ہیروشیما و ناگا ساکی کی تباہی

محمد بشیر چغتائی

۶؍ اگست ۱۹۴۵ء کو صبح سویرے لوگ جاگے تو مطلع صاف تھا۔ سورج کی کرنیںپھیلنی شروع ہوئیں تو ہلکے ہلکے بادل بھی آگئے۔ ۸ بج کر ۱۳ منٹ پر خطرے کا سائرن ہوا۔لوگ ہوشیار ہوگئے مگر حفاظتی مورچوں تک نہ پہنچ سکے۔ فضا میں تین بمبار بی-۲۹ طیارے دیکھے گئے۔ ایک طیارے نے ۸ بج کر ۱۵ منٹ پر ایک بم گرایا۔ اس بم کا نام لٹل بوائے (ننھا) تھاجو صرف ۴۲ سیکنڈ میں پھٹ گیا۔ اس ’’ننھے‘‘ بم کا وزن ۹۰۰۰ پونڈ تھا۔ یہ ۱۰ فٹ لمبا تھا اور اس کا قطر ۲۸ انچ تھا۔ بم ۸۵۰ فٹ کی بلندی سے گرایا گیا تھا۔

ایٹم بم جب پھٹتا ہے تو ہیبت ناک دھماکہ ہوتا ہے۔ تباہ کن چمک اور کڑک پیدا ہوتی ہے، زبردست دباؤ اور لرزہ پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ ہیروشیما کی فضا میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک سیکنڈ کے دس ہزارویں حصے میں آگ کا ایک گولا نمودار ہوا جو فضا میں ۴۰۰۰ فٹ تک بلند ہوگیا۔ اس کی شکل کھمبی کے پودے جیسی تھی۔ اس گولے کا اندرونی درجۂ حرارت تین لاکھ درجے فارن ہائیٹ تھا جس کی وجہ سے پورے شہر میں دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جھٹکا محسوس کیا گیا۔ یہ بم دراصل بیس ہزار ٹن ٹی این ٹی بارودی قوت کے برابر تھا جس سے بیس کھرب کیلوریز حرارت خارج ہوئی اور پورا شہر آگ کی لپیٹ میں آگیا۔

جب یہ بم گرا تو کوئی بھی یہ نہ جان سکا کہ کیا ہوا ہے۔ جاپان میں عموماً عمارتیں لکڑی کی بنائی جاتی ہیں۔ ایٹم بم کے دھماکے سے عمارتیں گرتی اور ساتھ ہی ساتھ آگ پکڑتی چلی گئیں۔ اس طرح یہ مزید آگ پھیلنے کاباعث بنتی رہیں۔ عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور دباؤ کی وجہ سے ۳۷ میل دور تک اڑتے چلے گئے جس نے انسانوں، جانوروں اور پرندوں کو زخمی کردیا۔ بعض انسانوں کے جسموں سے شیشے کے بڑے بڑے ٹکڑے تو نکال لیے گئے، مگر باریک ٹکڑے نہ نکل سکے جس سے ان کے زخم لمبے عرصے کے لیے خراب ہوگئے۔ شہر میں لگنے والی آگ دو دن تک مسلسل جلتی رہی اور جب کوئی جلنے والی چیز باقی نہ بچی تو خود بخود بجھ گئی۔ آپ ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیں: ’’چند لمحوں میں ۲۷ ریل گاڑیاں، چوبیس ٹرام کاریں، دس بسیں، ۱۸۲ ٹرک اور ۵۶ بیل گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔‘‘ (بحوالہ علاقہ پولیس رپورٹ)

ہیروشیما دریائے اوٹا کے ڈیلٹا پر واقع ہے جس کی چھ شاخیں شہر میں سے گھوم پھر کر سمندر میں گرتی ہیں۔ جس جگہ بم گرا، اس جگہ سے ایک مربع میل کے علاقے میں کچھ بھی نہ بچ سکا۔ سب انسان اور مکانات جل کر راکھ ہوگئے۔ ماسوائے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی عمارت کے جو اس وقت کئی منزلہ تھی اور اب یادگار کے طور پر باقی ہے اور اسے ’’گنبدِ بم‘‘ کا نام دیا گیاہے۔

ایٹم بم کی قیامت ٹوٹی تو شہر کے ہزاروں باسیوں نے دریاؤں میں چھلانگیں لگادیں اور پھر ابھر نہ سکے۔ دریا نعشوں سے بھرگئے۔ یوں دریاؤں نے جن کا کام ہی بہتے رہنا ہے بہنا بند کردیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس بم سے چالیس ہزار نفوس مرگئے اور تیس ہزار سے زیادہ زخمی اور ہمیشہ کے لیے مریض ہوگئے۔

یہ شہر فوجی لحاظ سے بڑا اہم تھا۔ اس میں اٹھارہ فوجی ہسپتال اور بتیس ابتدائی طبی امداد کے مراکز تھے جو سب کے سب تباہ ہوگئے۔ دوائیاں، پٹیاں، بستر سب جل کر راکھ ہوگئے۔ ۹۰ فیصد ڈاکٹر مرگئے، باقی زخمی ہوگئے۔ تمام کی تمام نرسیں موقع ہی پر ہلاک ہوگئیں۔

