جیسا کہ خدشہ تھا، انا ہزارے اور حکومت کے درمیان لوک پال بل کے انتہائی کلیدی نکات پر اتفاق رائے قائم نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم کو لوک پال کے دائرہ اختیار میں لانے کے موضوع کو حکومت اور اس کے حامی غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔
حالانکہ حکومت کا سر براہ یعنی وزیراعظم ملک کا محض پہلا شہری ہی ہوتاہے۔ اس سے جمہوریت میں کوئی خلاء پیدا نہیں ہوتا اگر وزیراعظم خودکو لوک پال کے دائرہ اختیار میں لے لیتے کیوں کہ کابینہ کسی ایک کی وجہ سے نہیں چلتی بلکہ یہ اجتماعی ذمہ داری کی چیز ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پرانے تجربات سے بھی یہ ثابت ہوتاہے کہ وزیراعظم کوئی فرشتہ نہیں ہوتا۔ اس بات کا ہمیشہ افسوس رہے گا کہ الزامات کی تفتیش کے لیے لوک پال جیسے خود مختار نظام کی غیرموجودگی میں حکمراں پارٹی ایمانداری سے کی گئی کسی بھی انکوائری کو کنارے لگانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
مبینہ طور پر منموہن سنگھ نے خود کو لوک پال کے دائرہ اختیار میں شامل کرنے پر رضامندی ظاہر کردی تھی جیسا کہ ان کے پیش رواٹل بہاری واجپئی نے کیا تھا۔ لیکن وزیروں کو اس تعلق سے زیادہ تشویش تھی کہ وہ خودکو راجا سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کانگریس کے ترجمان جینتی نٹرا جن کی سر براہی والی لاء اینڈجسٹس کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں جب انہوں نے کہا تھا کہ وزیراعظم کو بھی لوک پال کے دائرہ اختیار میں لانا چاہئے تو وزیروں نے وزیراعظم کو اس سے الگ رکھنے کی جو وجہ بیان کی تھی، وہ قطعی بے محل تھی۔ ہماری دیوانگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب کانگریس کے جزل سکریٹری دگ وجے سنگھ نے بھی وزیراعظم کو شامل کیے جانے کی حمایت کی تھی۔
وزیروں نے جوازپیش کیا تھا کہ انہیں الگ رکھنا اس لیے جائزہے کہ وہ پریونیشن آف کرپشن ایکٹ کے تحت آتے ہیں۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ وزیروں کو اس بات سے کوئی پریشانی نہیں کہ محض ایک پولیس اہلکار کی شکایت پر وزیراعظم کے خلاف کارروائی کی جائے، لیکن وہ نہیں چاہتے کہ لوک پال جیسا بڑا ادارہ ان کے خلاف کچھ کرنے کی جرات کرے۔
وزیروں کے ذریعہ پیش کی گئی تاویل تو ایسی ہی ہے کہ پہلے گھوڑے کو کھونٹے سے باندھ دیاجائے، اس کے بعد اصطبل میں تالا لگادیاجائے۔ اتفاق سے غیر اہم اور ابتدائی ڈرافٹ لوک پال بل ۲۰۱۰ء میں بھی وزیراعظم اور ممبران پارلیمنٹ کو لوک پال کے دائرہ اختیار میں دیاگیا تھا۔
عدلیہ کے اعلیٰ عہدے داروں بشمول سپریم کورٹ کے ججوں کو اس میں شامل کرنا صیح نہیں ہے۔ میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ اعلیٰ عدالتوں نے کس طرح اس ادارے کو شر مسارکیا تھا۔ میں محض ایک علیحدہ نیشنل جوڈیشل اینڈاکائونٹ ایبی لیٹی کمیشن کے قیام کا مشورہ دوںگا۔ اسے لوک پال (عدلیہ) کہاجاسکتاہے، جسے لوک پال کے برا بر ہی اختیارات حاصل ہوںگے۔ اس سے مقصد بھی حل ہوجائے گا اور عدلیہ کا انتظامیہ سے فاصلہ بھی برقرار رہے گا، جو کہ آئین نے ضروری قرار دیاہے۔
کپل سبل کی انتہائی اکڑفوں، مثال کے طور پر ’’دنیا کے کس حصے میں برسراقتدار وزیراعظم کے خلاف کارروائی کی گئی ہے؟ کی وجہ شاید یہ ہے کہ ان کے پبلک ریلیشن آفیسر نے ان کو صیح ڈھنگ سے رہنمائی نہیں کی ہے۔ ورنہ انہیں ضرور بتایا گیا ہوتا کہ اٹلی کے موجودہ وزیراعظم سلویولسکونی کے خلاف بد عنوانی کے الزام کے تحت کارروائی کی گئی اور وہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ اس سے پہلے فرانس کے اس وقت کے صدر جیکس شراک کے خلاف عوام کے پیسے کا غلط استعمال کرنے کے الزام میں عدالتی کارروائی شروع ہوئی تھی۔
سبل نے اس وقت عوام کی تقریبا بے عزتی کی، جب انہوں نے انا ہزارے کا موازنہ ہیملن کے پائیڈپائپر سے کیا۔ مزے کی بات تو یہ کہ سبل نے اس استعارے کو مزید جاری نہیں رکھا جیسا کہ کہانی میں ہے کہ پائیڈپائپر کے پیچھے پیچھے چلنے والوں میں چوہے اور بچے شامل تھے، جنہیں ڈبو نے کے لیے لے جایا گیاتھا۔ کیوں کہ عام آدمی ہی تو ملک کی امیدوں کے محور ہیں۔
حکومت پر ایک اہم قانون نافذ کرنے کے لیے دبائو ڈالنے کی غرض سے منعقد کی گئی احتجاجی میٹنک پر الزام ہے کہ وہ غیرجمہوری تھی۔ اس نظریہ کے مطابق عوام جو کہ کوئی قانون منظور کروانا چاہتے ہیں، پہلے قانون سازوں کو منانے کی کوشش کریں اور اگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوں تو خود الیکشن میں کھڑے ہوجائیں۔ مجھے ایک مثال یاد آرہی ہے کہ ۱۹۶۰ء میں سپریم کورٹ نے رام منوہر لوہیا کے مقدمہ میں اس نظریہ کو رد کردیا تھا، جنہیں اترپردیش حکومت کو نہر کے پانی کے لیے اضافی دام دینے سے کسانوں کو منع کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
لوہیا کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ ’’ہم قابل ایڈوکیٹ جنرل کے دلائل کو قبول نہیں کرسکتے کہ ایک اکیلے آدمی کے ذریعہ کسانوں کو ٹیکس یا بقایہ ادا نہ کرنے کے لیے اُکسانے سے آگے چل کر یہ چنگاری انقلابی تحریک میں تبدیل ہوجائے گی۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی حقوق اس طرح کے فرضی اور خیالی بنیادوں پر نہیں دبائے جاسکتے۔
کہاجاتاہے کہ جمہوری نظام میں اجتماعی رویہ اختیار کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ کہ اگر قانون میں خامی ہے تو اسے محض جمہوری نظام سے تبدیل کیا جانا چاہئے اور یہ کہ قانون توڑنے کی کوشش ہی خود میں قانونی ڈھانچہ کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔ اگر اس بحث کو بغیر کسی حد کے تسلیم کرلیاجائے تو اس سے اظہار خیال کی آزادی سلب ہوتی ہے جو کہ جمہوریت کا بنیادی طرزحیات ہے۔‘‘
——