مرتضیٰ ایک بڑا تاجر تھا۔ وہ اپنا مال فروخت کرکے گھر لوٹ رہا تھا۔ اس سمندری سفر میں اس کا ہم سفر ایک اور تاجر جابر بھی تھا۔ دونوں کا کیبن ایک تھا اس لیے وہ اچھے خاصے گھل مل گئے تھے۔ ایک شام مرتضی نے جابر کو اپنے وہ ہیرے دکھائے جو اس نے ریشم کی چھوٹی سی تھیلی میں رکھ چھوڑے تھے۔ یہ کل دس ہیرے تھے۔ ایک ایک ہیرا لاکھ لاکھ کا تھا۔ ہیرے دیکھ کر جابر کی نیت خراب ہوگئی۔ وہ سوچنے لگا کہ کس طرح ان ہیروں پر ہاتھ صاف کیا جائے۔
دوسرے دن صبح جب بیشتر مسافر ڈک پر ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ مرتضیٰ بھی سب سے الگ تھلگ کھڑا ہوا تھا۔ جہاز کا کپتان وہاں آیا اور مسافروں سے مخاطب ہوا’’آپ سب کی توجہ چاہوں گا، ذرا دھیان سے میری بات سنیے : جناب جابر کا کہنا ہے کہ کل شام تک دس لاکھ کے ہیرے ان کے پاس تھے جو چوری ہوگئے ہیں۔‘‘ مرتضی نے جیسے ہی یہ سنا، وہ سب کی نظروں سے چھپ کر اپنے کیبن میں پہنچ گیا۔ کپتان کہہ رہا تھا ’’اس لیے میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ جلد از جلد اپنے اپنے کیبن میں پہنچ جائیں۔ آپ سب کی تلاشی لی جائے گی۔ برا نہ مانیں یہ ہماری مجبوری ہے۔‘‘ کپتان کی بات ختم ہوتے ہی تمام مسافر سرگوشیاں کرتے ہوئے اپنے کیبنوں کی طرف چل پڑے۔
کپتان کے آدمیوں نے تمام مسافروں کی اور ان کے ساز وسامان کی تلاشی لی۔ اس کام میں دو گھنٹے صرف ہوئے۔ لیکن نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا، کپتان کے آدمیوں نے کپتان کو رپورٹ کی کہ ہیرے برآمد نہیں ہوئے۔ کپتان نے جابر کو مخاطب کیا: ’’اب کیا کہیں گے آپ؟ اگر ہیرے تھے تو آخر گئے کہاں؟‘‘ جابر بولا: ’’کپتان صاحب میرا یقین کیجیے۔ میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں، ہیرے یقینا تھے۔ چور بہت چالات معلوم ہوتا ہے۔ اس نے بڑی چالاکی سے ہیرے کہیں چھپا دیے ہیں۔‘‘ ہیروں کی چوری کے معاملے میں سبھی لوگ پریشان تھے لیکن سب سے زیادہ حیران اور پریشان خود جابر تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ ہیرے مرتضیٰ کے پاس سے برآمد ہوں گے۔ وہ ان ہیروں پر قبضہ کرلے گا اور مرتضیٰ کو ہیرے چرانے کے جرم میں سزا ہوجائے گی۔ لیکن صورتِ حال یہ تھی کہ ہیرے ہی غائب تھے۔ ہیرے برآمد نہ ہونے پر سارے مسافر جابر کو جھوٹا سمجھ رہے تھے۔ اسے لعنت ملامت کررہے تھے۔ تلاشی لیے جانے کو بھی وہ اپنی ہتک سمجھ رہے تھے۔ اس لیے اس سے ناراض تھے۔ کپتان کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ جابر مصر تھا کہ اس کے پاس ہیرے تھے۔ لیکن تلاشی میں ہیرے برآمد نہیں ہوئے تھے۔ آخر کار اس نے ہیروں کی چوری کا معاملہ بادشاہِ وقت کے حضور میں پیش کردیا۔
ہیروں کی چوری کے معاملے میں جہاز کا سارا عملہ اور تمام مسافر دربار میں پیش ہوئے۔ بادشاہ نے ان میں سے ہر ایک سے فرداً فرداً ہیروں کے بارے میں پوچھا۔ سبھی لوگوں نے ہیروں کی موجودگی کے بارے میں لاعلمی کااظہار کیا۔ بادشاہ نے جابر سے دریافت کیا : ’’کیا تم ہیروں کی موجودگی کے بارے میں کوئی گواہ یا کوئی ثبوت پیش کرسکتے ہو؟‘‘ جابر کیا بول سکتا تھا؟ سر جھکائے خاموش کھڑا رہا۔ بادشاہ نے دیکھا کے جابر خاموش ہے اس نے اپنا فیصلہ سنایا۔ ’’جابر نے جن ہیروں کی چوری کی بات کی، ان ہیروں کو جہاز پر کسی نے نہیں دیکھا۔ خود جابر بھی ہیروں کے تعلق سے کوئی گواہ یا ثبوت پیش نہیں کرسکا، اس لیے جابر کو، ہیروں کی چوری کی جھوٹی کہانی گھڑنے کے لیے، مسافروں کے سفر میں خلل ڈالنے کے لیے اوردربار کا قیمتی وقت برباد کرنے کے لیے چھ ماہ قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔‘‘
چھ ماہ بعد، جابر سزا کاٹ کر، اپنے سازوسامان کے ساتھ جیل سے باہر آیا ہو تو اس نے مرتضیٰ کو اپنا منتظر پایا: ’’تم یہاں؟‘‘ جابر نے حیرت سے کہا: ’’اپنے ہیرے لینے آیا ہوں دوست۔‘‘ مرتضیٰ نے طنزیہ کہا اور آگے بڑھ کر جابر کے سامان سے مشکیزہ نکالا اور اس کا بند کھول کر اسے الٹ دیا۔ یکے بعد دیگرے دس ہیرے اس کی ہتھیلی پر آن گرے۔ مرتضیٰ نے ہیروں کو جیب میں ڈالا اور دیکھتے ہی دیکھتے جابر کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
بچو! یہ تو تمہیں یاد ہوگا کہ جب کپتان ہیروں کی چوری کی بات مسافروں کو بتا رہا تھا تو مرتضیٰ سب کی نظروں سے چھپ کر اپنے کیبن میں پہنچ گیا تھا۔ تب ہی اس نے ہیرے جابر کے مشکیزے میں ڈال دیے تھے۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ سب مسافروں کی تلاشی لے جائے گی۔ لیکن جابر کی تلاشی نہیں لی جائے گی۔ اس طرح مرتضیٰ نے چالاکی سے کام لیا، جس کے نتیجے میں مکار جابر کو اپنے کیے کی سزا مل گئی اور مرتضیٰ کے ہیرے بھی محفوظ رہ گئے۔