ریڈکراس کا ہسپتال کنکریٹ کا بنا ہوا تھا اور بم گرنے کی جگہ سے ڈیڑھ کلو میٹر دور تھا۔ ہسپتال تو گر گیا مگر کچھ اسٹاف بچ گیا جنھوں نے اپنی پروا کیے بغیر دوسروں کی مدد کرنی شروع کردی۔ دوسرا ہسپتال متسوبشی شپ یارڈ کے پاس متاثرہ جگہ سے چار پانچ کلو میٹر دور تھا۔ اس کی چھت اڑ گئی اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے لیکن وہ آگ سے محفوظ رہا۔

اس مکمل تباہی اور اچانک آفت کے باوجود دھماکے سے پینتیس منٹ بعد ہی آرمی شپنگ ڈپو کے کمانڈر نے نعشوں کو سنبھالنے، آگ بجھانے اور مریضوں کی تیمارداری کاکام شروع کردیا۔ سب سے مشکل کام شہر میں داخل ہونا تھا۔ اس کمانڈر نے ذہانت سے کام لیا اور دریا کے دہانے سے شہر میں داخل ہوکر امدادی کام شروع کردیا، اب سب سے مشکل کام زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا تھا۔ دوائیاں بہت کم تھیں اور رات کو مچھروں کی وجہ سے تکلیف مزید بڑھ جاتی تھی جن سے بچنے کے لیے کوئی سامان نہ تھا۔ صرف اخبارات تھے جن سے زخم ڈھانپ دیے جاتے۔ ۲۹؍اگست کو جب امریکی فوجی طیاروں نے سارے شہروں میں ڈی ڈی ٹی چھڑکی۔ اس وقت تک مچھروں نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی تھی۔

لوگ امدادی مراکز میں درد کی شدت سے کراہتے اور رو رو کرامداد کی ضرورت کا احساس دلاتے تھے۔زخمیوں کی دوائیوں اور علاج کے علاوہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ انہیں پاخانہ اور پیشاب کرانا تھا کیونکہ وہ چل پھر بھی نہیں سکتے تھے۔ اور امدادی کام کرنے والے بھی بہرحال انسان تھے۔ جب وہ لوگوں کو پیشاب اور پاخانے میں لت پت کراہتے اور موت کے منہ میں جاتے دیکھتے تو ان کے اپنے دل ہل جاتے۔ یہ مریض عام طور پر ننگے یا چند چیتھڑوں میں ملبوس ہوتے تھے۔ نعشوں کو سنبھالنا الگ مشکل کام تھا۔ نعشوں کو پکڑتے تو ان کا گوشت جسم سے اکھڑ کر ان کے ہاتھوں میں آجاتا اور جسم کے کسی حصے سے پکڑ کر اٹھانا مشکل ہوگیا تھا۔ ۱۲؍اگست تک پولیس اور فوج کے جوانوں نے ۳۲۹۵۹ نعشوں کو دفن کردیا، جلادیا، دریا میں بہادیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کے علاوہ کتنے لوگ دریا میں بہہ کر سمندر میں غرق ہوگئے کیونکہ ہیروشیما کی خلیج کو صاف کرنے میں چار پانچ ماہ لگ گئے تھے۔

کالی بارش کی ہلاکت آفرینی

اس ہلاکت خیز دھماکے میں ایکس ریز، گاما ریز اور نیوٹران ۴ کلومیٹر کے قطر میں پھیل گئے جس سے ان تمام انسانوں پر جو اس علاقے میں رہتے تھے، بہت برا اثر ہوا۔ ان کے خون سے سفید ذرات کی تعداد یک دم کم ہوگئی، جس کی وجہ سے معدے، پھیپھڑے، جگر اور گردے اور اعضائے رئیسہ بہت متاثر ہوئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک کلومیٹر کے علاقے میں لوگ چار پانچ دنوں ہی میں مرنے شروع ہوگئے اور ۲ کلومیٹر تک لوگ ۱۴ سے ۴۵ دن کے اندر اند رمرگئے اور اس سے دور والے لوگ لمبے عرصے تک کے لیے مختلف بیماریوں کے شکار ہوگئے۔ جن لوگوں پر ایٹمی ذرات کا بالواسطہ اثر ہوا، ان کے بال دوہفتوں کے اندر اندر اڑنے شروع ہوگئے۔ انہیں بخار، مسوڑھوں سے خون آنے اور گلے کی بیماریاں لاحق ہوگئیں اور بازوؤں اورٹانگوں پر سرخ رنگ کے دھبے ظاہر ہونے لگے۔

تابکاری کے مرض کی وجہ سے پہلے کمزوری کا احساس ہوتا، پھر ۱۰۴ ڈگری فارن ہائٹ کا بخار آپکڑتا اور خونیں یا خون کے بغیر قے اور خون کے دست آتے اور چند روز میں انسان قبروں میں جاپہنچتے۔

