پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔اس کے بغیر انسان کا زندہ رہنا ناممکنات میں سے ہے۔لیکن اگر یہی پانی صاف اور جراثیم سے پاک حالت میں انسان کو میسر نہ ہو تو مہلک بیماریوں اور انسان کی ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔صاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے ایک ایسی ہی مہلک بیماری تیزی سے پھیلتی جارہی ہے۔اس بیماری کا نام ہیپاٹائٹس(Hepatitis)ہے۔یہ ایک قسم کا وائرس ہے جو گندے پانی میں پنپتا ہے۔ہیپاٹائٹس جرثومے پانچ قسم کے ہیں: ہیپاٹائٹس اے وائرس(HAV)، ہیپاٹائٹس بی(HBV)، ہیپاٹائٹس سی(HCV)، ہیپاٹائٹس ڈی(HDV)، اور ہیپاٹائٹس ای (HEV)۔ جن میں بی اور سی وائرس سب سے زیادہ عام ہیں اور ان کا اثر جگرکے کینسر یا جگر کی سختی(Liver Cirrhosis and cancer) کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
دنیا کے ہر بارہ میں سے ایک شخص ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثر ہے۔ہیپاٹائٹس بی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر کے ہر تین میں سے ایک کو اپنا شکار بنا لیتی ہے۔ طب وصحت کے ماہرین کے مطابق صاف اور بے عیب پانی مہیا نہ ہوپانے کی وجہ سے ہندوستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے۔اگر چہ ۹۰ فی صد متاثرین اس بیماری سے نجات پا جاتے ہیں لیکن ۱۰ فی صد لوگوں کا یہ مرض قدیم ہیپاٹائٹس بی(CHB) کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور آہستہ آہستہ سیرہوسِس(Cirrhosis) اور کینسر میں بدل جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جگر کے کینسر سے متاثرین میں سے ۶۰ فی صد وہ لوگ ہیں جنھیں یہ مرض ہیپاٹائٹس بی کی وجہ سے ہوا ہے۔غیر شفاف پانی کے علاوہ جنسی اختلاط کی وجہ سے بھی ہیپاٹائٹس بی پھیلتا ہے۔بچوں میں خاص طور ماں کے ذریعے بھی یہ وائرس منتقل ہوجاتا ہے۔اس لیے حاملہ عورتوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ انھیں اس وائرس کی جانچ کرالینی چاہیے اور اس کا حفاظتی ٹیکہ بروقت لگوا لینا چاہیے۔ایمس(AIIMS)کے ایک سینئر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ انجیکشن کے ذریعے بھی یہ وائرس منتقل ہوسکتا ہے۔جی بی پنت ہاسپیٹل میں گیسٹرواینٹولوجی شعبے کے سربراہ ڈاکٹر اے ایس پوری کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے بھی کیس آئے ہیںجن میں ہیپاٹائٹس سی کا سبب جراثیم زدہ ٹیٹو یا آلودہ روشنائی کا استعمال تھا۔ہیپاٹائٹس سی ایک خفیہ وائرس ہے جو برسوں سے تک جگر کے اندر موجود رہ کر سیرہوسس، کینسر یا جگر کی عدم فعالیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔جنوبی ایشیا میں ہیپاٹائٹس کے جراثیم ایچ آئی وی(HIV) سے تین گنا زیادہ غالب ہیں لیکن ابتدائی مراحل میں چوں کہ ان کے اثرات ظاہر نہیں ہوتے ہیں اس لیے ہیپاٹائٹس کے جراثیم سے متاثرین میں سے تقریباً ۶۰ فی صد لوگوں کے بارے میں اس وقت تک نہیں معلوم ہو پاتا ہے جب تک سیرہوسس اور جگر کے کینسر کی علامتیں ظاہر نہ ہوجائیں۔
قدیم ہیپاٹائٹس بی CHBکی علامتیں
جگر کے اندر پنپنے والے اس جرثومے کا شکار ہونے والا شخص ۴۵ دن سے ۱۶۰ دن کے دوران بخار ، جی متلانا، بھوک کی کمی، قے،اور یرقان جیسی بیماریوں سے متاثر رہتا ہے۔اگر ایک سے تین ماہ کے دوران سے صورت حال ختم ہوجائے تو بہتر ورنہ اس کے بعد ممکن ہے وہ سی ایچ بی کا شکار ہوجائے۔ ہیپاٹائٹس بی کے جرثومے سے متاثرین میں سے صرف ۳۰ فی صد لوگوں میں ہی اس قسم کی علامتیں پائی جاتی ہیں، باقی لوگ یا تو اس بیماری سے شفا یاب ہوجاتے ہیں یاکسی علامت کے ظاہر ہوئے بغیر ہی وہ کسی خطرناک صورت حال سے دوچار ہوسکتا ہے۔ گویا سی ایچ بی ایک خاموش جان لیوا (Silent Killer) بیماری ہے۔
