ہیپا ٹائٹس سی جگر کی ایک بیماری ہے جو ہیپاٹائٹس سی وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے۔
ہیپاٹائٹس وائرس کئی اقسام کے ہوتے ہیں مثلاً ہیپاٹائٹس اے، بی اور سی جو کہ جگر کو متاثر کرسکتے ہیں۔
کسی کو ہیپاٹائٹس سی کی بیماری اس صورت میں لگ سکتی ہے جب کسی ایسے شخص کا خون اس کے دورانِ خون میں آجائے جو اس وائرس سے متاثرہ ہو۔ اس طرح یہ وائرس آدمی کے جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جگر ایک ایسا عضو ہے جو انسان کی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔
ہیپاٹائٹس سی سے بچاؤ کا کوئی ٹیکہ نہیں۔ اس وائرس سے متاثرہ کچھ لوگ وائرس لگنے کے چھ مہینے کے اندر اندر خود بخود اس انفیکشن میں بدل جاتی ہے۔
لیکن ہیپاٹائٹس سی کا علاج موجود ہے جو کہ جسم کو وائرس سے نجات دلا سکتا ہے۔ جب ایک بار وائرس کا خاتمہ ہوجائے تو پھر دوسروں کو آدمی سے وائرس نہیں لگ سکتا۔ تاہم اگر احتیاط نہ کی جائے تو یہ وائرس دوبارہ لگ سکتا ہے۔
ہیپاٹائٹس سی کس طرح ہیپاٹائٹس اے اور بی سے مختلف ہے؟
ہیپاٹائٹس اے اور بی کے حفاظتی ٹیکے موجود ہیں، لیکن ہیپاٹائٹس سی کا نہیں۔ ہیپاٹائٹس اے کی بیماری اس وقت لگتی ہے جب فضلاتی مواد آلودہ پانی، خوراک یا دیگر مشروبات کے ذریعے نگل لیا جائے۔ ہیپاٹائٹس اے کا کوئی علاج نہیں۔ عام طور پر یہ بیماری خود بخود دور ہو جاتی ہے اور جسم آئندہ کے لیے بیماری سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
ہیپاٹائٹس بی اس وقت پھیلتا ہے جب کسی ایسے شخص کا خون یا جنسی عمل میں پیدا ہونے والی رطوبتیں، جسے وائرس لگ چکا ہو دوسرے شخص کے خون سے رابطے میں آجائے۔ یا پھر دوران پیدائش بچے کو لگ سکتا ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پائی جانے والی بیماری ہے اور آسانی سے ایک شخص سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ زیادہ تر افراد جنہیں ہیپاٹائٹس بی وائرس لگ جائے خود بخود اس سے نجات حاصل کرلیتے ہیں اور آئندہ کے لیے بیماری سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو دائمی انفیکشن ہو جاتا ہے، جس پر علاج کے ذریعے قابو تو پایا جاسکتا ہے لیکن اسے مکمل طور پر ختم نہں کیا جاسکتا۔
کچھ جگر کے بارے میں
جگر آپ کے جسم میں پسلیوں کے نیچے دائیں جانب ہوتا ہے۔ یہ انسانی جسم کا سب سے بڑا اندرونی عضو ہے۔ جگر کی اہمیت یہ ہے کہ یہ:
٭ جسم میں داخل ہونے والے کیمیائی اور دیگر مادوں کو چھانتا ہے۔
٭ہاضمے میں مدد دیتا ہے۔
٭ خون اور کئی لحمیات پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے
جگر ایک بہت مضبوط عضو ہے جو کہ اپنے آپ کو خود ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود وائرس، شراب، کیمیائی مادے اور منشیات جگر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور جگر کی کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرسکتے ہیں۔
جگر کی حفاظت ضروری ہے کیوں کہ انسان اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔
ہیپاٹائٹس سی خون سے خون کے رابطے کے نتیجے میں پھیلتا ہے۔
ہیپاٹائٹس سی اس وقت پھیلتا ہے جب کسی وائرس زدہ شخص کا خون کسی دوسرے شخص کے دورانِ خون میں چلا جائے۔ یہ عام طور پر پھٹی ہوئی جلد اور ناک، منہ اور مقعد کی پھٹی ہوئی نرم باریک جھلیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ ہیپاٹائٹس سی کا وائرس خاصا توانا ہوتا ہے اور جسم سے باہر کئی دن تک رہ سکتا ہے۔ اس لیے یہ وائرس خشک خون کے ذریعے بھی منتقل ہوسکتا ہے۔
