یادوں کا لمس

ش۔ صغیر ادیب

بوجھل، اداس، بے کیف شام کے آخری لمحات دھیرے دھیرے معدوم ہورہے ہیں۔

وہ گدے پر لیٹے لیٹے گردن کو تھوڑا سا خم دے کر کھڑکی سے باہر دیکھتا ہے۔ بتدریج معدوم ہوتی دھوپ کی زردی سامنے والے مکانوں کی چھتوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایک مکان کی چمنی سے گہرا دھواں نکل کر فضا میں اٹھ رہا ہے، دھیرے دھیرے پھیل رہا ہے اور آہستہ آہستہ تحلیل ہورہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ہر شے آخر کار فنا کیوں ہوجاتی ہے، کسی شے کو دوام کیوں نہیں؟

وہ افسردگی سے ڈھلتی ہوئی دھوپ کو دیکھتا رہتا ہے۔ اور دھیرے دھیرے سینے کو دباتا ہے، لیکن سکون نہیں ملتا۔ گھٹن بڑھتی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے، سینے کے اندر بھنور بن رہے ہیں، ایک کے بعد ایک، جیسے صحرا میں بگولے بنتے ہیں اور وحشانہ انداز میں چکر لگاتے ، تیز طوفانی اور صحرا کے سینے پر وحشیانہ رقص کرتے ہیں۔ بس ویسے ہی بگولے سینے کے اندر بنتے اور بھنور کی طرح ناچتے ہیں۔ اور اس کا دل کمزور اور ناتواں دل ان میں آہستہ آہستہ ڈوبنے لگتا ہے۔ اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ سانس رکنے لگتی ہے اور اسے ڈر لگتا ہے۔ ایک دہشت سی سارے بدن میں سرسراتی ہے۔ کیا ہوگا؟ وہ سہم کر زور سے سانس لیتا ہے اور گردن کو تھوڑا سا خم دے کر بیوی کی طرف دیکھتا ہے۔ بیوی اس کی جانب متوجہ نہیں ہے۔ اس کے چہرے پر حسبِ عادت اور معمول کے مطابق برہمی کے آثار ہیں۔ ابھی کچھ ہی دیر پہلے وہ اوپر سے آئی تھی۔ اس نے قدرے حسرت سے اور کچھ ملتجی نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا اور غیر شعوری طور پر توقع کی تھی کہ وہ شاید پوچھے گی: ’’کیسی طبیعت ہے؟‘‘ لیکن اس نے اسے بالکل نظر انداز کردیا تھا۔ سیدھی باورچی خانے میں چلی گئی تھی۔ وہ چپ چاپ لیٹا ہوا آوازیں سنتا رہا تھا۔ وجہ کیا تھی، اسے قطعی علم نہیں تھا۔ لیکن کسی وجہ سے بیوی کا مزاج برہم ضرور تھا۔ اس نے برتن پٹکے تھے اور بلند آواز سے کچھ بڑبڑائی تھی۔ دو ایک لفظ اس کے کانوں تک پہنچے تھے۔ بے شرم، خون پی جاؤں گی، وغیرہ۔ پھر وہ چائے اور ایک توس بناکر کمرے میں آئی تھی۔ وہ چپ چاپ ایک ملال آمیز حسرت کے ساتھ کنکھیوں سے اسے دیکھتا رہا تھا۔

