شاہدہ بیگم کی بھانجی عرشی کی شادی تھی ان کی بہن رضیہ کا روز فون آرہا تھا لیکن اشعر کو اسپتال سے فرصت ہی نہیں مل پارہی تھی اور شاہدہ بیگم اس کے گھر آتے ہی رضیہ کے گھر جانے کا تقاضہ کرتیں۔ یہاں تک کہ شادی کا دن آگیا۔ اشعر دوپہر میں ہی گھر آگیا تھا۔ ’’امی جلدی سے تیار ہوجائیے عرشی کی شادی میں نہیں چلنا ہے کیا۔ ‘‘اور شاہدہ بیگم کو تو ایسا لگا جیسے ان کی دلی مراد بر آگئی ہو۔ وہ جلدی سے تیار ہوکر گیٹ پر پہنچ گئیں۔اور اشعر کا انتظار کرنے لگیں۔
دھوپ بہت تیز تھی اور لوٗ کا یہ عالم تھا کہ چاروں طرف دھول ہی دھول اڑ رہی تھی۔ سامنے کھڑے اشوک کے پیڑ لوٗ کی وجہ سے جھکے جارہے تھے۔ سامنے بن رہے گھر کی مزدور عورتوں کی آنکھیں دھول سے بند ہورہی تھی لیکن وہ اپنے سر پر اینٹوں کا ڈھیر لیے بے فکری سے جارہی تھیں اور بار بار اپنی ساڑھی کے آنچل سے اپنے چہرے کی دھول صاف کررہی تھیں۔ان کے لیے اس کے علاوہ اور چارہ ہی کیا تھا۔ وہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے اور اپنے بچوں کو زندگی دینے کے لیے اس کے علاوہ کر ہی کیا سکتی تھیں۔ موسم کے نشیب و فراز، گرمی سردی اور لوٗ کی تپش تو ان کے لیے ہوتی ہے جو شکم سیر ہوتے ہیں۔ اور مرد و عورت کے درمیان مساوات کے لیے نعرے لگاتے اور سیمینار کرتے ہیں۔ وہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی اپنے نیم لباس جسم پر اینٹیں ڈھونے اور موسم سے لڑنے کی مکمل طور پر عادی بن چکی تھیں۔
وہ یہ دیکھ ہی رہی تھیں کہ اتنے میں ان کے دروازے پر ایک رکشہ رکا جس میں ایک معصوم اور نازک سی لڑکی ایک بوڑھے آدمی کے گھٹنے پر سر رکھے لیٹی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اس کا چہرہ دھوپ کی شدت سے سرخ ہورہا تھا اور اس کے گلابی ہونٹ نیلے پڑگئے تھے۔ ’’بی بی جی ڈاکٹر صاحب ہیں۔‘‘ بوڑھے آدمی نے رکشہ میں بیٹھے بیٹھے ہی سوال کیا۔
’’کیوں کیا کام ہے؟‘‘ شاہدہ بیگم نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
’’بی بی جی میری بٹیا بہت بیمار ہے میں اسے اسپتال سے لے کر آرہا ہوں وہاں پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب گھر پر ہی ہیں۔‘‘ بوڑھے کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ مگر اس کی تکلیف اور بے چارگی شاہدہ بیگم کے دل پر اثر نہ کرسکی اور انھوں نے صاف جھوٹ بولتے ہوئے کہا: ’’لیکن وہ تو ابھی ابھی گھر سے نکل گئے۔‘‘
’’بی بی جی پھون کرکے بلا لیجیے بہت مجبوری میں آیا ہوں۔‘‘ اس نے اپنے جھریوں بھرے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر ماتھے پر لگاتے ہوئے کہا۔
’’تم جاہل لوگوں کی سمجھ میں ایک بار میں بات کیوں نہیں آتی۔ کہہ دیا نا کہ ڈاکٹر صاحب گھر پر نہیں ہیں۔‘‘ شاہدہ بیگم نے تلخ لہجے میں کہا۔
’’بی بی جی میں آپ کے پیر پڑتا ہوں یہ میرے بڑھاپے کا سہارا ہے، میری اکلوتی بیٹی۔ میرا اس کے علاوہ کوئی سہارا نہیں ہے۔‘‘ بوڑھے نے اپنی بیٹی کا چہرہ اپنی دھوتی سے صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’کہہ دیا کہ نہیں ہیں اس میں میں کیا کرسکتی ہوں؟‘‘ ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
’’چل بھائی اس کی کسمت میں جندگی ہووے گی تو جندہ رہے گی۔‘‘ اس نے رکشہ والے کو چلنے کا اشارہ کیا۔ اس وقت اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بکھر رہی تھیں اور پھر وہ چل دیا، جہاں سے آیا تھا وہیں کے لیے۔
’’نہ جانے کہاں سے لوگ چلے آتے ہیں پریشان کرنے کے لیے اور شہر کے سارے ڈاکٹر کیا مرگئے۔‘‘ وہ بڑ بڑارہی تھیں کہ اشعر باہر نکل آیا۔
’’کیا ہوا امی کیوں ناراض ہیں۔ تیار ہوگئیں آپ؟‘‘ اشعر نے دروازے سے باہر آتے ہوئے کہا۔
’’ہاں تیار ہوگئی، چلو بیٹا دھوپ بہت تیز ہے اور گرمی … جیسے آسمان سے آگ برستی ہو۔‘‘