یہ کچھ طریقے ہیں جن سے یہ وائرس آدمی کو لگ سکتا ہے:
غیر محفوظ طبی عمل، جیسے کہ آپریشن، خون کی منتقلی، ٹیکے لگانے کا سامان جو جراثیم سے پاک نہ ہو۔
مشترکہ سرنجوں اور دیگر سامان سے، جو ادویات اور منشیات بنانے اور لگانے کے لیے استعمال کیا گیا ہو اور اس پر خون موجود ہو۔ بعض اوقات خون کی مقدار اتنی کم ہوسکتی ہے کہ نظر بھی نہ آئے۔ اسی طرح منشیات کے لیے استعمال ہونے والا سامان، شیشے کے پائپ، نلیاں یا پھر کرنسی نوٹ، جو لوگ منشیات کو سانس یا ناک کے ذریعے کھینچنے میں استعمال کرتے ہیں، ان پر بھی خون موجود ہوسکتا ہے جس کی وجہ ناک سے آنے والے خون کے قطرے یا پھٹا ہوا ہونٹ ہوسکتے ہیں۔
ٹیٹو بنانے، جسم چھید نے یا آکو پنکچر کا سامان، سیاہی پھر دیگر سامان اگر جراثیم سے پاک کیے بغیر دوبارہ استعمال کیا جائے تو اس پر بھی خون موجود ہوسکتا ہے، جس سے ہیپاٹائٹس سی کی منتقلی کا خطرہ ہوتا ہے۔
ذاتی سامان کا مشترکہ استعمال، مثال کے طور پر استرا، ریزر، دانت صاف کرنے کا برش یا ناخن کاٹنے کے آلات پر بھی اگر خون موجود ہو تو وہ ہیپاٹائٹس سی کی منتقلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسی طرح اس بات کا بھی امکان ہے کہ نائی کی دکان میں استعمال ہونے والا سامان بھی جراثیم سے پاک نہ کیا گیا ہو۔
حمل یا دوران پیدائش بچے کو ہیپاٹائٹس سی کی منتقلی کے بہت ہی کم امکانات ہوتے ہیں۔ چھاتی سے دودھ پلانے کے عمل میں بھی وائرس کی منتقلی کا کوئی امکان نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ چھاتی پر کوئی زخم ہو یا جلد پھٹی ہوئی ہو۔
ٹیسٹ کروائیں
صرف ٹیسٹ کروا کر ہی پتا چل سکتا ہے کہ کسی کو ہیپاٹائٹس سی ہے یا نہیں۔ ہیپاٹائٹس سی کا پتا چلانے کے لیے دو ٹیسٹ کروانے پڑتے ہیں:
ہیپاٹائٹس سی اینٹی باڈی ٹیسٹ:
یہ ٹیسٹ خون میں اینٹی باڈیز کو تلاش کرتا ہے جو جسم میں ہیپاٹائٹس سی وائرس کا سامنا کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ وائرس کا سامنا کرنے کے بعد جسم کو اتنی اینٹی باڈیز پیدا کرنے میں جو ٹیسٹ میں نظر آسکیں، چھ ہفتے سے چھ مہینے کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ یا علاج کے نتیجے میں وائرس سے چھٹکارا حاصل کرلیتا ہے تو بھی خون میں یہ اینٹی باڈیز ہمیشہ موجود رہیں گی۔ جسم میں اینٹی باڈیز کی موجودگی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی شخص آگے وائرس منتقل کرسکتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ خون میں وائرس موجود ہے یا نہیں ایک دوسرا ٹیسٹ درکار ہوتا ہے۔
دوسرا ٹیسٹ وائرس کا پتا لگانے کا ٹیسٹ:
پہلا مرحلہ: شدید انفیکشن (پہلے چھ مہینے)
ہیپاٹائٹس سی وائرس خون میں داخل ہوکر جگر تک پہنچ جاتا ہے اور پھر جگر کے خلیوں میں انفیکشن پیدا کر کے پھیلنا شروع کردیتا ہے۔ تقریباً بیس فیصد لوگ وائرس لگنے کے چند مہینوں کے اندر اس سے خود بخود نجات حاصل کرلیتے ہیں۔
دوسرا مرحلہ: دائمی انفکشن
تقریباً ۸۰ فیصد لوگ جو اس وائرس کا شکار ہوتے ہیں خود اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتے اور دائمی انفیکشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