خطرہ
اس مرض کی کئی وجوہ ہیں۔جنسی بے راہ روی، جنسی اختلاط سے بھی اس مرض کے ایک دوسرے میں منتقل ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔کسی کو اگر اس بیماری سے متاثر شخص کا خون چڑھا دیا جائے تو بھی یہ بیماری منتقل ہوسکتی ہے۔غیر محتاط ھریقے سے انجیکشن دینے، جسم کے کسی حصے پر ٹیٹو کھدوانے، ریزر، سرجری، نسوں میں ڈالی جانے والی دوا یا پانی وغیرہ چڑھانے سے بھی یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے۔
ہندوستان میں اس مرض کی صورت حال
چین کے بعد ہندوستان وہ ملک ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ سی ایچ بی سے متاثر لوگوں کی تعداد ہے۔یہاں ۲ سے لے کر ۸ فی صد لوگوں کو اس کا شکار ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔اس وقت ملک میں اس وائرس سے متاثر لوگوںکی تعداد ۴کروڑ سے ۵ کروڑ کے درمیان ہے۔ہر سال ۰۰۰،۷۵،۲ نومولود بچے ایچ بی وی کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔
خواتین کو لاحق خطرہ
قدیم ہیپاٹائٹس بی(CHB)سے متاثر ہونے کا خطرہ خواتین کو دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔حاملہ عورتوں میں اس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے ان کے ذریعے بچوں میں منتقل ہونے کا اندیشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ولادت کے پہلے مہینے کے دوران کچھ خواتین میں اس کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔
کس حد تک قابل علاج
سی ایچ بی سے متاثر کم لوگ ہی اس سے پوری طرح ٹھیک ہوپاتے ہیں۔سی ایچ بی کا علاج جگر کے اندر وائرس کی افزائش کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ سی ایچ بی خطرناک صورت اختیار نہ کرسکے۔
کیا اس کا سدّ باب ممکن ہے
خون کی عام جانچ کے ذریعے اس کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔اگر آپ کے خون کی جانچ کا نتیجہ منفی آتا ہے تو بھی آپ کو کسی فزیشین سے مل کر اس سے معلوم کرنا چاہیے کہ آیا خود کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے ویکسین کی ضرورت ہے یا نہیں۔اس سے بچنے اور خود کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت سی احتیاط بھی برتی جاسکتی ہیں۔
اگر آپ ۶ ماہ سے ایچ بی ایس اے جی پازیٹیو ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ سی ایچ بی کا شکار ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ سی ایچ بی سے متاثر تمام ہی لوگوں کو فوری علاج کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اگر ایک بار آپ سی ایچ بی سے متاثر ہوچکے ہیں تو آپ کو مناسب وقفے سے جانچ کراتے رہنا چاہیے۔
نومولود بچوں کی حفاظت
کوئی خاتون اگر ماں بننے جارہی ہیں تو ہیپاٹائٹس وائرس کے تعلق سے جانچ لازماً کرالینی چاہیے۔ اگر وہ وائرس کی زد میں نہیں آئی ہیں توبھی ویکسین لے سکتی ہیں اور اپنے آنے والے بچے کی حفاظت کرسکتی ہیں۔اور اگر وائرس کی زد میں ہیں تو علاج کے لیے ڈاکٹر سے مشورہ ضروری ہے۔ بچے کی ولادت کے فوری بعد بچے کو ہیپاٹائٹس بی کا انجیکشن لگانا بھی ضروری ہے۔ اس کے بعد ۱۲ گھنٹوں کے اندرون ویکسین کی پہلی خوراک دی جانی چاہیے۔
——