ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ کی تیاری

شمشاد حسین فلاحی

اب سے پہلے تک یونیفارم سول کوڈ کو ایک سیاسی شوشہ قرار دیا جاتا رہا ہے مگر اب مرکزی حکومت نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ یونیفارم سول کوڈ لے کر آئے گی ، یہ اس کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہےاور یہ کہ مرکزی حکومت کسی بھی وقت یہ بل پارلیامنٹ میں پیش کر سکتی ہے۔اس درمیان بی جے پی حکومت والی ریاستوں نے ریاستی سطح پر تمام شہریوں کے لئے یکساں قانون لانے کی ابتدائی کوششیں شروع کردی ہیں جن میں شمالی ہند کی ریاست اتراکھنڈ کی کوششوں کو بنیادی مانا جا رہا ہے۔ وہاں پر اس کام کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور اس کے لئے ضروری رہنمائی مرکزی وزارت قانون نے فراہم کی ہے، جس کا مطلب صاف ہے کہ مرکز کے پاس اس سے متعلق ضروری مسودہ تیار ہے۔اترا کھنڈ کے بعد اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے علاوہ بی جے پی حکومت والی دیگر ریاستیں اس کام میں آگے بڑھنے والی ہیں۔
مرکزی وزیر قانون کرن ریجیجو نے کچھ روز پہلے بلا کسی لاگ لپیٹ واضح کر دیا ہے کہ “یونیفارم سول کوڈ لانابھارتیہ جنتا پارٹی کے ایجنڈے کا اہم حصہ رہا ہے اور اسے ہر حال میں پورا کیا کائے گا۔اس سلسلے میں تیاری چل رہی ہے۔ یہ قانون ضرور لایا جائے گا۔”
اس کے لئے کیا طریق کار اپنایا جائے گا، وہ بھی اب واضح ہوگیا ہے۔پہلے ریاستی سطح پر قانون سازی ہوگی۔اس قانون سازی کے لئے ریاستی سطح پر کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں اور آگے کام کرنے کے لئےخطوط کار بھی مرکز کی جانب سے فراہم کئے جا رہے ہیں۔پہلے یہ بات سامنے آئی تھی کہ قومی سطح پر بنائے گئے لا کمیشن سے رائے لی جائے،اس کے لئے 2020 میں لا کمیشن کی تشکیل جدید کی گئی تھی مگر اس کے فعال نہ ہو پانے کے سبب اب ریاستی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جا رہی ہیں جو لا کمیشن ہی کے فارمیٹ میں کام کر رہی ہیں۔ ایک بار جب ریاستیں اس سلسلے میں قانون سازی کر لیں گی تو انہیں مرکزی قانون میں شامل کر لیا جائے گا کیونکہ یکسانیت لانے کے لئے مرکزیت ضروری ہے۔ ریاستوں میں اس سلسلے کی قانون سازی کو ایک ٹرائل کے طور پر دیکھاجا رہا ہے۔
اس قانون کے جاری ہو نے کے ساتھ ہی مختلف مذہبی اور تہذیبی گروپس کے پرسنل لا ختم ہو جائیں گے اور ان کی اپنی شناخت ختم ہوکر “کثرت میں وحدت” کا تصور سیکیولر ہندوستان کی تاریخ کا محض ایک حصہ بن کر رہ جائے گا،جہاں اب تک مختلف مذہبی اور تہذیبی اکائیوں کے اپنے خاص مذہب ، تہذیب اور عقائد پر مبنی معاملات دستور میں دئے گئے “پرسنل لا” کے مطابق ملکی عدالتوں سے طے کئے جاتے تھے۔ اس کی زد میں ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتیں ،مسلم ، عیسائی، پارسی کے علاوہ بہت سے آدی باسی اور تہذیبی قبائل بھی آتے ہیں جن کی تعداد ملک میں ۱۲ کروڑ کے قریب سمجھی جاتی ہے اور اس تعداد کا۱۲ فیصد صرف ملک کی شمال مشرقی ریاستوں میں مقیم بتایا جاتا ہے۔
دعوی کیا جاتا ہے کہ اس قانون کے ذریعہ ملک کی عدالتوں میں چل رہے ۲۰ فیصد مقدمات ختم ہو جائیں گے ملک میں بسنے والی مختلف مذہبی، لسانی اور تہذیبی اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی اور قربت بڑھے گی ،مختلف قبائل اور آدی باسی گروپس کو قومی دھارے میں آنے میں مدد ملے گی اور “ہندوستانیت” کو فروغ ملے گا۔ اس طرح کا دعوی کرنے والے یہ دلیل بھی پیش کرتے رہے ہیں کہ سیکیولر ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر الگ الگ قوانین کا وجود ملک کے سیکیولر تانے بانے سے میل نہیں کھاتا اور اسی وجہ سے ملک کے دستور سازوں نے دستور میں دفعہ 44 کا بھی اہتمام کیا تھا جو یہ کہتی ہے کہ “ملک کے تمام شہریوں کے لئے ایک کامن سول کوڈ بنایا جائےگا” چنانچہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ کامن سول کوڈ لایا جائے۔