اس کے دل میں ایک خواہش کسی ضدی بچے کی طرح شدت سے مچل رہی تھی۔ ایک چائے اور پینا ڈول کی دو گولیاں۔ دو گھنٹے پہلے اس نے دو گولیاں لی تھیں اور چائے پی تھی۔ یہ مہم اس نے خود ہی سر کی تھی، اور اس طرح کی تھی، گویا آگ کے دہکتے انگاروں پر چلا ہو۔ گھٹنوں اور ہتھیلی کے سہارے رینگ رینگ کر کچن میں گیا تھا۔ سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ اور سارے جسم میں درد کی لہریں بجلی کے کرنٹ کی طرح دوڑ رہی تھیں۔ اپنی بے بسی اورلاچاری پر وہ بے اختیار رو دیا تھا۔ کوئی بھی نہیں ہے جو اس کا حال پوچھے، اسے دوا دے اور اس کے لیے ایک چائے بنادے۔ یوں گھر میں بیٹی بھی ہے، بیٹا بھی اور بیوی بھی۔ بیوی … اس نے زہر خند کیا تھا۔ مگر اس کے لیے پھر بھی کوئی نہیں ہے۔ بیٹا صرف چھٹی کے دن گھر آتا ہے۔ بیٹی کی اپنی مصروفیات ہیں اور بیوی … اس نے ایک بار پھر زہر خند کیا تھا۔ خیر، بیٹی گھر میںہو تو چائے دے دیتی ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں یہ دل آزار اور جان لیوا مہم اسے خود ہی سر کرنا پڑتی ہے۔ اور وہ چند منٹ سولی پر لٹکنے کی اذیت سے کم نہیں ہوتے۔ دو گھنٹے پہلے بھی وہ کئی منٹ تک سولی پر لٹکا رہا تھا۔ کسی نہ کسی طرح چائے بنائی تھی، عجلت سے دو گولیاں نگلی تھیں، گرم گرم چائے حلق سے اتاری تھی اور یکایک ایک گہرا سکون محسوس کیا تھا۔ درد کی شدت میں کمی ہوئی تھی اور بدن میں کچھ جان اور دل کو قرار آگیا تھا۔ مگر وہ تو دو گھنٹے پہلے کی بات تھی۔ سکون اور تھوڑی سی توانائی جو گولیوں سے ملتی ہے، محض عارضی ہوتی ہے۔ ایک گھنٹہ یا زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے۔ اس کے بعد وہی درد، شدید نقاہت اور بے چینی۔ اور اب دوگھنٹے بیت چکے تھے اور اس کے جسم کی خستگی بڑھ کر انتہا کو پہنچ رہی تھی۔ درد کی شدید ٹیسیں ایک کے بعد ایک اٹھ رہی تھیں اور اسے بے حال کررہی تھیں۔ دو گولیاں اور ایک کپ چائے … ہاں اسے دو گولیوں کی فوری ضرورت ہے۔ مگر کیا کرے، کیا بیوی سے کہے۔ مگر بیوی کے چہرے پر تو سخت برہمی کے آثار ہیں، وہ شاید مزید برہم ہوجائے گی۔ نہیں، بیوی سے کچھ کہنا ٹھیک نہیں، اور پھر یہ بھی ہے کہ وہ کیوں کہے۔ بیوی کو خود خیال کرنا چاہیے، یہ اس کا فرض بھی ہے۔ فرض … وہ یکایک چونکتا ہے اور ایک استہزائی مسکراہٹ آپ سے آپ اس کے ہونٹوں پر زخم بن کر ابھرتی ہے۔ یہ عجیب اور انوکھا لفظ ہے۔ نامانوس اور اجنبی۔ اس گھر میں تو اس لفظ سے کوئی بھی شناسائی نہیں رکھتا۔ اگر کسی کو اس لفظ سے آگاہی ہوتی تو شاید وہ اس حالت کو نہ پہنچتا۔ نہیں، بیوی سے کچھ کہنا ٹھیک نہیں۔ بیٹی کا انتظار کرنا ہوگا۔ مگر بیٹی کے آنے میں تو ابھی بڑی دیر ہے۔

