ہنر مند بڑھئی اور شہزادی

عبدالحفیظ

ایک گاؤںمیں ایک بیوہ رہتی تھی، اس کا ایک بیٹا تھا جب وہ بڑا ہوا تو وہ اسے کوئی ہنر سکھانے کی غرض سے شہر لے کر آگئی۔ شہر میں اس نے ایک بوڑھے بڑھئی کو دیکھا جو بسولے سے لکڑی کے چھلکے اتار رہا تھا۔ اس کے کام میں بے حد نفاست تھی، اس نے لکڑی کو اتنا ہموار کردیا تھا کہ اس پر سے چیونٹی بھی پھسل جاتی۔ عورت یہ کام دیکھ کر سمجھ گئی کہ یقینا یہ کوئی ماہر کاریگر ہے، اس کے پاس ایک ایسا ہنر ہے جو یقینا فائدہ مند رہے گا۔ غریب عورت اپنے بیٹے کو اس بڑھئی کے پاس لے کر گئی اور اس سے کہا: ’’براہ کرم، آپ میرے بیٹے کو بھی یہ ہنر سکھا دیجیے۔‘‘
بڑھئی نے ایک شرط لگائی، اس نے کہا: ’’میں رات کو لڑکے کو ایک کمرے میں بند کردوں گا، اگر یہ صبح تک زندہ رہا تو اسے اپنا شاگرد بنالوں گا۔‘‘
وہ کمرا ایسا تھا کہ وہاں سردی سے بچنے کا کوئی بندوبست نہ تھا جب کہ ان دنوں رات کو سخت سردی پڑتی تھی۔ غریب عورت نے اللہ پر بھروسہ کرکے لڑکے کو بڑھئی کے حوالے کردیا۔ بڑھئی نے لڑکے کو کمرے میں بند کردیا کمرہ بالکل خالی تھا، نہ کوئی لحاف نہ بستر بس لکڑی کا ایک بھاری سا لٹھا وہاں رکھا گیا جس کا وزن ایک کوئنٹل کے قریب رہا ہوگا۔ جب صبح اس نے کمرا کھولا تو لڑکا صحیح سلامت تھا۔ اس نے خوش ہوکر پوچھا کہ آخر وہ کس طرح سردی سے بچا رہا جبکہ اس کے کپڑے بھی اسے سردی سے بچانے کے لیے ناکافی تھے۔ لڑکے نے کہا ’’وہاں لکڑی کا ایکبھاری لٹھا پڑا ہوا تھا میں اسے الٹتا پلٹتا رہا یوں مسلسل حرکت کرنے کے باعث میرا جسم گرم رہا اور میں زندہ بچ گیا۔‘‘
بڑھئی یہ جواب سن کر بہت خوش ہوا اور اس کے بعد اسے اپنا شاگرد بناکر اسے ہنر سکھادیا۔ جب لڑکا ہر کام میں ماہر ہوگیا تو بڑھئی نے اسے چھٹی دے دی اور کہا کہ اب جاکر اپنے بل بوتے پر محنت کرو اور حلال روزی کماکر سکھ چین سے زندگی بسر کرو۔
لڑکا اپنے گھر کی طرف چلا، راستے میں ایک ریگستان آیا جہاں اونٹ کی ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں، اس نے اوزار نکال کر وہیں اپنا ہنر آزمانا شروع کردیا اور ان ہڈیوں سے تقریباً ڈیڑھ پاؤ چاول بناڈالے۔ اس کے بعد اس نے وہ چاول پوٹلی میں باندھے اور وہاں سے چل دیا۔ چلتے چلتے وہ ایک سلطنت میں پہنچا۔ وہاں جاکر اس نے اس سلطنت کی شہزادی کا اعلان سنا۔ شہزادی کا کہنا تھا کہ جس شخص کا ہنر اسے پسند آگیا وہ اس سے شادی کرلے گی اور اگر اسے ہنر پسند نہ آیا تو پھر اس کا سارا سامان ضبط کرکے اسے غلام بنالے گی۔
اب تک سینکڑوں لوگ غلام بنائے جاچکے تھے۔ لڑکا بھی اپنی قسمت آزمانے وہاں پہنچا۔ شہزادی کے حکم کے مطابق اسے مہمان خانے میں ٹھہرایا گیا۔ شہزادی عام مغرور شہزادیوں کی بہ نسبت بہت اچھی تھی، اس کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ اپنے مہمانوں کے لیے بھی خود سے کھانا پکاتی تھی۔
لڑکے نے نوکروں کے ہاتھ شہزادی کو چاول بھجوائے اور کہا کہ انہیں پکاکر بھیج دیجیے۔ اب وہ کوئی اصلی چاول تو تھے نہیں کہ گلتے، شہزادی نے کافی کوششیں کیں لیکن چاول نہ گلے تھک ہار کر لڑکے کو بلوایا تو اس نے شہزادی کو ان چاولوں کی حقیقت بتائی۔ شہزادی کو لڑکے کا ہنر بہت پسند آیا۔ وعدے کے مطابق اس نے لڑکے سے شادی کرلی۔ لڑکے کو بادشاہت کا عہدہ ملا تو اس نے اپنی ماں کو بھی اپنے پاس بلالیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں