یاترا سے پہلے

شاہد انور

وہ جب گاؤں سے چلا تھا تو لہراتے ہوئے ہاتھوں کو یہ کہہ کر چلا تھا کہ واپسی میں ہر ایک کے لیے مہکتے ہوئے پھول لائے گا۔
اس کے سفر کی تیاریوں نے خوب ہنگامہ مچایا۔ باپ نے اپنی آنکھیں مضبوطی سے بند کرلیں اور سارے خواب اندر ہی اندر بھینچ لیے۔ ماں نے رو رو کر اس کا راستہ روکا کہ ’پگلے گیان تو گھر کے اندر پلتا ہے، تو باہر کہاں چلا؟‘‘ بہنیں اپنا لمبا لمبا قد لیے نظروں کے سامنے بیسوں بار پھریں پھر بھی اس نے اپنی ہٹ نہ چھوڑی۔ باہر آنگن میں نکل آیا اور آسمان کو دور تک گھورتا رہا۔ جب سورج کا کوئی بھی ٹھکانہ نہ ملا، تو اس پگڈنڈی پر ہولیا جو گاؤں کے گہرے، اندھیرے جنگلوں سے ملاتی تھی کہ سورج کا کیا بھروسا۔
جب چلا تھا تو لہراتے ہوئے ہاتھوں نے بہت دور تک اس کے سرپر سایہ کیے رکھا اور پھر جنگل کے سناٹے میں کہیں گم ہوگئے۔اسے سائے کی چاہ بھی نہ رہی کہ اسے تو بس چلنا تھا… چلتے رہنا تھا۔
اور یوں وہ چلتا رہا… بڑے بڑے دریا پار کیے۔ پہاڑوں کی چڑھائیوں اور اتار کو تو اتنی بار طے کیا کہ اب وہ سارے پہاڑ یاد ہوچلے تھے۔ ایک جنگل سے دوسرے جنگل… ہر سمت پھرتا رہا۔ چہروں نے پیچھا کیا تو راستے بدل لیے۔ پنچھیوں نے پکارا تو منہ موڑ لیا۔ ہواؤں نے بدن میں گدگدی کی تو اپنے نوکیلے ناخنوں سے سارے بدن کو کھرچ کھرچ ڈالا۔ پتھروں اور کانٹوں سے اپنے پیروں کو لہولہان کیے چلتا رہا کہ اسے مہکتے ہوئے پھول درکار تھے۔ لیکن سارا سماں تو جیسے اندھیرے سے لپٹا پڑا تھا اور جنگل مردوں کی سڑاند اگل رہے تھے۔
روشنی کے ایک چھوٹے سے ہیولے نے اس کے قدم اچانک تھام لیے۔ چاروں طرف اتنا گہرا اندھیرا اور اسی چھوٹے سے دائرے میں اتنا سفید اجالا۔ وہ حیرت میں پڑگیا۔ اپنی آنکھیں جلدی جلدی جھپکائیں، لیکن منظر تو سچا تھا۔ سامنے ایک شخص دھونی رمائے بیٹھا تھا۔ لمبی جٹائیں شانے سے پھسلتی ہوئی زمیں پر دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ داڑھی کی نوک گھٹنوں کو چھو رہی تھی، سادھو کی آنکھیں دھیان میں اس طرح مگن تھیں جیسے اُن میں ماضی، حال اور مستقبل تینوں پڑے پڑے سستارہے ہوں۔ مسافر کے من نے دھیرے سے کہا: ’’ہونا ہو، یہی گیان کا سروت ہے۔‘‘
وہ سادھو کے چرنوں سے لپٹ پڑا اور دیر تک لپٹا رہا۔
’’بالک کیا چاہتا ہے؟‘‘ سادھو نے اپنی آنکھیں کھولیں، جہاں برسوں کا تپ جگمگا رہا تھا۔
’’مہاراج مجھے گیان کا پرکاش چاہیے۔ میرا من بڑا اشانت ہے۔‘‘
’’کیسی اشانتی بالک؟‘‘
’’مہاراج سارے سنسار میں کیول کٹے ہوئے سروں کی کھیتی ہوتی ہے۔ پورا وشو بھاری ٹینکوں کے موٹے موٹے چینوں سے بندھا پڑا ہے۔ پتا اپنے پتروں کے بازو کچل رہے ہیں۔ ماتائیں اپنے شریر کا ٹکڑا ٹکڑا کرکے جانوروں کے آگے ڈال دیتی ہیں۔ بہنیں ساون میں ڈرنے لگی ہیں اور میرا من بڑا اشانت ہے۔ مہاراج! گاؤں کی کسی سندری کی طرف جب بھی ہاتھ پھیلاتا ہوں وہ اپنے شریر سے کپڑے ہٹانے لگتی ہے… میں بڑا وچلت ہورہا ہوں…‘‘
’’ہنھ!‘‘ مہاراج نے ایک تیز ہنکار بھری اور اپنے دھیان میں لِین ہوگئے۔ وہ ان کے قدموں سے لپٹا پڑا رہا، جب تک کہ مہاراج نے آنکھیں دوبارہ نہ کھولیں۔
’’جا شِشیہ! اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھ اور پورے سنسار کا ادھین کر، یہی تیری شکچھا ہے۔‘‘
وہ گرو کا مکھ حیرت سے تکنے لگا۔ اتنی معمولی شکچھا کے لیے اس نے، کیسے کیسے کٹھن سمے جھیلے، لیکن گرو کی آگیا اور من کی اشانتی نے مل کر دباؤ ڈالا اور وہ واپس پلٹ پڑا۔
لوٹا تو پایا کہ اندھیارے اور بھی گہرے ہوچکے تھے۔ دریاؤں کا پانی گدلا گیا تھا۔ ہوائیں اور بھی سڑچکی تھیں۔ پہاڑوں کی چٹانیں پہلے سے زیادہ پینی ہوگئی تھیں اور دور دور تک پنچھیوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ وہ چلتا رہا… اور مدتوں چلتا رہا۔
مدتوں کی کوشش سے اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں بڑی کرلیں اور جب اس کے کانوں کے سوراخ بھی پھیل گئے تو ایک منظر خود بخود اس کے سامنے کھل گیا۔
ایک مداری نما شخص بڑا سا دربار سجائے بالکل اس کے سامنے بیٹھا تھا اور نیچے کئی پتلے ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے، چاروں طرف بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ مسافر نے اپنے پھٹے کپڑوں کا ایک رومال سا بنایا اور ناک پر باندھ کر کھیل دیکھنے لگا۔ بہت جلد ہی سارا کھیل اس کی سمجھ میں آگیا۔
مداری اپنے چمڑے کے تھیلے سے بار بار چاندی کا ایک ڈمرو نکالتا اور آسمان کی طرف رخ کرکے زور زور سے ہلاتا۔ ایک عجیب سی آواز کے فضا میں پھیلتے ہی پتلے ایک دوسرے سے بھِڑ پڑتے اور آپس میں خوب دھینگا مشتی کرتے۔ تھوڑی ہی دیر میں پتلوں کے جسم سے اُن کے سر، ہاتھ اور آنکھیں کٹ کٹ کر الگ ہوجاتیں اور پھر تھوڑی دیر شانتی رہتی۔ مداری پھر اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتا اور پتلے اپنے سر، ہاتھ اور آنکھیں چن چن کر اپنے جسم پر فٹ کرنے لگتے، اور چاندی کے ڈمرو کی آواز سنتے ہی وہی سلسلہ شروع ہوجاتا۔ فضا پر بدبو جمی رہتی۔
مسافر یہ کھیل تب تک دیکھتا رہے، جب تک اس کی آنکھوں نے ساتھ دیا اور جب آنکھیں دھندلانے لگیں تو مداری کے چہرے کو یاد کرنا چاہا، لیکن یہ کیا؟ مداری کے جسم پر تو نہ جانے کتنے چہرے لگے تھے۔ وہ جب بھی کوئی ایک چہرہ اپنی گرفت میں لینا چاہتا، سارے چہرے آپس میں گڈمڈ ہونے لگتے۔ اسے پتا بھی نہیں چلا کہ یہ سب کب اور کیسے ہوگیا۔ جب کچھ نہ سوجھا تو گرو کا دھیان کرنے لگا۔ گرو کے پرکٹ ہوتے ہی ان کے قدموں میں لوٹنے لگا۔
’’مہاراج! یہ کیسی دبدھا ہے؟ سنسار کے دکھ کے پیچھے اتنے سارے چہرے؟‘‘
’’مورکھ! سب چہرے ایک جیسے ہیں۔ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھ!‘‘ اور گرو کے انتردھیان ہوتے ہی اس نے دیکھا کہ لہراتے ہوئے ہاتھوں کا عکس اس کی پشت پر پھیل چکا ہے۔ اس کے قدموں نے زمین پر گرفت سخت کردی کہ سفر تو اب شروع ہونا تھا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146