اسے یکایک ایک بار پھرہنسی آئی، مگر عجیب سی ہنسی تھی۔ اس میں مسرت کا تو خیر ذرا بھی شائبہ نہ تھا، ہاں تلخی تھی اور ایک بے نام سی ہزیمت زدہ پژمردگی، جیسے اسے خود اپنے آپ پر رونا آگیا ہو۔ کیسی عجیب بات ہے۔ اسے انتظار کرنا ہوگا لیکن وہ کن کن باتوں کا انتظار کرے گا اور کب تک؟ اس کی توپوری زندگی ہی اس ایک لفظ کے دائرے میں گزری ہے۔ ہمیشہ ہی اسے کسی نہ کسی بات کا انتظار رہا ہے۔ حالات نامساعد تھے تو اچھے دنوں کا انتظار تھا۔ بچے چھوٹے تھے تو اس بات کا انتظار کہ وہ بڑے ہوں گے تو اسے سکون کے دو چار سانس لینے کا موقع ملے گا۔ لیکن بچے بڑے ہوئے تو وہ اور زیادہ بے سکون اور بے آسرا ہوا۔ اسے یاد نہیں آتا کہ بچپن سے لے کر اب تک کوئی ایسا دن گزرا ہو، جب اس نے انتظار کی اذیت نہ جھیلی ہو۔ پھرآئی بیماری اور انتظار شروع ہوا صحت یاب ہونے کا، لیکن بیماری رفتہ رفتہ بڑھتی ہی گئی۔ جسم ناتواں اور خستہ ہوتا گیا، حتی کہ چلنے پھرنے سے بھی محروم ہوگیا۔ لیکن انتظار ابھی بھی باقی ہے کب بیماری رفع ہوگی، کب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگا اور کب یہ محتاجی ختم ہوگی۔ اور اب بیٹی کا انتظار! وہ ایک بار پھر تلخی سے ہنستا ہے۔

دھیرے دھیرے دھوپ رخصت ہوتی ہے، اجالا ماند پڑتا ہے، اور رات اپنے پاؤں پھیلاتی ہے، اسے ایک کپ چائے اور دو گولیاں مل گئی تھیں۔ ہر چند کہ بیٹی چائے میں شکر ڈالنا بھول گئی تھی، مگر اس نے کوئی شکایت نہیں کی تھی۔ آخر کس کس بات کی شکایت کرے چپ رہنا ہی مناسب ہے۔ اس نے خود کوئی کوشش نہیں کی، بس خود بخود یہ ہوا کہ اسے صبر کرنا آگیا اور شاید یہی اچھا بھی ہے۔ جب سب دروازے بند ہوں تب بھی ایک دروازہ ضرور کھلا رہتا ہے۔ اپنی ذات کے اندرون کا دروازہ۔ آدمی اپنی ذات کے نہاں خانوں میں اتر جائے اور چھپ کر بیٹھ جائے تو محفوظ ہوجاتا ہے، باہر کے آرام اور دکھوں سے۔ اور وہ بھی یہی کرتا ہے۔ جب اذیت بہت بڑھتی ہے اور وہ گھبرا جاتا ہے تو اپنے اندرون میں اترکر چھپ کر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ آہستہ سے کروٹ لیتا ہے لیکن یہ آسان کام نہیں۔ ہر بار کروٹ لینے پر بدن کی ساری رگیں ایک شدید تشنجی کیفیت کے باعث بری طرح چٹختی ہیں۔ درد کی ازحد کرب انگیز لہریں سر سے پاؤں تک دوڑتی ہیں۔ تکلیف اتنی شدید ہے کہ وہ جبڑے بھینچ لیتا ہے اور باوجود ضبط کے اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ اس وقت بھی یہی ہوا۔ درد کی اذیت نے اسے بے حال کردیا۔ کئی منٹ تک وہ آنکھیں بند کیے، دم سادھے، بالکل ساکت پڑا رہتا ہے۔ لمحے صدیوں کی مانند گزرتے ہیں۔ کئی صدیوں کے بعد کچھ سکون ملتا ہے، درد میں کمی ہوتی ہے، تب وہ آنکھیں کھولتا ہے اور ہاتھ اٹھا کر آنکھیں پونچھتا ہے۔

