ہیرے کی انگوٹھی

ارتضیٰ سہیل

پرانے زمانے کا قصہ ہے، ایک دریا کے کنارے ایک مچھیرا رہتا تھا۔ دن بھر وہ مچھلیاں پکڑتا، کبھی زیادہ اور کبھی کم مچھلیاں اس کے ہاتھ آتیں اور کبھی وہ بالکل خالی ہاتھ رہ جاتا۔ جو مچھلیاں وہ پکڑتا، ان میں سے کچھ تو کھانے کے لیے رکھ لیتا اور باقی بازار میں بیچ دیتا۔ اس سے جو پیسہ ملتا وہ زندگی کی دوسری ضروریات پوری کرنے میں خرچ ہوجاتا۔ اس کے پاس کبھی اتنا پیسہ نہ ہوا کہ آرام سے زندگی گزارسکے۔ بس زندگی کی گاڑی جیسے تیسے گھسٹ رہی تھی۔
مچھیرے کے تین بیٹے تھے لیکن وہ اتنے آرام طلب اور کام چور تھے کہ باپ کو محنت مشقت کرتے دیکھ کر اور گھر میں غربت دیکھ کر بھی ان کا دل کام پر آمادہ نہ ہوتا تھا۔ مچھیرے اور اس کی بیوی نے بارہا انہیں سمجھایا کہ وہ بھی اگر باپ کا ہاتھ بٹائیں تو زندگی سہولت سے گزرسکتی ہے ۔ لیکن ان کے کان پر جوں نہ رینگتی۔ ماں باپ ان کی حالت دیکھ کر افسوس کرتے۔ ایک دن مچھیرے نے تینوں بیٹوں کو بلایا اور کہا : ’’دیکھو بیٹا! میں تمہیں ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔ تمہارے دادا نے مجھے ایک ہیرے کی انگوٹھی دی تھی جس کی قیمت کئی لاکھ ہے۔ وہ مجھ سے دریا میں گرگئی اور ایک مچھلی نے اسے نگل لیا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ وہ مچھلی پکڑ لو۔‘‘
قیمتی ہیرے کی انگوٹھی کی بات سن کر لڑکوں کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر کہنے لگے: ’’بابا مچھلی تو نہ جانے کہاں چلی گئی ہوگی، اتنے بڑے دریا میں ہم اسے کہاں ڈھونڈ سکتے ہیں؟‘‘
مچھیرا بولا: ’’یہ مچھلی ہمارے علاقے کے بیس پچیس میل کے اندر ہی تیرتی رہتی ہے کیونکہ ان مچھلیوں کی خوراک یہیں ہوتی ہے۔‘‘
بس اگلے دن صبح سویرے ہی تینوں لڑکے جال اور کشتی لے کر نکل گئے۔ انہیں چونکہ کام کرنے کی عادت نہ تھی اس لیے شام تک بمشکل پانچ مچھلیاں ہی ہاتھ آئیں۔ مچھیرے نے ان کے پیٹ چاک کیے تو کچھ نہ نکلا۔ لڑکے مایوس ہوگئے۔ مگر مچھیرے نے انہیں تسلی دی، کوئی بات نہیں، آج نہیں تو کل وہ مچھلی ضرور تمہارے ہاتھ آئے گی۔ ایسا کرتے ہیں دو مچھلیاں ہم پکالیتے ہیں اور تین بازار میںبیچ آتے ہیں۔‘‘ غرض اب روز یہی ہونے لگا۔ لڑکے صبح سویرے جال لے کر نکل جاتے اور شام تک کافی مچھلیاں پکڑ کی لے آتے۔ ان کا پیٹ چیر کر دیکھتے۔ جب کچھ نہ ملتا تو کچھ مچھلیاں کھانے کے لیے رکھ لیتے اور باقی بازار میں بیچ دیتے۔ دن یونہی گزرتے رہے۔ لڑکے اب مچھلیاں پکڑنے کے ماہر ہوگئے تھے۔ انہیں اب کام کرنے میں لطف آنے لگا تھا۔ جب کافی عرصہ گزرگیا تو لڑکے مایوس ہوگئے۔ انھوں نے باپ سے کہا: بابا ہمارا خیال ہے کہ وہ انگوٹھی ہمیں کبھی نہیں ملے گی۔‘‘
’’لیکن وہ انگوٹھی تو تمہیں مل چکی ہے۔‘‘ مچھیرے نے کہا۔ ’’کہاں ہے انگوٹھی؟‘‘ لڑکوں نے حیرت سے پوچھا۔
مچھیرا اٹھا اور اندر سے وہ برتن نکال لایا جس میں وہ مچھلیوں سے ہونے والی آمدنی چھپا کر رکھا کرتا تھا۔ اس نے برتن اوندھا کیا تو فرش پرسکوں کا ڈھیر لگ گیا۔ ’’دیکھو یہ ہے تمہاری محنت کی کمائی جس سے تم ایک نہیں بلکہ کئی انگوٹھیاں بنواسکتے ہو۔ میرے بچو! یاد رکھو محنت سے بڑھ کر اور کوئی چیز قیمتی نہیں ہے۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں