ہنسنا منع ہے!

ماخوذ

ایک ڈاکٹر کو انشاء اللہ اور ماشاء اللہ بولنے کی عادت تھی۔ ایک دن وہ مریض کو دیکھنے گیا۔
مریض: ڈاکٹر صاحب میرے پیٹ میں بہت درد ہے۔
ڈاکٹر: ماشاء اللہ
مریض: کیا میں جلدی مرجاؤں گا۔
ڈاکٹر: انشاء اللہ
٭٭٭
دو دوست جارہے تھے۔ پہلے نے کہا: آج تک ہمارے خاندان میں کسی نے نوکری نہیں کی۔
دوسرا: پھر وہ کیا کرتے ہیں؟
پہلا: بھیک مانگتے ہیں۔
٭٭٭
استاد: جو بچے جنت میں جانا چاہتے ہیں ہاتھ اوپر اٹھائیں۔
سب بچے ہاتھ اٹھاتے ہیں لیکن ایک بچی ہاتھ نہیں اٹھاتی۔
استاد: کیوں بیٹا تم جنت میں جانا نہیں چاہتیں۔
بچی: میری ماں نے سیدھا گھر آنے کو کہا ہے۔
مرسلہ: مزدلفہ سلطانہ، بسوا کلیان
٭٭٭
بیٹا (کنجوس باپ سے) ابا جان! میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ میری ایک ٹانگ زمین پر اور دوسری آسمان پر ہے۔
باپ: بیٹا ایسے خواب دیکھنا بند کرو۔ کہیں کپڑے نہ پھٹ جائیں۔
٭٭٭
کھلاڑی نے ایک زوردار چھکالگایا۔ گیند نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک پولیس انسپکٹر کھلاڑی کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ آپ کی گیند سڑک پر گزرتے ہوئے ایک موٹر سائیکل سوار کے سر پر لگی اور وہ وہیں گرگیا۔ اس کی موٹر سائیکل ایک کار میں گھس گئی، کاراسّی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جارہی تھی، وہ ایک منی بس سے ٹکرا گئی اور منی بس بے قابو ہوکر ایک ڈبل ڈیکر کے الٹنے کا سبب بن گئی۔ یہ سن کر کھلاڑی بگڑ کر بولا: ’’تو کیا تم مجھے گرفتار کرنے آئے ہو؟‘‘
پولیس انسپکٹر نے جلدی سے کہا:
’’جی نہیں! میں اپنے بیٹے کے لیے آپ کا آٹو گراف لینے آیا ہوں۔‘‘
٭٭٭
محکمے نے ایک شخص کی سہولت کے لیے انکم ٹیکس کی ادائیگی کی قسطیں مقرر کردیں۔ اس نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں ایک ہی قسط میں ادائیگی کروں گا،کیونکہ چار بار دل کا دورہ برداشت نہیں کرسکتا۔
٭٭٭
استاد: (شاگرد سے) وہ کون سا دن ہے جب بھائی بہن کو، باپ بیٹے کو، کوئی بھی کسی کو نہیں پہچانے گا۔‘‘
شاگرد: جناب! شادی میں کھانے کا دن۔
٭٭٭
استاد: کارگزاری کو جملے میں استعمال کرو۔
شاگرد: جناب! میں گھر کی طرف جارہا تھا کہ ایک آدمی نے میرے قریب سے کار گزاری۔
٭٭٭
بھائی جان! تم حساب میں کیسے ہو؟
منا: میں سب سے لائق ہوں۔
بھائی جان: اچھا بتاؤ دو اور دو مالٹے کتنے ہوتے ہیں۔
منا: اسکول میں ماسٹر صاحب ہم سب کو سیبوں کا حساب کراتے ہیں۔
٭٭٭
ایک شخص: سیٹھ صاحب! صبح صبح کہاں جارہے ہو؟
سیٹھ صاحب: سیر کے لیے جارہا ہوں۔
پہلا شخص: آپ نے کیوں زحمت کی، کسی ملازم کو بھیج دیتے۔
٭٭٭
وکیل (چور سے) : اب جب کہ میں نے تمہیں بری کروادیا ہے، تم کم از کم مجھے بتادو، تم نے چوری کی تھی یا نہیں۔
چور: آپ کی بحث سن کر مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میں نے چوری نہیں کی۔‘‘
٭٭٭
استاد: گنجان آبادی کسے کہتے ہیں؟
شاگرد: جس علاقے میں گنجے آباد ہوں۔
٭٭٭
ایک خاتون صبح سویرے بیکری گئی اور اپنے بیٹے کی سالگرہ کا کیک تیار کرنے کا حکم دیا۔ شام کو محترمہ کپڑے بدل کر اور بناؤ سنگھار کرکے کیک لینے گئیں۔ دکاندار رسید لے کر کچھ دیر انہیں غور سے دیکھتا رہا پھر بولا: ’’ہاں ہاں یاد آیا، آپ وہی کیک لینے آئی ہیں جسے تیار کرنے کا حکم صبح آپ کی والدہ دے گئیں تھیں۔‘‘
٭٭٭
سلمان میاں اپنے دوست سے اپنی بیوی کا رونا رو رہے تھے:
’’یار میں اپنی بیوی سے تنگ آگیا ہوں۔ جب دیکھو پیسے مانگ رہی ہے، جب دیکھو پیسے مانگ رہی ہے…
دوست نے حیرت سے پوچھا: لیکن وہ اتنے پیسوں کا کیا کرتی ہے؟
سلمان صاحب عاجزی سے بولے: ’’مجھے کیا پتا؟ میں نے کبھی دیے ہی نہیں۔‘‘
٭٭٭
ایک صاحب کی شادی ہونے والی تھی۔ وہ کتاب گھر گئے اور دکاندار سے پوچھا: ’’آپ کے پاس وہ کتاب ہوگی، جس کا نام ہے: عورت پر حکومت کیجیے؟‘‘
دکاندار منہ بناکر بولا: ’’جی نہیں! ہمارے ہاں فرضی قصے کہانیوں والی کتابیں نہیں ہوتیں۔‘‘
٭٭٭
بیوی(شوہر سے): تمہارے اتنے گہرے دوست کی بیوی فوت ہوگئی ہے اور تم اس کے جنازے میں نہیں گئے؟
میاں (سرد آہ بھر کر): بیگم کس منہ سے جاؤں؟ وہ مجھے تیسری بیوی کے جنازے پر بلا رہا ہے جبکہ میں ایک بار بھی اسے نہیں بلاسکا۔
٭٭٭
گھر گھر جاکر گھریلو اشیاء فروخت کرنے والے ایک کارندے نے دروازے کی گھنٹی بجائی۔ ایک ادھیڑ عمر کی بیگم صاحبہ نے دروازہ کھولا۔ کارندے نے مسکراتے ہوئے پوچھا: ’’آپ ہی بیگم صاحبہ ہیں؟‘‘
’’جی! کیوں؟ میں بیگم صاحبہ نہیں تو اور کون ہوں؟ کیا آپ یہ بھی نہیں دیکھ سکتے؟ کیا آنکھیں خراب ہیں؟‘‘ خاتون نے سخت الفاظ میں کہا۔
’’جی! وہ میں… کیا مجھے بیگم صاحبہ سے مخاطب ہونے کا شرف حاصل ہورہا ہے؟‘‘ کارندے نے گھبرا کر پوچھا۔
’’جی، میں ہی ہوں بیگم صاحبہ، کیا تم مجھے صاحب بہادر سمجھتے ہو یا پڑوسی؟ کیا میں نوکرانی لگتی ہوں یامیں کوئی جانور ہوں، تم…
کارندہ خاتون کی بات کاٹ کر بولا: ’’معاف کیجیے گا، جب آپ نے دروازہ کھولا، تو آپ کی عمر نے مجھے خواہ مخواہ مغالطے میں ڈال دیا، میں سمجھا کہ آپ ان کی صاحب زادی ہیں۔‘‘
خاتون کے چہرے پر فوراًمسکراہٹ دوڑ گئی، بولیں: ’’کوئی بات نہیں، ایسا ہوجاتا ہے، کہیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتی ہوں؟‘‘
٭٭٭
وہ ایک ایسی بس میں سوار ہوا جس کے دروازے پر لکھا تھا: ’’بس سے نکلتے وقت ٹکٹ کی رقم ادا کریں۔‘‘
چنانچہ وہ اس وقت سے بس کے اندر ہی ہے۔‘‘
٭٭٭
ایک شاعر کے دوست کی جوتی مشاعرے میں گم ہوگئی۔ شاعر نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’گھبراؤ مت، میں جیسے ہی اسٹیج پر پہنچ کر شعر سناؤں گا وہ خود ہی مل جائے گی۔‘‘
٭٭٭
خربوزے والا چلا چلا کر پھل بیچ رہا تھا ’’شکر سے میٹھا خربوزہ لے لو۔‘‘
ایک گاہک خربوزے خرید کر وہیں کھڑے ہوکر کھانے لگا۔ اگلے ہی لمحے وہ جھلا کربولا: ’’ارے! یہ تو بالکل پھیکا ہے۔‘‘
خربوزے والے نے کہا: ’’ارے صاحب! کہہ تو رہا ہوں کہ شکر سے میٹھا لگے گا، شکر تو لگاؤ۔‘‘
٭٭٭
استاد (یاسر سے): ’’آج تم ایک آنکھ پر پٹی باندھ کر کیوں آئے ہو؟‘‘
یاسر:’’ جناب! آپ ہی نے کہا تھا کہ اچھے لڑکے امیر اور غریب، سب کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146