باورچی خانے میں برتنوں کے کھڑکنے کی مدہم آوازیں آرہی ہیں۔ بیٹی رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے۔ یہ گھر سارا دن خاموشی اور اداسی کے غلاف میں لپٹا رہتا ہے۔ شام ہوتی ہے تو زندگی کے آثار کچھ جاگتے ہیں۔ سکوت کا طلسم ٹوٹتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ اس گھر میں بھی کچھ لوگ رہتے ہیں۔ وہ بڑے دھیان سے کچن سے آنے والی آوازوں کو سنتا ہے۔ پتیلی میں چمچ چلانے کی آواز، پائپ کے کھلنے اور بند ہونے کی آواز اور سنک میں برتن رکھنے کی آواز۔ ان آوازوں میں ایک عجیب سی موسیقی ہے جو اسے بہت بھلی لگتی ہے۔ اسے ایک انوکھی تقویت کا احساس ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے، جیسے وہ آوازیں اسے سہارا دے رہی ہوں، جیسے اس کے نادیدہ زخموں پر مرہم رکھ رہی ہوں، جیسے اس کے بدن میں زندگی کی لہربن کر دوڑ رہی ہوں۔ ہر روز یونہی ہوتا ہے، سارا دن وہ سکوتِ مرگ کے ویرانوں میں بھٹکتا ہے، شام ہوتی ہے تو وہ زندگی کی طرف واپس آتا ہے، بلکہ یوں ہے کہ یہ آوازیں اسے واپس لاتی ہیں اور یہی سبب ہے کہ وہ لاشعوری طور پر شام کا انتظار کرتا ہے تاکہ گھر میں کچھ آوازیں گونجیں اور اسے یقین ہو کہ اس گھر میں ابھی زندگی موجود ہے۔

کچھ دیر وہ ان مدھر اور روح کو توانائی عطا کرنے والی آوازوں کو سنتا رہتا ہے، پھر تھک کر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔

اب اس کی آنکھوں کے آگے لا محدود اندھیرا ہے۔

پہلے وہ روشنی کو بہت پسند کرتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ روشنی حسن ہے اور زندگی کی علامت ہے۔ روشنی توانائی بخشتی اور آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ روشنی اثبات ہے اور تاریکی نفی روشنی کے حوالے سے اس کے خیالات میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، وہ اب بھی مانتا ہے کہ اس کرئہ ارض پر حسن، حیات اور حرکت کے تمام مظاہر روشنی کے مرہونِ منت ہیں، لیکن عجیب بات ہے، بے حد عجیب بات ہے، اب اسے روشنی اچھی نہیں لگتی۔ یہ منفی احساس اس کے اندر کیوں اور کیسے پیدا ہوا، وہ سمجھنے سے قاصر ہے، تاہم یہ سچ ہے کہ وہ تنہا ہو اور کمرہ روشنی سے جگمگا رہا ہو تو وہ پریشان ہوجاتا ہے۔ بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس اس کے اندر سانپ کی طرح سر اٹھانے لگتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ چاروں طرف دشمن اور بدشگونیاں گھات لگائے تاک میں بیٹھی ہیں۔ جوں ہی انہیں موقع ملے گا، اس پر حملہ کردیں گی۔ لیکن اگر اندھیرا ہو تو اسے ایک سکون سا محسوس ہوتا ہے، تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے اور اسے ایسا لگتا ہے کہ اب اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے، وہ ہر چشمِ بد سے محفوظ ہوگیا ہے۔ ساری آفتیں، سارے آرام، بدشگونیاں اور دشمن اب اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس کے اندر یہ خوف اور غیر محفوظ ہونے کا احساس کہاں سے اور کیسے آیا؟ یہ اسے نہیں معلوم، بس اتنا جانتا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں، جوں جوں وقت گزرا ہے، اس کے اندر خوف بڑھتا گیا ہے اور وہ اپنی ذات کے اعتبار سے محروم ہوتا گیا ہے۔ دھیرے دھیرے اس کے دل و دماغ میں یہ احساس جاگزیں ہوتا گیا ہے کہ وہ بالکل بے آسرا ہے، بے سہارا اور کمزور۔ اس خزاں رسیدہ پتے کی مانند جو ہوا کے ایک ہی جھونکے سے شاخ سے بچھڑ گیا ہے۔ اس کا نہ کوئی ٹھکانہ ہوتا ہے اور نہ کوئی منزل۔ اس کے مقدر میں صرف یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی لمحے کسی پیر کے نیچے آئے گا اور چرمرا کر ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔ اس کے دل میں دہشت بیٹھ گئی ہے کہ کسی بھی نامسعود لمحے میں وہ بھی اس طرح کچلا جائے گا اور ٹوٹ کر چور چور ہوجائے گا۔

