آدمی کی زندگی کا کیا عالم ہوگا۔ اور جب اس اونچی سطح کے افراد بدعنوانی کی جنگ میں اس قدر شکست خوردہ نظر آئیں تو پھر اصلاح اور سدھار کون کرسکے گا؟