آزاد ہندوستان میں ابھرنے والی مسلم نسل کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ان میں خصوصیت کے ساتھ مسلم خواتین اور لڑکیاں زیادہ متاثر ہوئیں۔ ایک بات میں بحث کے شروع میں ہی واضح کرنا مناسب خیال کرتی ہوں کہ مسائل کے سلسلے میں کس ملک یا حالات کے پس منظر میں قطعی میں موازنہ نہیں کروں گی۔ میرے پیش نظر قرآن و سنت ہی پیمانہ ہے اور میری گفتگو کو اس پیمانے کو سامنے رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
نام نہاد سیکولر ہندوستان میں مسلمان عورت گوناگوں مسائل کا شکار ہے، جن میں معاشرتی، تعلیمی، سیاسی اور معاشی مسائل شامل ہیں۔ دیکھا جائے تو ان پڑھ دیہاتی عورتوں کے مسائل پڑھی لکھی شہری عورت سے مختلف ہیں گو کہ دونوں کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔
ہندوستانی کلچر کے اثرات
معاشرتی سطح پر عورت کی عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔ اس میں مذہب و ملت کا امتیاز کرنا مشکل ہے۔ مگر مسلم ہونے کی حیثیت سے مسلمان عورت زیادہ تکلیف دہ صورتحال کا شکار ہوتی ہے۔ سماج میں ہر سطح پر اس کو ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ ذہنی طور پر Stress کا شکار ہوتی ہے۔ گھر کے اندر بھی اس کو گھر کے مردوں سے وہ عزت نہیں ملتی جس کی وہ گھر کا خود اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے حق دار ہے کیوں کہ ہندوستانی تہذیب میں عورت کو شوہر کی داسی سمجھا جاتا ہے اور مسلم مرد بھی ایک خاص طرح کے کلچر اور ہندوستانی فلموں اور ثقافت سے متاثر ہوکر اپنی خواتین کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کے زوال کے بعد یہاں کی مسلم ذہنیت جس شکست و ریخت اور احتیاط کا شکار ہوئی اس نے مسلمان مردوں کو انتہائی سخت رویہ اپنانے پر مجبور کیا اور اس میں فیصلہ کن دینی رہ نماؤں کا اجتہاد بھی شامل تھا۔ بہرحال اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس مذہب نے عورت کو مسجد جانے اور علم حاصل کرنے کی نہ صرف آزاد دی بلکہ ترغیب دی اور معاشی سرگرمیوں سے نہیں روکا اسے تمام سرگرمیوں سے احتیاط کے نام پر روک دیا گیا اور حالات کی تبدیلی کے بعد بھی یہ قدغن ذہنوں میں باقی رہی اور اس کو دین کے تقاضے سمجھا گیا۔ دوسری طرف جب مسلمان عورت حالات یا دینی شعور کے تحت اپنے حقوق حاصل کرنے آگے بڑھی تو ہندوستانی ذہنیت کے اثرات سے بچ نہ سکی۔
تعلیم کے میدان میں اسے جن مسائل کا شکار ہونا پڑتا ہے اس میں غیروں کی ستم رسانیاں اپنی جگہ، خود مسلمانوں کی غیر ذمہ داری اور غفلت کا عام دخل قابل غور مخلوط تعلیمی اداروں اور مخلوط دفاتر میں مسلم عورتوں کو گوناگوں مسائل سے جھوجھنا پڑتا ہے مگر مسلمانوں کے پاس ان کا اپنا ایسا ادارہ نہیں جہاں اپنے دین اور تہذیب و ثقافت پر باقی رہتے ہوئے وہ عصری تعلیم حاصل کرسکیں۔ اسی طرح کوئی ایسا تعلیمی ادارہ نہیں ہے جو تعلیم نسواں کی ضرورت کو پورا کرسکے۔ اسی طرح اسپتال دفاتر اور ادارے قائم کرنے میں مسلمانوں نے کوتاہی کی اور کر رہے ہیں۔
ہندوستانی تہذیب میں بیوہ کی شادی جرم ہے اور مسلمانوں نے بھی ان اثرات کو قبول کیا۔ بے چاری مسلم عورت بیوہ ہو یا مطلقہ سماج میں اس المیہ کا شکار ہوتی ہے۔ بیت المال اور زکوٰۃ کا اجتماعی نظم نہیں ہے چناں چہ مسلمان عورت بے سہارا ہو تو اس کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ شادی، بیاہ، گھوڑے جوڑے جہیز کی مستعار لی گئی رسمیں بچوں کی پیدائش میں فیملی پلانگ۔ مسلمان نہ چاہتے ہوئے بھی ملک میں رائج تہذیب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مسلمان عورت صرف بیٹیوں کی ماں بنتی ہے تو اسلام کی نظر میں باعث رحمت مگر ہندو کلچر کے زیر اثر بیٹا نہ ہونے کی بنا پر سسرال اور سماج دونوں کے تلخ رویوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
اسلام کی آزاد کردہ مسلم عورت ہندوستان میں جن مسائل کا شکار ہے ان سے آزادی حاصل کرنے کے لیے سے ہمہ جہت تحریک چلانے کی ضرورت ہے جو اسے تمام تر غلامیوں سے آزاد کر کے ایک خدا کی بندی بنا سکے…!lll