کیا واقعی وہ بھی محض ایک برگ بے آسرا ہے؟

تو اس کی آنکھوں کے آگے دور تک اندھیرا تھا اور وہ ایک بے نام سا سکون محسوس کررہا تھا۔ دیر تک وہ آنکھیں بند کیے رہتا ہے اور اندھیرے کے اس خالی ویرانے میں بھٹکتا رہتا ہے۔ پھر یکایک ایک آواز وہ اپنے وجدان میں محسوس کرتا ہے اور چونکتا ہے۔

’’بہت اکیلے ہو اور بہت اداس ، ہے نا…‘‘ اسے آواز محسوس ہوتی ہے۔

’’ہاں…‘‘ وہ افسردگی سے کہتا ہے ’’تم کون ہو؟‘‘

پھر وہ غور سے دیکھتا ہے اور حیران ہوکر مسکراتا ہے۔ اس کے سامنے بیتے دنوں کی ایک یاد ہے۔ فروزاں، حیات افروز اور انمول۔ اس کی مسکراہٹ یکایک اور گہری ہوجاتی ہے… ’’تم…؟‘‘

’’ہاں…!‘‘

’’یہ بہت اچھا کیا تم نے کہ اس وقت آگئیں…‘‘ وہ کہتا ہے ’’میں اس وقت خود کو بہت بے سہارا محسوس کررہا تھا اور بہت تنہا…‘‘

’’میرے ساتھ چلو گے؟‘‘

’’ہاں…!‘‘

وہ اس درخشاں اور انمول یاد کی انگلی تھامتا ہے اور چل پڑتا ہے۔ وقت کی دھند سے گزرتا ہے، دن، مہینے اور سال اور پھر اپنے آپ کو ایک وسیع دروازے کے سامنے پاتا ہے۔ دروازہ ایک چوڑی راہداری میں کھلتا ہے۔ دائیں جانب بیٹھک ہے۔ اس کے بعد کشادہ آنگن، بائیں جانب باورچی خانہ اور غسل خانہ ہے۔ سامنے برآمدہ اور پھر وسیع کمرہ۔ وہ راہداری میں ٹھہر کر ایک نظر بیٹھک میں ڈالتا ہے۔ یہی بیٹھک ہے، جہاں بیٹھ کر وہ کتابیں پڑھا کرتا تھا۔ کتابیں جوہمیشہ اس کی رفیق رہیں اور اب بھی ہیں۔ وہ کچھ دیر حسرت سے بیٹھک کو دیکھتا ہے، پھر قدم آگے بڑھاتا ہے۔ آنگن میں رک کر دائیں کونے پر لگے ہینڈ پمپ کو دیکھتا ہے۔ ایک نظر باورچی خانے میں ڈالتا ہے۔ پھر برآمدے میں قدم رکھتا ہے۔

