ہنسنا منع ہے!

ماخوذ

ایک شخص ہوٹل میں کھانے کا آرڈر دے کر انتظار کررہا تھا۔ جب خاصی دیر ہوگئی اور کھانا نہ آیا تو اس نے ویٹر کو بلایا اور کہا: ’’مجھے ایک قلم اور کاغذ لادو۔‘‘

ویٹر حیرت سے بولا: ’’آپ کو ان چیزوں کی کیا ضرورت پڑگئی؟‘‘

وہ شخص: ’’مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میں اپنی زندگی میں تو یہ کھانا نہیں کھا پاؤں گا، چنانچہ میں یہ وصیت لکھنا چاہتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد کم از کم یہ کھانا میری اولاد کو تو مل جائے۔‘‘

٭٭

بیمار شوہر: ’’مجھے جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔‘‘

بیوی: ’’کیوں؟‘‘

شوہر: ’’روز صبح مرغے کی طرح اٹھ جاتا ہو، گھوڑ کی طرح بھاگ کر آفس جاتا ہوں، گدھے کی طرح کام کرتا ہوں، گھر آکر سب پر کتے کی طرح بھونکتا ہوں اور رات بلی کی طرح سوجاتا ہوں۔‘‘

٭٭

ایک ہواباز اپنے دوست سے کہہ رہا تھا: ’’تمہیں معلوم نہیں، پچھلے ہفتے مجھے کس قدر وحشت ناک صورتِ حال کا سامناکرنا پڑا۔ جہاز کا انجن کام نہیں کررہا تھا، آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ جہاز میں ایک قطرہ پیٹرول نہیں تھا۔‘‘

دوست نے کہا: ’’پھر تو یہ معجزہ ہی ہوا کہ تم زندہ سلامت زمین پر اتر آئے۔‘‘

ہوا باز بولا: ’’میں نے یہ کب کہا کہ جہاز زمین سے بلند تھا۔‘‘

٭٭

اسکاٹ لینڈ کے باشندے کنجوسی میں مشہور ہیں۔ ایک رسالے میں ان کی کنجوسی کے دلچسپ واقعات شائع ہوتے رہتے تھے۔ اسکاٹ لینڈ کے ایک آدمی نے اس رسالے کے ایڈیٹر کو خط لکھا: ’’آپ نے ہماری کنجوسی کو اچھالنے کا سلسلہ بند نہ کیا تو میں آپ کا رسالہ جو میں اپنے پڑوسی سے مانگ کر پڑھتا ہوں، پڑھنا چھوڑدوں گا۔‘‘

٭٭

ایک کنجوس نے اپنے مہمان سے پوچھا: ’’اور سناؤ، ٹھنڈا پیوگے یا گرم؟‘‘

مہمان: ’’ٹھنڈا اور گرم دونوں۔‘‘

کنجوس: ’’بیگم ایک گلاس پانی فریج سے اور دوسرا گلاس گیزر سے بھر کر لے آؤ۔‘‘

٭٭

ایک شخص کا چیک بینک کلرک نے یہ کہہ کر واپس کردیا: ’’پہلے کسی ایسے آدمی کی شناخت کروائیں، جسے بینک جانتا ہو۔‘‘

وہ شخص بینک سے باہر گیا اور دروازے پر بیٹھے ہوئے ایک پولیس والے کو ساتھ لیے واپس آگیا۔ کلرک کے پوچھنے پر پولیس والے نے تصدیق کردی کہ وہ اسے جانتا ہے۔ جب وہ شخص رقم لے کر چلا گیا تو کلرک نے پولیس والے سے پوچھا: ’’کیا وہ تمہارا رشتے دار تھا؟‘‘

پولیس والے نے کہا: ’’نہیںتو، اسے تو میں اس لیے جانتا ہوں کہ کئی بار جعلی چیک کیش کرانے کے جرم میں جیل جاچکا ہے۔‘‘

٭٭

شوہر (بیو سے فون پر): ’’کیا پکا ہے آج کھانے میں؟‘‘

بیوی (غصے سے): ’’زہر‘‘

شوہر: ’’کھا کر سوجانا، میں دیر سے گھر آؤں گا۔‘‘

٭٭

کسی نے قاضی صاحب سے پوچھا: ’’پستے کا حلوہ زیادہ مزے دار ہوتا ہے یا بادام کا؟‘‘

قاضی نے جواب دیا: ’’چوں کہ معاملہ انصاف کا ہے، اس لیے ذائقے دار حلوؤں کی غیر حاضری میں انصاف نہیں ہوسکتا، لہٰذا دونوں کو حاضر کیا جائے۔‘‘

٭٭

ایک صاحب اپنے دوستوں کو اپنے بچوں کے نام بتارہے تھے۔ ’’بڑے بیٹے کا نام نفیس کریم ہے اور چھوٹے والے کا رئیس کریم، جب کہ میری اکلوتی بیٹی کا نام ہے…‘‘

دوست برجستہ بولا: ’’آئس کریم۔‘‘

٭٭

ایک چھوٹا سا نیگرو بچہ اپنے گھر کے پچھواڑے چھپ کر کیڑے کھا رہا تھا۔ اچانک وہاں اس کی ماں آگئی اور اسے ڈانٹنے پھر سمجھانے لگی: ’’تمہیں پتا ہے، جب ان چھوٹے بچوں کی ماں انہیں نہیں دیکھے گی، تو کتنی اداس اور تنہا ہوگی؟‘‘

