اجمیر کے ایک گاؤں کیکڑی کا واقعہ ہے۔ جہاں دو میاں بیوی رہتے تھے۔ آدمی محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ دونوں ہی بہت خدا ترس اور رحم دل تھے اور اپنی غربت کے باوجود پرمسرت زندگی گزار رہے تھے۔
ایک روز جب اس گھر کی عورت کوڑا پھینکنے باہر گئی تو اس نے دیکھا کہ گلی میں ایک بوڑھا کمزور شخص پڑا کراہ رہا ہے۔ اور اس کو بچے گھیرکر کھڑے چھیڑ رہے ہیں۔ عورت نے اندر آکر اپنے شوہر کو باہر بھیجا کہ وہ جاکر اس بوڑھے کی کچھ مدد کرے۔
شوہر نے واپس آکر بتایا کہ بوڑھا بہت بیمار ہے اور اس کا کوئی نہیں ہے۔ اگر تم راضی ہو تو کیوں نہ ہم اس کو اندر لے آئیں جب تک جئیے اس کی کچھ خدمت کریں تاکہ اللہ ہمیں اس کا ثواب دے۔ بیوی راضی ہوگئی۔ دونوں نے مل کر ایندھن کی کوٹھری کو صاف کیا۔ اور ایک طرف ایک بستر لگادیا اور بوڑھے کو اندر لاکر لٹادیا۔ شوہر نے حکیم کے یہاں سے لاکر دوا پلائی۔ اور بیوی سے کہا کہ بابا کا تم خیال رکھنا اور جو کچھ وہ کہیں پکا کر کھلانا۔
اسی طرح روز ہوتا رہا۔ بوڑھے کو برابر دوا دی جاتی رہی، لیکن کچھ افاقہ نہ ہوسکا اور بوڑھا کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا۔ ایک روز بوڑھا بولا کہ تم لوگ اب مجھے دوا مت پلاؤ اب میرا آخری وقت آگیاہے میں بس دو چار دن کا مہمان ہوں، تم نے جو میری خدمت کی ہے، اللہ تم کو اس کا اجر دے گا۔
آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تو روز کام پر جاتا ہوں تم ان کا خیال رکھنا جو کچھ یہ کہیں کھلانا، یہ کہہ کر وہ کام پر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد بیوی نے بوڑھے سے پوچھا: ’’بابا آپ جو کھائیں بتادیں۔‘‘ بوڑھے نے کہا : ’’بیٹی تھوڑا سا گرم گرم حلوہ بناکر کھلا دو اللہ تمہارا بھلا کرے گا۔‘‘
عورت خوب اچھا تر بتر حلوہ بناکر پلیٹ میں نکال کر بوڑھے کے پاس لے گئی اور کہا: ’’لو بابا گرم گرم حلوہ کھالو۔‘‘
بوڑھے نے کہا بیٹی! رکھ دو۔ ابھی یہ بہت گرم ہے، میں دھیرے دھیرے کھالوں گا۔ عورت حلوے کی پلیٹ اس کے پاس رکھ کر چلی گئی اور گھر میں کچھ کام کرنے لگی۔ کچھ دیر بعد اس کو خیال آیا کہ جاکر برتن اٹھا لاؤں جب عورت کوٹھری کے پاس پہنچی تو اس نے اندر جھانک کر دیکھا، لیکن اندر کا منظر دیکھ کر وہ باہر ہی رک گئی اور اند رکا منظر کواڑ کی جھری سے دیکھنے لگی۔
اس نے دیکھا بوڑھے بابا لیٹے ہیں اور حلوے کی پلیٹ ان کے سینے پر رکھی ہے ان کی صدری ادھڑی پڑی ہے اور کچھ اشرفیاں رکھی ہیں۔ وہ ٹٹول کر ایک اشرفی اٹھاتے ہیں اور حلوے کے اندر لپیٹ کر منھ میں رکھ لیتے ہیں اور بمشکل تمام اس کو نگل لیتے ہیں۔ عورت کھڑی حیرت سے یہ تماشا دیکھتی رہی۔ یہاں تک کہ اشرفیاں ختم ہوگئیں تو بوڑھے نے باقی حلوہ بھی کھا لیا۔ تب عورت اندر داخل ہوئی۔ اس نے بوڑھے سے پوچھا: ’’اور حلوہ کھاؤگے لاؤں؟‘‘
