ارشادِ الٰہی ہے: ’’اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیے معیشت تنگ کردی جائے گی اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔‘‘ (طہ:۱۲۴)
قرآن پاک نے ذکرِ الٰہی کی جو صورت بیان کی ہے اس پر کاربند رہا جائے تو یقینا یہ ہمارے تمام معاشی، معاشرتی اور دینی و روحانی مشکلات و مسائل کا حل مہیا کرلے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ’’میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔‘‘ (طہ:۱۴) ۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے: ’’اللہ فرماتا ہے جس شخص کو میرے ذکر نے سوال کرنے سے روکے رکھا میں اسے بغیر مانگے سب سائلوں سے بہتر دوں گا۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے نامہ اعمال رکھنے والے فرشتوں کے علاوہ ایسے سیاح فرشتوں کو پیدا فرمایا جو زمین میں سرگرم سفر رہتے ہیں۔ جب وہ کسی جماعت کو ذکر میں مشغول پاتے ہیں تو دوسروں سے کہتے ہیں کہ ادھر اپنی مطلوبہ چیز کی طر ف آؤ لہٰذا وہ سب فرشتے جمع ہوجاتے اور انہیںآسمان تک گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا ہے فرشتے عرض کرتے ہیں وہ تیری حمد، تیری بزرگی اور تیری تسبیح بیان کررہے ہیں۔ رب جلیل فرماتے ہیں کیا انھوں نے مجھے دیکھا؟ فرشتے کہتے ہیں نہیں۔ رب جلیل فرماتے اگر وہ مجھے دیکھتے تو ان کی کیا حالت ہوگی؟ فرشتے عرض کرتے اگر وہ تجھے دیکھ لیں تو اس سے بھی زیادہ تیری تسبیح کریں گے۔ رب جلیل فرماتے ہیں وہ کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟ فرشتے کہتے ہیں جہنم سے۔ رب جلیل فرماتے ہیں کیا انھوں نے جہنم کو دیکھا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں نہیں۔ رب جلیل فرماتے اگر وہ جہنم کو دیکھ لیں تو ان کی کیا حالت ہوگی؟ فرشتے عرض کرتے ہیں اگر وہ جہنم کو دیکھ لیتے تو اس سے اور زیادہ دور بھاگیں گے اور نفرت کریں گے۔ رب جلیل فرماتے ہیں کہ وہ کیا چیز مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں وہ جنت کا سوال کررہے تھے۔ رب فرماتا ہے کہ کیا انھوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں نہیں۔ رب فرماتا ہے کہ اگر وہ جنت کو دیکھ لیں تو ان کا کیا حال ہوگا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں وہ اسے اور زیادہ چاہیں گے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے سب کو بخش دیا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں اس میں فلاں شخص بھی تھا جو اپنی کسی ضرورت کے تحت آیا تھا اللہ تعالیٰ فرماتے کہ یہ ایسی جماعت ہے جس کا ہم مجلس و ہم نشین بھی محروم نہیں رہتا۔