برآمدے میں ایک چارپائی بچھی ہے۔ اس پر ایک نوجوان لڑکا لیٹا ہے۔ سینے تک ایک کھیس اوڑھے ہوئے۔ اس کی آنکھیں بند ہیں، چہرہ مرجھایا ہوا ہے، گال پچک گئے ہیں۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ہیں اور اس کی سانس تیز تیز چل رہی ہے۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت بیمار ہے۔ چند دنوں کی بیماری نے اسے بہت کمزور کردیا ہے۔ وہ چند لمحے حیرت سے لڑکے کو دیکھتا ہے۔ پھر یکایک چونکتا ہے۔ ارے یہ تو وہ خود ہے۔ تب اسے یاد آتا ہے کہ برسوں پہلے وہ بیمار ہوا تھا۔ انفلوئنزا کا شدید حملہ ہوا تھا۔ چند ہی دن کے اندر اس کی حالت بے حد خستہ ہوگئی تھی۔ ناتوانی اتنی بڑھ گئی تھی کہ وہ بستر سے لگ گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا، گویا اس کے بدن میں جان ہی نہیں ہے۔ بے چینی سے بے حالت ہوتا تو اکثر رونے لگتا تھا۔ اس موقع پر اماں اس کی چارپائی سے لگ کر بیٹھ گئی تھیں۔ پانچ دن اور پانچ راتیں انھوں نے وہیں گزاری تھیں۔ چہرے پر فکرو تردد، آنکھوں سے نیند غائب اور ہونٹوں پر دعائیں۔ اس کی صحت و سلامتی اور لمبی عمر کی دعائیں۔ نماز کے لیے اٹھتیں یا کسی وقت بیٹی کے اصرار پر تھوڑی دیر آرام کرنے جاتیں تو بیٹی کو پابند کردیتیں کہ وہ بیٹے کے سرہانے بیٹھی رہے۔ لیکن زیادہ دیر آرام بھی نہ کرتیں۔ محض گھنٹہ دو گھنٹہ، اس کے بعد پھر آکر سرہانے بیٹھ جاتیں۔

انھوں نے پورے پانچ دن، پانچ راتیں یونہی اس کی دیکھ بھال کرتے ہوئے گزاری تھیں۔

وہ چند لمحے اپنے آپ کو دیکھتا رہا۔ پھر گردن گھما کر اماں کو دیکھا۔ وہ نماز پڑھ رہی تھیں۔ سرہانے بیٹی بیٹھی ہوئی درماندہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس نے معاً زور سے سانس لی اور ارد گرد بھی دیکھا۔ کسی اندرونی خواہش کے زیرِ اثر آگے بڑھا۔ دائیں جانب والے دروازے سے گزر کر کمرے میں قدم رکھا۔ برسوں گزرگئے تھے لیکن اس کمرے کی ترتیب اور سجاوٹ میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا۔ ہر شے تقریباً اسی طرح تھی جس طرح وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ دونوں چارپائیاں، کارنس پر سجی ہوئی اشیاء، اور دیوار پر آویزاں طغرے اور تصاویر۔ اس کی نگاہ یکایک ایک چھوٹے سے فریم میں لگی اس کی اپنی تصویر پر پڑی اور وہ حیران ہوا۔ کیا واقعی یہ اس کی تصویر ہے؟ کیا وہ پہلے ایساہوا کرتا تھا؟ بال اتنے گھنے اور سیاہ تھے۔ آنکھوں میں حیات افروز چمک اور چہرے پر اس قدر تازگی اور رونق، اور ہونٹوں پر یہ دمکتی ہوئی مسکراہٹ، زندگی اور حوصلہ سے بھر پور۔ کیا واقعی وہ ایسا ہی ہوا کرتا تھا؟ تو پھر یہ رونق، شادابی اور حوصلہ کہاں گیا؟ اب تو اس کے چہرے پر، اس تصویر والے چہرے کی کوئی رمق، کوئی جھلک باقی نہیں۔ اور یہ مسکراہٹ … مگر مسکراہٹ کا موازنہ کیسے کرے، وہ تو برسوں سے مسکرایا ہی نہیں، کیوں کہ مسکرانا اور ہنسنا اب اسے اچھا نہیں لگتا۔ اگر کبھی بھولے بھٹکے ہنس دے تو یوں محسوس کرتا، جیسے خود اپنے ساتھ ریاکاری کررہا ہے۔ اور تب اسے ایک خجالت بھی محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ ہنستا مسکراتا نہیں لیکن اتنا جانتا ہے کہ اب اس کی مسکراہٹ اتنی روشن نہیں بلکہ اس دھوئیں کی طرح ہے جو چراغ بجھنے کے بعد اس کی بتی سے اٹھتا ہے۔