’’کون تھا امی؟‘‘ اس نے تجسس کے انداز میں پھر سوال کیا۔
’’ارے تھا ایک بوڑھا اپنی بیٹی کو دکھانے کے لیے آیا تھا۔ چلو دیر ہورہی ہے۔‘‘ شاہدہ بیگم نے گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔
’’لیکن آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟‘‘ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ویسے ہی ہمیں جانے میں دیر ہوگئی ہے۔ پھر اور دیر ہوجاتی۔ تمہیں اندازہ ہے رضیہ میرا کتنی بے قراری سے انتظار کررہی ہوگی؟‘‘
’’ارے میں اسے ایک نظر دیکھ لیتا ہمارا کیا نقصان ہوجاتا، زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
’’چلو اب تو وہ چلا ہی گیا۔‘‘ انھوں نے بات کو بظاہر تو ٹال دیا لیکن اشعر کے انداز اور اس کے الفاظ نے جیسے ان کے دل و دماغ میں سوئی چبھودی ہو۔
شادی سے واپس آتے آتے بہت دیر ہوچکی تھی۔ تھکن کے باوجود شاہدہ بیگم نیند سے کوسوں دیر اس چبھن کو محسوس کررہی تھیں جو اشعر کے الفاظ، اس کے انداز اور اس کے جذبۂ ہمدردی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے انھیں دی تھی۔
وہ پوری رات اس لڑکی کے بارے میں سوچتی رہیں۔ اور رات کے آخری پہرنہ جانے کب انھیں نیند آسکی۔
اگلے دن اسپتال پہنچتے ہی اس کی جونیر ڈاکٹر نے بتایا کہ کل جو لڑکی آپ کے گھر گئی تھی اس کی موت ہوگئی ہے۔اور یہ سنتے ہی ندامت اور احساس جرم کی زنجیروں نے اسے کسی اکٹوپس کی طرح چکڑ لیا۔ وہ اس کی موت کا ذمہ دار خود کو اور اپنی ماں کو تصور کررہا تھا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر انسان کو بھی تو اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ اشعر نے گھر آکر شاہدہ بیگم کو جب اس کی خبر دی تو ان کے چہرے کا رنگ یکسر بدل گیا۔ لیکن انھوں نے اپنے احساس جرم کو چھپاتے ہوئے کہا:
’’بیٹے اس کی موت آئی تھی اس میں تم کیا کرسکتے تھے۔‘‘
اس واقعہ کو کئی روز گزر گئے زندگی معمول کے مطابق چلنے لگی۔ اشعر کا ذہن بھی اب اس واقعہ کو بھلا چکا تھا۔ اور بظاہر شاہدہ بیگم بھی اسے بھول ہی چکی تھیں، لیکن ان کے ذہن کے نہاں خانہ میں کہیں نہ کہیں اس کا اثر موجود تھا۔
آج شاہدہ بیگم ماضی کے اژدہے سے جنگ کررہی تھیں۔ انھیں وہ منظر یاد آگیا جب ان کے نیم جان زخمی شوہر کو ڈاکٹروں نے ہاتھ لگانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ یہ ایکسیڈنٹ کا کیس ہے پہلے ایف آئی آر کراؤ۔ اور انھوں نے بڑی منت سماجت کی تھی ڈاکٹروں کی کہ خدا کے لیے انھیں بچالو۔ مگر وہ سب بے سود ثابت ہوئی تھی اور آخر کار اللہ کا فیصلہ ان پر آن پہنچا تھا۔ ماضی کے اس اژدہے سے جنگ کرتے کرتے نہ جانے کب انھیں فتح مل سکی اور وہ نیند کی آغوش میں پہنچنے میں کامیاب ہوسکیں۔
’’نہیں اشعر تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔ تم بوڑھی بیوہ کا آخری سہارا ہو، میرے اللہ تو نے یہ کیا کیا؟‘‘ دھاڑیں مار مار کر رونے کی آواز سن کر اشعر تیزی سے اپنی ماں کے پاس آیا۔ وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھیں۔
’’امی امی کیا ہوا؟ کیوں رو رہی ہیں کیا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا؟‘‘ اشعر نے انھیں جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
’’میرے لال تو ٹھیک تو ہے؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے ایک گلاس میں پانی ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اور پھر شاہدہ بیگم نے خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے وضو کیا کہ جو انھوں نے دیکھا تھا وہ صرف ایک خواب تھا۔ اشعر نے دیکھا کہ امی صبح تک نماز پڑھتی اور استغفار کرتی رہیں۔ اب ان کی زندگی بدل چکی تھی اور ان کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے ایک نرم اور حساس دل رکھ دیا تھا۔