تیسرا مرحلہ: ورم اور فائبروسس
وائرس جگر کے خلیوں کو مارتے ہوئے تیزی سے پھیلتا ہے اور یہ نقصان جگر کے ورم کا سبب بنتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نقصان جگر کے ٹشو پر زخم پیدا کر دیتا ہے، جس کو ’’فائبروسس‘‘ کہتے ہیں۔ وائرس بہت آہستہ آہستہ پھیلتا ہے، اکثر ۲۰ سے ۳۰ سال کے دورانیہ میں، او رہوسکتا ہے کہ اس دوران کسی قسم کی بھی علامات ظاہر نہ ہوں۔
چوتھا مرحلہ: سیروسس
دائمی انفیکشن کے ۲۰ سال سے ۳۰ سال کے بعد اندازاً ہر پانچ متاثرہ افراد میں سے ایک کو جگر پر گہرے زخم اور جگر کی سختی کا مرض ہوسکتا ہے جس کو سیروسس کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا جگر پھر بھی صحیح کام کرتا رہتا ہے اور کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، جب کہ کچھ لوگوں میں سیروسس جگر کے عام افعال کو متاثر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بیماری کے اس مرحلے پر زخموں کے ہر طرف پھیلنے سے جگر سکڑ جاتا ہے اور جگر کی ناکامی کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ سیروسس میں مبتلا پانچ سے دس فیصد لوگوں کو جگر کا سرطان (کینسر) ہوسکتا ہے۔
علاج
عام اینٹی بائیوٹک ادویات اس وائرس کو ختم نہیں کرسکتیں لیکن کچھ اور مخصوص ادویات جن کو اینٹی وائرل ادویات کہا جاتا ہے، کے ذریعے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ہیپاٹائٹس سی کا علاج ممکن ہے اور وائرس کو جسم سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ علاج کا دورانیہ چھ مہینے سے ایک سال کے درمیان ہے اور آج کل اس میں دو ادویات کا استعمال شامل ہے: پیگ، انٹر فیرون (Peg Interferon) اور ریبا وائرن (Rbavirin)۔ علاج اپنے ضمنی اثرات کی وجہ سے بہت مشکل ہوسکتا ہے لیکن ایک سال کا علاج انسان کی باقی ماندہ زندگی کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ہیپاٹائٹس سی کے علاج کی کامیابی پر بہت سے عوامل اثر انداز ہوسکتے ہیں، جس میں وائرس کی قسم، جگر کے نقصان کا درجہ، جسم میں وائرس کی مقدار، عمر، جسمانی وزن، خاندانی پس منظر، ادویات میں باقاعدگی، شراب نوشی، خاندان اور دوستوں کا سہارا شامل ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ علاج شروع کرنے سے پہلے آدمی اپنے فیملی ڈاکٹر، دوستوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرے۔ ڈاکٹر علاج شروع کرنے سے پہلے، دوران میں او رچھ مہینے بعد مریض کی حالت کا اندازہ لگاتے رہیں گے۔ وہ مریض کے جگر کی صحت او راس کے جسم میں وائرس کی مقدار کا حساب رکھیں گے۔ مریض کو مندرجہ ذیل چیزوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا:
علاج کے ضمنی اثرات، کام سے چھٹی، علاج کا خرچ، صحت کے کوئی دیگر مسائل، جن کی دیکھ بھال کی ضرورت ہو۔ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا خاندان کے افراد یا دوست ان سارے معاملات میں کوئی مدد کرسکتے ہیں اور مریض کا جسمانی اور ذہنی سہارا بن سکتے ہیں۔ علاج شروع کرنے کا فیصلہ کوئی شخص اپنے ڈاکٹر اور ان لوگوں کے مشورے سے کرتا ہے، جو اس کے مددگار ہوتے ہیں۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ علاج وائرس سے استثنیٰ فراہم نہیں کرتا، اور کوئی شخص اپنے پرخطر طرزِ عمل کے باعث وائرس سے دوبارہ متاثر ہوسکتا ہے۔ lll