بوڑھے نے کراہتے ہوئے کہا: ’’بس بیٹی ایک گلاس پانی پلادو۔ اللہ تمہارابھلا کرے۔ دعا کے سوا مجھ غریب کے پاس تمہیں دینے کو کیا ہے۔‘‘
عورت کو بہت غصہ آیا مگر کچھ بولی نہیں۔ شام کو اس کا شوہر گھر آیا تو اس نے اس کو سب بات بتائی اس کو بھی بہت حیرت ہوئی۔ رات کو بوڑھے بابا کے پیٹ میں سخت درد اٹھا اور صبح تک وہ تڑپتے رہے کراہتے رہے اور آخر ان کو موت آگئی۔
شوہر نے اپنی بیوی سے کہا ’’تم ان کے اشرفیاں کھانے کی بات کسی سے نہ بتانا۔‘‘ اور اس نے ان کااچھی طرح کفن دفن کردیا۔
جب رات ہوگئی تو یہ مرد ایک پھاؤڑا اور جھولا لے کر قبرستان پہنچ گیا۔ قبرستان پر مکمل سکوت طاری تھا۔ وہ جلدی جلدی قبر کی مٹی ہٹانے لگا تھوڑی دیر میں اس نے قبر کھول ڈالی اور تختے ہٹادیے پھر قبر میں جھانکا۔ قبر کے اند رکا منظر دیکھ کر اسے بڑا تعجب ہوا۔ اس نے دیکھا بوڑھے کا پیٹ پھٹا پڑا ہے۔ او راس کے اندر اشرفیاں چمک رہی ہیں۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک اشرفی کو اٹھایا۔ مگر یہ کیا اس کو لگا جیسے اس نے انگارہ پکڑلیا ہو کیونکہ اس کا ہاتھ ایک دم جیسے آگ سے جھلس گیا ہو۔ اور وہاں سے الٹے پیروں بھاگا۔ اس کا ہاتھ جلن اور درد سے پھٹا جارہا تھا، رات بھر وہ درد سے پریشان رہا صبح کو اس نے یہ بات سب کو بتائی تولوگوں کو یقین ہی نہیں آیا۔ مگر وہ کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ قبر پر لے کر گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ واقعی قبر کھلی پڑی ہے وہیں پھاوڑا اور جھولا بھی پڑا ہے۔ اور اندر مردے کاکفن پیٹ پر سے جل کر ختم ہوگیا اور پھٹے ہوئے پیٹ میں اشرفیاں دہک رہی ہیں۔
بہت سے لوگوں نے اس چیز کو دیکھا جو بھی سنتا دوڑا چلا آتا یہاں تک کہ قبرستان میں بھیڑ لگ گئی۔ پھر شہر قاضی نے بھی دیکھا اور قبر کو بند کرادیا۔
لیکن اس شخص کا ہاتھ بہت بری طرح جل چکا تھا اور اس کے ہاتھ پر بڑے بڑے چھالے پڑگئے تھے۔ ڈاکٹروں نے دوائیں لگائیں کافی دنوں کے بعد اس کے ہاتھ کی جلن گئی مگر اس کا کہنی تک ہاتھ سوکھ کر بیکار ہوگیاتھا۔
ڈاکٹر یہ بتانے سے قاصر رہے کہ اس کے ہاتھ کو جلانے والی کون سی چیز تھی۔ یہ ایک سچا واقعہ ہے، جو ۱۸ویں صدی میں کبھی پیش آیا تھا۔ گاؤں کے لوگوں کے درمیان ابھی بھی اس واقعہ کا ذکر باقی ہے اور لوگ نسل در نسل اس کی کہانی منتقل کرتے رہتے ہیں۔