اس نے یکایک ایک ہزیمت زدہ سانس لی اور واپس ہوا۔

اماں نے نماز پڑھ لی ہے۔ اور اب دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہی ہیں اور گو کہ ان کی آواز مدھم ہے۔ مگر اس کے کانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ ’’میرے بچے کو صحت اور زندگی عطا فرما…‘‘

پھر انھوں نے جائے نماز تہہ کر کے رکھی۔ بیٹی اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ اماں سرہانے بیٹھ گئیں۔ محبت سے اسے دیکھا۔ زیرِ لب آیات کریمہ کا ورد کیا اور اس کے چہرے پر پھونک ڈالی۔ پھر اس کی پیشانی سہلانی شروع کی۔

وہ اپنائیت، احترام اور تشکر سے اماں کو دیکھتا رہا۔

ہر روز کی طرح شام کے تمام معمولات تکمیل تک پہنچ گئے ہیں۔ وہ چپ چاپ گدے پر لیٹا ہے اور تھکی تھکی افسردہ نظروں سے بیوی اور بیٹی کو دیکھتا ہے۔ کبھی کبھی ٹیلی وژن پر نظر ڈال لیتا ہے۔ کوئی سیریل چل رہا ہے جو بیوی کو پسند ہے۔ باوجود اس کے کہ اسے انگریزی نہیں آتی پھر بھی وہ اس سیریل کو باقاعدگی سے دیکھتی ہے۔ اس وقت بھی وہ توجہ سے سیریل دیکھ رہی ہے۔ وہ ایک نظر بیوی کے چہرے پر ڈالتا ہے، پھر دیوار گیر کو دیکھتا ہے اور زور سے سانس لیتا ہے۔ بس کچھ دیر اور۔ یہ آوا زیں جو سارے دن کے سکوت کے بعد جاگتی ہیں، کچھ دیر کے بعد پھر سوجائیں گی۔ ہر روز یونہی ہوتا ہے۔ پتہ نہیں کیا بات ہے، معمولات اس گھر میں اپنے آپ کو اتنی سختی سے دہراتے ہیں کہ کبھی معمولی سا فرق بھی نہیں پڑتا۔

بیٹی نے کچن کی صفائی وغیرہ کرنے کے بعد اسے ایک کپ چائے دے دی ہے اور اوپر چلی گئی ہے۔ بیٹی کے جانے کے بعد بیوی اٹھتی ہے اور زیرلب کچھ بڑبڑاتی ہے۔ وہ ایک لفظ سنتا ہے ’’بے شرم‘‘ پھر وہ باروچی خانے میں جاتی ہے۔ وہ برتن اٹھانے، رکھنے کی کچھ آوازیں سنتا ہے۔ ساتھ ہی بیوی کی بڑبڑاہٹ۔ دراصل بیوی کو سارے زمانے سے شکایت ہے۔ اسے پورا یقین ہے کہ ہر شخص جو اس کی زندگی میں شامل ہے، اس کا مخالف ہے، اس کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ نیز یہ کہ اس نے زندگی میں کوئی خوشی نہیں دیکھی، صرف دکھ اٹھائے ہیں، اور یہ کہ لوگ اس کی ’’خوبیوں‘‘ کی بنا پر اس سے پرخاش رکھتے ہیں۔ وہ منتظر ہے کہ ایک دن اس کا راستہ ’’صاف‘‘ ہوجائے گا، پھر وہ وہی کرے گی جو اس کا دل چاہے گا۔ وہ چپ چاپ بیوی کی بڑبڑاہٹ سنتا رہتا ہے۔ اسے تکلیف ہوتی ہے اور رنج بھی، لیکن زیادہ نہیں۔ برسوں بیت گئے ہیں، بیوی کی تلخ اور کھردری بڑبڑاہٹ سنتے ہوئے۔ چنانچہ اب عادت ہوگئی ہے اب رنج کم اور تعجب زیادہ ہوتا ہے۔ آخر بیوی تھکتی کیوں نہیں۔ ایک ہی لکیر کو برسوں سے پیٹتی چلی جارہی ہے۔ آخر کب تک؟ کبھی تو اسے اس غیر مرئی خول سے باہر آنا چاہیے، جس میں وہ بند ہے اور جو اس نے خود تخلیق کیا ہے۔

تھوڑی دیر بعد بیوی کچن سے باہر آتی ہے۔ اس کے ایک ہاتھ میں پیالہ اور چمچ ہے اور پیالے میں کارن فلیکس، دوسرے ہاتھ میں دودھ کی بوتل۔ کمرے کے وسط میں رک کر وہ تیکھی نظروں سے ایک پل کے لیے اسے دیکھتی ہے، پھر گھڑی پر نظر ڈالتی ہے۔ ساڑھے گیارہ بجے ہیں۔ پھر وہ دروازے کی طرف بڑھتی ہے۔ وہ سیڑھیوں پر بیوی کے قدموں کی آواز سنتا ہے اور ایک افسردہ سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر دم توڑتی ہے۔

اب کمرے میں خاموشی ہے اور اندھیرا۔ اس نے ٹی وی بھی آف کردیا ہے اور بتی بھی بند کردی ہے اور گدے پر چپ چاپ لیٹا ہوا ہے۔ اس کی نظریں اندھیرے میں ادھر ادھر بھٹکتی ہیں۔ پہاڑ سی رات سر پر ہے۔ بیوی اب اوپر گئی ہے۔ اپنا ناشتہ بھی ساتھ لے گئی ہے۔ اب وہ اگلے دن دوپہر ایک بجے سے پہلے نیچے نہیں آئے گی، نہ بیٹی ہی کی شکل دکھائی دے گی۔ اس تمام عرصے میں وہ تنہا کمرے میں پڑا رہے گا، اپنی ذات کے خول میں بند۔ اکیلا، بے آسرا۔

وہ ٹھنڈی سانس لیتا ہے اور معاً چونکتا ہے۔ یاد … وہ خوبصورت اور روشن یاد اس کے پاس موجود ہے۔ وہ مسکراتا ہے۔ یا دکہتی ہے:

’’بہت اداس ہو…‘‘

وہ چپ رہتا ہے اور یاد کو دیکھتا رہتا ہے۔ یاد کی آواز وہ پھر محسوس کرتا ہے۔

’’اور بہت اکیلے بھی۔‘‘

’’ہاں۔‘‘ وہ مدھم آواز میں کہتا ہے۔

’’مگر تم اکیلے نہیں ہو…‘‘ اس روشن، مہربان اور انمول یاد کا لمس وہ اپنی پیشانی پر محسوس کرتا ہے…‘‘ میں تمہارے ساتھ ہوں اور وہ دعا … اماں کی دعا… یاد ہے نا…؟‘‘

وہ یکایک ایک تقویت سی محسوس کرتا ہے۔ ہاں، یہ ٹھیک ہے میں بالکل تنہا نہیں ہوں اور نہ بالکل تہی دست و بے آسرا۔ میرا زادِ سفر میرے ساتھ ہے۔ … معاً وہ ایک سکون آمیز سانس لیتا ہے اور یاد کے روشن چہرے کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146