تابکار شعاعوں کا اثر درخت اور پودوں اور پھلوں پر بھی ہوا۔ سیاہ بارش کی شکل میں گرنے والی کالی سیاہ مٹی نے ان کی قوتِ نمو سلب کرلی۔

دراصل جس وقت ایٹم بم گرا اور دھماکہ ہوا، ہوا میں مٹی اور گرد اڑ کر آسمان کی طرف چڑھ گئی۔ دریاؤں کا پانی بھاپ بن کر اڑا۔ پندرہ منٹ کے بعد ہی یہ گرد زمین پر تابکاری اثرات سے گرنا شروع ہوگئی۔ اسے ’کالی بارش‘ کہا گیا۔ یہ بارش دن کے پونے ایک بجے تک برستی رہی جس سے درجۂ حرارت اچانک ۲۵ ڈگری سیلسیس تک گر گیا جس کی وجہ سے زخمیوں کو بہت تکلیف ہوئی۔ اس بارش سے دریاؤں اور جوہڑوں میں جو تابکار مواد گرا، اس سے مچھلیاں مرنا شروع ہوگئیں اور جن مویشیوں نے اس سے متاثرہ گھاس کھائی، ان کو پیچش اور اسہال نے آلیا۔

شہر کے جنوبی حصے کی طرف دریائے اوٹا، دریائے کیوباشی اور دریائے کینڈا کے ارد گرد گرمی کی وجہ سے ہوا کا دباؤ اچانک کم ہوگیا۔ ہوا کے بگولے اوپر اٹھنے لگے جس کی وجہ سے چھتیں اڑگئیں۔ لوہے کی ایک انچ سے موٹی چادریں دریائے اوٹا کے ارد گرد اڑتی رہیں۔ ان بگولوں میں بہت سے بچے اور جوان بھی اڑتے اور گرتے پڑتے رہے اگرچہ ان کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہوسکی۔ ہیروشیما اسٹیشن کے پاس ایک ٹرام بگولے کے زور سے خود بختی چلتی اور بل کھاتی رہی۔ دریائے کانڈ کا پانی بعض مقامات پر چھ سے آٹھ فٹ تک اوپر اٹھنے لگا۔

اس حادثے کے تین دن بعد ایک اور ایٹم بم ناگاساکی پر گرادیا گیا۔ اس کا وزن ۱۰۰۰ پونڈ تھا، اس بم کا نام ’موٹا لڑکا‘ تھا۔ اس بم نے پہلے سے بھی زیادہ تباہی پھیلائی تھی مگر جاپانی قوم، جو ’آخری آدمی‘ تک جنگ لڑنے کا تہیہ کیے ہوئے تھی، اس کے حوصلے ہنوز جوان تھے۔

پھر ریڈیو پر اعلان ہوا کہ شہنشاہِ جاپان قوم سے خطاب کریں گے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ شاید بادشاہ جنگ ختم کرنے کا اعلان کریں گے؛ چنانچہ جب ریڈیو سے اعلان ہوا کہ جاپان نے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں تو کچھ ایسے جوانمرد جاپانی بھی تھے جن کی آنکھوں نے ہیروشیما کی تباہی دیکھی تھی مگر ان کی آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ گرا تھا مگر اب ہتھیار ڈالنے کے اعلان سے ان کی چیخیں نکل گئیں۔ ان کے خیال میں جاپان کو ہتھیار نہیں ڈالنے چاہیے تھے۔

اب ہیرو شیما بہت ہی خوبصورت، ترقی یافتہ اور صنعتی شہر بن چکا ہے جبکہ ایٹمی دھماکے کے وقت لوگوں کا خیال تھا کہ اس جگہ ۷۰ سال تک کوئی درخت نہ اُگ سکے گا، تاہم اگلے ہی سال اگست میں یہاں گھاس وغیرہ اگنا شروع ہوگئی تھی۔

ہیروشیما کے عجائب گھر میں اور یادگار مقامات پر یہ نعرے درج ہیں:

’’اب یہ تجربہ نہ دہرایا جائے گا۔‘‘

’’خدا کرے کوئی اور شہر ہیروشیما نہ بن جائے۔‘‘

’’انسان کو ایٹم بم کی تباہ کاریوں سے بچایا جائے۔‘‘

’’امن کا راستہ ہیروشیما سے ہوکر جاتا ہے۔‘‘

یہ باتیں یہ نعرے اور پھر ہر سال ۶؍اگست کو ’امن میدان میںلوگوں کی دعائیں اور خواہشات جاپانی قوم کی امن پسندی کی دلیل بن گئی ہیں۔ جاپانی ہیروشیما کو مسلمانوں کے مقدس شہر ’مکہ معظمہ‘ کی طرح پرامن بلکہ امن کا پیامبر شہر دیکھنا چاہتے ہیں۔(ماخوذ : اردو ڈائجسٹ)

(مرسلہ: اقبال احمد ریاض، وانمباڑی)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146