اس قانون کے سلسلے میں اب تک سب سے زیادہ حساسیت مسلمانوں میں پائی جاتی رہی ہے اور اس اشو کو لے کر وہ آزادی سے لے کر اب تک مختلف معاملات و واقعات پر تحریک چلاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی تحریک ۱۹۸۶ میں شاہ بانو کیس کے فیصلے کے وقت چلی تھی جب عدالت عالیہ نے طلاق کے اس کیس میں شوہر کو تا حیات یا جب تک وہ دوسری شادی نہ کر لے، نان نفقہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ “مسلم پرسنل لا “کے تحفظ کے لئے ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک متحدہ پلیٹ فارم کوئی نصف صدی قبل “مسلم پرسنل لا بورڈ” کے نام سے معرض وجود میں آیا تھا جو اب تک فعال ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کا خیال ہے کہ بنیادی طور پر اس قانون کا ہدف ہندوستان میں بسنے والی سب سے بڑی اقلیت “مسلمان” ہی ہیں۔ان کا یہ خیال اس لئے بھی ہے کہ ہندوستان میں مسلم مخالف سیاسی گروہ اس معاملے کو فرقہ وارانہ انداز میں پیش کرتے رہے ہیں اور اسے عوامی سیاست میں اپنی گرفت کو مضبوط بنانے اور اقتدار تک پہنچنے کے لئے ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے رہنے کے سبب اسے اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنایا۔
ملک کی دیگر اقلیتیں ، تہذیبی و ثقافتی اکائیاں اور آدی باسی قبائل جو پرسنل لا کے تحت آتے ہیں، اس پر کیا اور کیسا رد عمل ظاہر کرتے ہیں، یہ کہنا تو ابھی مشکل ہے کیونکہ ان میں سے کئی گروہوں کے لئے یہ محض تہذیبی روایات اور کلچر تک کا ہی معاملہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کامن سول کوڈ کے متوالے انہیں یہ بتا کر سادھ لیں اور اس کے لئے آمادہ کر لیں کہ وہ اصلا ہیں تو ہندو ہی،اسی طرح ممکن ہے کہ ملک کی دوسری مذہبی اقلیتیں اپنے اپنے خیالات اور کچھ “جدت پسندی” کے سبب اس پر بہ آسانی یا بہ مشکل راضی ہو جائیں مگر مسلمانوں کے لئے یہ ایک بڑی آزمائش ہوگی کیونکہ پرسنل لا میں شامل باتوں کو وہ اپنے دین کا حصہ اور اپنے رب کا حکم مان کر پورے شعور اور عقیدہ توحید کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں اور اس پر کاربند رہنے کے خواہشمند بھی ہیں کیونکہ ان کے پرسنل لا کی بنیاد ایسی تہذیبی یا سماجی روایات نہیں جنہوں نے وقت کے ساتھ عقیدے کی شکل اختیار کر لی ہو بلکہ وہ ان کے اس دین کا حصہ ہیں جو اللہ تعالی نے ان کےلئے اور تمام انسانوں کے لئے نازل کیا ہے۔
یونیفارم سول کوڈ کو لے کر مسلمانوں کی حساسیت اور ان کے اس احساس کے سبب کہ اس کا ’’اصل ہدف مسلمان ہی ہیں‘‘ ان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کیا کریں۔ مگر اس سے بڑا سوال ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ملک کے عوام کیا کریں؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہندوستان مختلف ومتنوع مذاہب و ثقافت اور تہذیبی روایات رکھنے والا ملک ہے۔ اسی کے سبب اس کی شناخت اور خوبی ’کثرت میں وحدت‘ رہی ہے۔ حقیقت میں یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ ملک میں بسنے والی ان تمام مذہبی، تہذیبی اور روایات کو برتنے والی اکائیوں کا ہے جن کا مضمون میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس حیثیت سے یہ مسئلہ پورے ملک اور اس وفاق کی تمام اکائیوں کا ہے اس لیے اس سلسلے میں سب کو بیدار ہونے اور بیدار کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح یہ معاملہ ہندوستان میں سیکولرزم کی بنیادوں کو مضبوط کرنے سے زیادہ ایک خاص مذہب کی تہذیب و ثقافت کو ملک کے تمام باشندوں پر ازراہِ قانون تھوپنے کی کوشش کے تناظر میں زیادہ دیکھا جائے گا اور دیکھا جانا چاہیے۔ ایسے میں ملک کے اس بڑے طبقے کو بھی بیدار ہونا چاہیے جو شدت پسند ہندو مذہبی نظریات کی تائید نہیں کرتا اور ملک کو ایک سیکولر روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔
چپکے چپکے قانون سازی اور پارلیامنٹ میں اکثریت کے بل پر بل پاس کرانے کا طریقہ جمہوریت اور عوامی حکومت کی روح کے خلاف ہے۔ جو ملک کے عوام میں بے چینی کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے ہونایہ چاہیے کہ ملک میں کسی قانون سے پہلے اس پر کھلی بحث کو دعوت دی جائے اور عوام کی رائے جانے پر بغیر قانون سازی نہ ہو۔ مضبوط جمہوریت اور تعلیم یافتہ اور بیدار سماج اسی کا تقاضہ اور مطالبہ رکھتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی ممالک جہاں جمہوریت پوری قوت کے ساتھ موجود ہے وہاں یہ روایت بھی بہت طاقتور ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ آخری وقت تک اس کے مخالف رہیں گے اور ان کی یہ کوشش ہوگی کہ اس ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے افراد اور تمام تہذیبی اور ثقافتی اکائیوں کی مذہبی و تہذیبی آزادی باقی رہے۔ اس کے لیے وہ قانونی جدوجہد بھی کریں گے اور عوامی رائے بنانے کی بھی کوشش کریںگے اور یہ کوشش ان تمام اکائیوں کی طرف سے بھی ہونی چاہیے جو اس کے اسٹیک ہولڈرس ہیں۔ لیکن اگر پارلیمنٹ میں اکثریت کے بل پر کوئی ایسا قانون بن بھی جاتا ہے تو مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دین محض چار شادیوں اور ان چند مسائل تک محدود نہیں جو مسلم پرسنل لا میں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ دین کا بڑا حصہ ان کے لیے باقی ہے۔ جس پر عمل کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یونیفارم سول کوڈ کے ذریعہ وہ ہندوستان سے اسلام کا خاتمہ کرسکتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کائنات مسلسل گردش میں ہے اور وقت کا پہیہ کس جگہ ٹھہرے گا نہیں معلوم۔ سوویت روس جس نے لوگوں کے دلوں سے اسلام کو کھرچنے کی کوشش کی، اب بدل رہا ہے اور اسلام روس کا دوسرا بڑا سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے مایوسی سے ز یادہ یقین محکم اور عمل پیہم کی ضرورت ہے۔ ومکروا ومکر اللہ۔ ہم نہیں جانتے کہ حالات کب اور کیسے بدل جائیں؟
ہم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ اس ملک کا دستور ملک میں بسنے والے تمام انسانوں کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کی واضح اور کھلی آزادی دیتا ہے اور یہ دستوری حق اور آزادی کامن سول کوڈ کے غیر واضح اور موہوم تصور سے کہیں زیادہ مفصل، مدلل، واضح اور ظاہر و روشن ہےاور واضح دستوری دفعات کے ہوتے ہوئے کسی موہوم اور غیر واضح دفعہ کےلئے انہیں قربان نہ تو کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کیا جانا چاہئے، وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ پرسنل لا کے اسٹیک ہولڈر گروہ اس کی مخالفت کر رہے ہوں۔ اس کی سیکیولر ملک اور مضبوط و با شعور سماج میں گنجائش صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جب پرسنل لا کے اسٹیک ہولڈر طبقات خود ایسا کرنے کا مطالبہ کریں ۔بہ صورت دیگر اس کے الٹے نتائج حاصل ہونگے اور ان طبقات میں ،جو اپنا پرسنل لا رکھتے اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ،بے اطمینانی اور حکومتی جبر کا احساس پروان چڑھے گا۔
کامن سول کوڈ کیا ہوگا اور کیا ہونا چاہئے اس پر نوے کی دہائی میں ملک میں ڈبیٹ ہو چکا ہے۔اس وقت یہ بات کہی گئی تھی کہ”یہ کامن سول کوڈ اختیاری ہوگا۔” سول کوڈ کا ہونا اور اختیاری ہونا کیا معنی رکھتا ہے! چنانچہ اس تصور کو اس وقت رد کر دیا گیاتھا۔
جہاں تک ۲۰ فیصد مقدمات کے خاتمے،مذہبی و تہذیبی اکائیوں کے درمیان قربت و ہم آہنگی،آدی باسی قبائل کو قومی دھارے میں لانے اور “ہندوستانیت” کے جذبے کو فروغ ملنے کی بات ہے تو یہ کہنا کافی ہوگا کہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو حکومتوں سے سنجیدہ، مخلصانہ اور تفریق کے نظریے سے اوپر اٹھ کر کوششوں کی متقاضی ہیں اور محض قانون سازی کے ذریعہ ان کے حصول کا خواب دیکھنا اور عوام کو دکھانا کسی خواب پریشاں سے زیادہ نہ ہوگا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146