بچے نے جھٹ سے جواب دیا: ’’امی آپ اس کی فکر چھوڑیں، میں ان کی ماں کو پہلے ہی کھا چکا ہوں۔‘‘

٭٭

ایک سرجن کو شکار کا شوق ہوا تو وہ افریقہ چلے گئے۔ واپسی پر دوستوں نے احوال پوچھا تو وہ مایوسی سے بولے: ’’بھئی افریقہ کے تو بس قصے ہی قصے ہیں، میں نے ویسے ہی وہاں جاکر وقت ضائع کیا ہے، وہاں ایک جانور تک نہ مارسکا۔ اس سے بہتر جگہ تو یہ اسپتال ہے۔‘‘

٭٭

وہ کتنی ہڑبونگ اور کتنا ہنگامہ ہے؟ صاحب آپ کا گھر تو چڑیا خانہ لگتا ہے۔‘‘ ایک مہمان نے اپنے میزبان سے کہا۔

’’جی ہاں‘‘ میزبان نے کہا: ’’پہلے ایسا نہیں تھا۔ یہ ساری رونق تو آپ کے آنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔‘‘

٭٭

پہلا لڑکا: میرے بھائی مستری ہیں وہ مکان بناتے ہیں۔

دوسرا لڑکا: میرے بھائی بھی بناتے ہیں۔

پہلا لڑکا: وہ بھی مکان بناتے ہیں؟

دوسرا لڑکا: جی نہیں وہ بے وقوف بناتے ہیں۔

٭٭

ڈاکٹر (بچے سے) بیٹا خالی پیٹ آئے ہو؟

بچہ: کیوں انکل آپ مجھے کھانا کھلائیں گے؟

٭٭

ایک شاعر (اپنے دوست سے): تمہارا کتا مجھے دیکھ کر بھونکنے لگا۔

دوست نے کہا: یقینا تم نے اسے اپنے اشعار سنائے ہوں گے۔

٭٭

گاہک (دوکاندار سے): سیاہی کی شیشی دینا، بس سیاہی پھیکی نہ ہو۔

دکاندار: سوری جناب ہم میٹھی سیاہی نہیں بیچتے۔

٭٭

پہلا لڑکا: میرے ابو رائٹر ہیں، وہ کتاب لکھتے ہیں۔

دوسرا لڑکا: میرے ابو بھی لکھتے ہیں۔

پہلا لڑکا: وہ بھی کتاب لکھتے ہیں؟

دوسرا لڑکا: جی نہیں وہ کچرا کنڈیوں پر لکھتے ہیں فلاں کو رہا کرو…مہنگائی ختم کرو۔

٭٭

مالک مکان (چوری کے دوران چور سے): بھائی صاحب ٹائم کیا ہورہا ہے؟

چور: میں چوری کرنے آیا ہوں، ٹائم بتانے نہیں۔

٭٭

استاد (شاگرد سے): باغ کی ضد کیا ہے؟

شاگرد: باغی

٭٭

ایڈیٹر: آپ کا مضمون بہت اچھا ہے آپ اپنے نام سے کیوں نہیں چھپواتے؟

مضمون نگار: اس لیے کے مجھے روپوں کی ضرورت ہے۔

ایڈیٹر: مگر معاوضہ تو آپ کی ہی ملے گا۔

مضمون نگار: اگر مضمون میرے نام سے شائع ہوگیا تو میری بیوی ساری رقم ہتھیا لے گی۔

٭٭

دہلی میں ایک بڑا مشاعرہ ہورہا تھا، معروف شعراء کرام جمع تھے، مصرعہ طرح یہ تھا:

غم نہ کر تو ترے رنج کا خوگر میں ہوں

ایک شاعر بہت زیادہ جھوم رہا تھا، جب بھی کوئی دوسرا شاعر آکر کلام سناتا تو مصرعہ ختم ہونے سے پہلے ہی جھومنے والا شاعر حسبِ معمول جھوم کر میں ہوں میں ہوں کہہ کر مصرعہ مکمل کردیتا۔ لوگ اس صورت حال سے خاصے پریشان تھے۔ آخر میں ایک شاعر نے اپنی غزل کے دوران یہ مصرعہ پڑھا:

ناریل ہاتھ لگا جس کے وہ بندر……

حسبِ معمول شاعرنے جھوم کر ’’میں ہوں‘‘ کا نعرہ لگایا اور ساری محفل زعفران زار بن گئی۔

٭٭

ایک جہاز پر ایک برطانوی، ایک امریکی، ایک خان اور ایک سکھ سوار تھے۔ جہاز میں کچھ خرابی ہوگئی۔ پائلٹ نے اعلان کیا کہ تم میں سے ایک چھلانگ لگادے تو باقی تین کی جان بچ سکتی ہے۔ امریکی اٹھا، اس نے دعا کی اور چھلانگ لگادی۔ تھوڑی دیر بعد پائلٹ نے یہی اعلان کیا کہ ایک اور چھلانگ لگادے تو دو کی جان بچ سکتی ہے، برطانوی نے دعا مانگی اور چھلانگ لگادی۔

پائلٹ نے پھر اعلان کیا کہ ایک اور چھلانگ لگادے تو ایک کی جان بچ جائے گی۔ سکھ اور خان صاحب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے، دفعتاًخان اٹھا، اس نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور سکھ کو اٹھا کر نیچے پھینک دیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں