ایک صاحب ایک بھکاری کو روزانہ پانچ روپے دیتے تھے۔ کچھ عرصے بعد دو اور پھر صرف ایک روپیہ دینے لگے۔ ایک دن بھکاری نے اس کی وجہ پوچھی تو صاحب کہنے لگے:’’جب میری شادی نہیں ہوئی تھی تو تمہیں پانچ روپے دے دیتا تھا۔ شادی کے بعد دو روپے اور بچے کے پیدا ہونے کے بعد ایک روپے پر آگیا۔‘‘
بھکاری بولا:’’یہ کیوں نہیں کہتے کہ میرے ہی پیسوں سے گھر چلارہے ہو۔‘‘
٭٭٭
ایک آدمی (دوسرے سے)’’وہ نوجوان وکیل جو تمہارا کرایہ دار تھا اس کا کیا بنا؟‘‘
دوسرا آدمی: ’’وہ بہت اچھا وکیل ہے، گزشتہ سال سارے مقدموں میں اس نے میری وکالت کی۔‘‘
پہلا آدمی: ’’کیا وہ کامیاب ہوا؟‘‘
دوسرا آدمی: ’’اس سے بڑھ کر اس کی کامیابی اور کیا ہوسکتی ہے کہ آج میں اس کا کرایہ دار ہوں۔‘‘
٭٭٭
دولڑکے آپس میں لڑ رہے تھے۔
ایک نے کہا: تم مجھے نہیں جانتے؟‘‘
دوسرے نے کہا: ’’جانتا ہوں، تم وہی ہو جو مار کھاکر بھاگ جاتے ہو۔‘‘
٭٭٭
ایک گلوکار محفل میں گانا گا رہا تھا: ’’کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا۔‘‘
محفل سے ایک دیہاتی نے اٹھ کر کہا: ’’شیخ اللہ دیا۔‘‘
٭٭٭
مریض : کیا عینک لگوانے کے بعد میں پڑھ سکوں گا۔
ڈاکٹر: بالکل۔
مریض: اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہوسکتی ہے۔ میرے والد بھی میری طرح ان پڑھ ہیں۔ ایک عینک ان کے لیے بھی بنوا دیں۔
٭٭٭
دو دیہاتی پہلی مرتبہ شہر گئے۔ ایک بڑی سی بس پر نظرپڑی تو ایک نے کہا: ’’دیکھو کتنا بڑا جانور بھاگ جارہا ہے۔‘‘
دوسرے کی نظر ایک کار پر پڑی تو وہ بولا: ’’اس کے پیچھے اس کا بچہ بھی بھاگا جارہا ہے۔‘‘
٭٭٭
گاہک: اس نیلے قلم کی کیا قیمت ہے؟
دکاندار:پانچ سو روپئے۔
گاہک: اف اف… اور اس سنہرے قلم کی؟
دوکاندار: دو مرتبہ اف اف
٭٭٭
بھکاری: اللہ کے نام پر کچھ دے دو بابا۔
راہ گیر: تمہارے پاس پانچ سو روپئے کا کھلا ہے؟
بھکاری: ہاں۔
راہ گیر: تو پہلے اسے خرچ کرلو۔
٭٭٭
باپ: بیٹے دل لگا کر پڑھا کرو۔
بیٹا: لیکن آپ خود توعینک لگا کر پڑھتے ہیں۔
٭٭٭
بھکاری : اللہ کے نام پر ایک روپیہ دے دو۔
دکاندار: جاؤ بابا کل آنا۔
بھکاری: اس کل کل کے چکر میں میرے اس مارکیٹ میں لاکھوں روپے پھنسے ہوئے ہیں۔
٭٭٭
ایک دوست: تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ملیریا مادہ مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔
دوسرا دوست: افسوس! پھر تو ان مچھروں کو مار نہیں سکتا۔
پہلا دوست: وہ کیوں؟
دوسرا دوست: میں عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔
٭٭٭
بیٹا: ابو ابو! میں نے ٹیسٹ میں اچھے نمبر لیے ہیں، جب کہ باقی سب کو انڈے ملے ہیں۔
ماں: بیٹا تم بھی انڈے لے آتے، کھانے کے کام توآتے۔
٭٭٭
بازار میں ایک پھل والا آواز لگا رہا تھا: ’’لنگڑے آم پچاس روپئے کلو۔‘‘
ایک چھوٹا بچہ: ’’اور ٹانگوں والے آم کتنے روپئے کلو ہیں؟‘‘
تنخواہ کا لفافہ لے کر ملازم واپس کیشئر کے پاس آیا اور کہا: ’’جناب اس میں پانچ روپئے کم ہیں۔‘‘
کیشئر نے کہا: ’’پہلی بار جب تمہارے لفافے میں پانچ روپے زیادہ چلے گئے تھے، تب تم میرے پاس کیوں نہیں آئے؟‘‘
’’جناب وہ آپ کی پہلی غلطی تھی اور میں بار بار کی غلطی برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘
٭٭٭
ایک صاحب نے اپنی ہونے والی بیوی سے کہا:’’میں جو کچھ کماتا ہوں، تمہارے سامنے ہے۔ کیا تم شادی کے بعد میری آمدنی میں گزاراکرلوگی۔‘‘
’’ہاں کیوں نہیں، مگر تم اپناگزارہ کیسے کروگے؟‘‘بیوی نے جواب دیا۔
٭٭٭
ایک دوست نے اپنے حکیم دوست سے پوچھا: ’’تم جس مریض کو بھی دیکھتے ہو، اس سے یہ کیوں پوچھتے ہو کہ رات کو کیا کھایا تھا؟‘‘
’’اس سے مریض کی مالی حالت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔‘‘ حکیم دوست نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
٭٭٭
ایک بیمار اور بدمزاج میزبان نے مہمان سے کہا: ’’کچھ تو کھائیے۔‘‘
مہمان بولا: ’’بھوک تو نہیں ہے، تھورا سا کھالوں گا تاکہ آپ کا نمک خوار ہوجاؤں۔‘‘
میزبان نے کہا: ’’ہمارے ہاں کھانے میں نمک نہیں ڈالا جاتا، لہٰذا آپ صرف خوار ہی خوار ہوں گے۔‘‘
——