یادِ ماضی

گلزار

پوسٹ مارٹم کے وقت بھی وہ تعارفی (وزٹنگ) کارڈ لاش کی مٹھی میں بھنچا ہوا تھا۔
اس روز بھی چارو جی اپنے معمول کے مطابق صبح ساڑھے پانچ بجے اٹھ گئی تھیں، لیکن معمول سے تھوڑی سی زیادہ سستی تھی۔ تاہم وہ معمول کے مطابق اچھی طرح تیار ہوئیں، بال کنگھی کیے، ہلکا سا غازہ کیا، تاکہ جلد پر جھریاں ہوتے ہوئے بھی بڑھاپے کے پھٹے مسام نظر نہ آئیں۔ پوشاک تو ہمیشہ ان کے مذاق اور سلیقے کا ثبوت دیتی۔ وہ شودت سے کہا کرتی تھیں ’’دیکھو آج بھی لوگ ہمیں دیکھتے ہیں تو کن انکھیوں سے کھسر پھسر کرتے ہیں۔ اشارے کرتے ہیں کہ چارولتا جارہی ہے۔ خود کے لیے نہ سہی اپنے مداحوں کے لیے ہمیں صحیح سلیقے سے رہنا چاہیے۔‘‘
شودت ان کا خانساماں تھا۔ اس روز صبح جب وہ چائے کی ٹرے لے کر ان کے سامنے گیا تو چاروجی آئینے کے سامنے کھڑی خود سے کچھ بات کررہی تھیں۔ اسے دیکھ کر ذرا سی جھینپ گئیں۔ شودت مسکرادیا۔ اس عمر میں بھی ان کی شرمانے کی ادا کمال کی تھی۔ اس ادا نے جوانی میں لاکھوں پرستار جاں بحق کیے تھے۔ ’’شودت! کوئی گوپال داس مشرا آنے والے ہیں، ہم سے ملنے۔ ذرا چائے ناشتے کا انتظام کرلینا۔‘‘
’’کون ہیں؟‘‘ ذرا تامل سے شودت نے پوچھا۔
’’کوئی ادیب ہیں، ہم پر کتاب لکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا خط آیا تھا۔‘‘
اس روز چاروجی کی چال میں اتساہ کچھ زیادہ تھا۔ فلمی صنعت سے ریٹائر ہونے کے کئی سال بعد آخر کسی کو تو اس تنہا جان کا خیال آہی گیا۔ شروع شروع میں بہت صحافی آیا کرتے تھے اس دور دراز کے بنگلے پر۔ اور چارولتا بھی بہت سال اپنی شہرت کے بل پر جیتی رہیں۔ پھر آہستہ آہستہ یہ آمد ورفت کم ہوگئی۔ کچھ عمر رسیدہ قسم کے کردار بھی انہیں پیش کئے گئے، لیکن چاروجی نے منظور نہیں کیے۔ تب آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر ٹھوڑی اونچی کرکے دیکھا تھا خود کو، گردن پر کوئی سلوٹ نہیں تھی!عمر کا کوئی نشان نظر نہ آیا۔
ہاں ڈاکٹر ساہنی نے ضرور کہا تھا: ’’دیکھو، تمہارا دل اب اتنا سب نہیں سہ سکتا جتنا بوجھ اس پر ڈالتی ہو۔ کسی دن کھڑے کھڑے فیوز اڑجائے گا۔ سنگھ صاحب ہوتے تو شاید…‘‘
شودت نے خبر دی، مشرا جی آئے ہیں، ’’ایں؟ ہاں… مشرا جی۔‘‘ انتظار کے باوجود چارولتا نام سن کر چونک گئیں۔
’’بٹھاؤ، نیچے ہال میں بٹھاؤ۔ صوفوں کے غلاف اتار دیے نا؟‘‘
’’جی مادام۔‘‘
’’اور فانوس روشن کردیا؟‘‘
شودت اپنے فرائض خوب سمجھتا تھا۔ وہ آج بھی لوگوں پر ان کی دھاک جما کر رکھتا تھا۔ کبھی کبھار کسی پرستار کا کوئی خط آجاتا تو وہ بازار میں دس جگہ ذکر کرتا۔
چاروجی نے ہار پہنتے پہنتے محسوس کیا کہ ان کی گردن کچھ دبلی ہوگئی ہے۔ گلوبند ہوتا تو یہ کمی چھپ جاتی لیکن اسے فروخت کیے تو دو سال ہوگئے تھے۔ تین ہزار کا لیا تھا کسی زمانے میں۔ اب ہزار میں بک گیا۔ سنگھ صاحب ہوتے تو کبھی نہ بیچنے دیتے۔
چارولتا جب سیڑھیوں سے اتریں تو بالکل فلم کا کردار لگ رہی تھیں۔ ابھی آواز آئے گی ’’اسٹارٹ ساؤنڈ… کیمرا…‘‘
مشرا جی ہال میں لگے سنگ مر مر کے کچھ بت غور سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں پیڈ نما کاپی تھی، جس میں شاید کچھ نوٹ بھی کرلیا، چاروجی کو دیکھ کر مشرا جی نے بڑے ادب سے نمسکار کیا۔
’’تشریف رکھئے۔‘‘ مشرا جی صوفے پر با ادب بیٹھ گئے۔
بڑا اثر پڑتا تھا چاروجی کی شخصیت کا! بہت دیر تک مشرا جی کے منہ سے کوئی بات نہ نکلی۔ اس دوران شودت چائے کی ٹرے لے کر آگیا۔ دو طشتریوں میں کچھ میٹھا، کچھ نمکین۔ چاروجی نے چائے بنائی۔ ’’میرا پتا کہاں سے ملا؟‘‘
’’گوئل صاحب نے دیا۔ آپ کے منیجر ہیں نا بمبئی میں!‘‘
’’ہوں… بہت اچھا انسان ہے گوئل۔ بہت سال میرا کام سنبھالا ہے اس نے۔ اب بھی وہی دیکھ بھال کرتا ہے۔ چائے لیجیے۔‘‘
پھر ایک وقفہ بیچ سے گزرگیا۔ چاروجی خود ہی بولنے لگیں…‘‘ میں بہت تنہائی پسند ہوں۔ زیادہ کام کرنا کبھی پسند نہ تھا۔ اس وقت بھی زیادہ فلمیں نہیں کیں جب دن رات پروڈیوسروں کا تانتا بندھا رہتا۔ بس بھاگ کر یہیں آچھپا کرتی تھی۔‘‘
’’میں آپ کا مکان دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
’’ہاں، کیوں نہیں! تشریف لائیے۔‘‘
چاروجی انہیں ساتھ لے کر سنگ مر مر کے بتوں کے قریب رک گئیں، اور بولیں:’’اٹلی سے لائی تھی یہ جوڑی، بڑی مشکل ہوئی تھی اسے صحیح سلامت یہاں لانے میں۔ کئی سال تو میرے بمبئی والے مکان میں رہی۔ آپ نے تو وہ نہیں دیکھا ہوگا۔‘‘
’’نہیں!‘‘ بڑا مختصر سا جواب تھا لیکن مسکراہٹ کافی لمبی تھی۔
برآمدے سے گزرتے ہوئے چاروجی نے بتایا: ’’بڑے شوق سے یہ مکان بنوایا تھا ہم نے۔ سنگھ صاحب سے بڑے جھگڑے ہوا کرتے تھے تب۔ کبھی پتھر کے چناؤ پر، کبھی لکڑی کے انتخاب میں۔ یہ ٹائلیں سنگھ صاحب بنگلور سے لائے تھے۔ مکان کا نام میں نے ایک انگریزی فلم سے رکھا تھا… سن سیٹ بولیوارڈ۔ اوریہ … یہ پنجرا۔ اس میں کبھی کوئی پرندہ نہیں رکھا ہم نے! پتا نہیں کیوں اٹھا لائے تھے ایک روز وہ…‘‘ یہ کہہ کر وہ زور زور سے ہنسنے لگیں جیسے کوئی سین کر رہی ہوں۔ ایک بار تو شودت نے بھی باہر جھانک کر دیکھا۔ اس طرح ہنستے تو کبھی نہیں دیکھا تھا انہیں۔ ہاں، وہ زمانہ تھا جب نور اور نیلا آجایا کرتی تھیں، ان کی ہم عصر ہیروئنیں۔
چارولتا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کہہ رہی تھیں: ’’بس میں یہی کہتی، مجھی کو قید کرلواس پنجرے میں… وہ کہتے، تو پھر وہ بھی سنگ مرمر کا بنوانا پڑے گا۔ سنگ مرمر بہت پسند ہے مجھے۔ اس پر ننگے پیر چلتے ہوئے بہت اچھا لگتا تھا۔ سنگھ صاحب کو… یہ انہی کا پوٹریٹ ہے۔‘‘
وہ سنگھ صاحب کی قد آدم تصویر تھی۔ اوپر کے برآمدے میں لگی ہوئی۔ دونوں طرف شمع دان۔ شودت نے شمعیں جلادی تھیں۔ وہ جانتا تھاکہ مادام ضرور جائیں گی۔ چپ چاپ کچھ دیر ایک ٹک وہ سنگھ صاحب کا چہرہ دیکھتی رہیں پھر آہستہ سے لبریز آنکھیں پونچھیں اور سرجھکائے مڑگئیں۔
مشرا جی پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ وہ کہہ رہی تھیں۔ ’’بڑی چھوٹی تھی ہماری شادی شدہ زندگی، صرف تین سال چار مہینے اور اٹھارہ دن۔‘‘ ایک بار پھر انھوںنے سسکی لی۔
شودت ہال سے ٹرے ہٹا چکا تھا۔
پان کے لیے ایک بار چاروجی نے آواز دی۔ جواب نہ پاکر سمجھ گئیں کہ باہر ہوگا باغ میں۔ خاموشی کا وقفہ اب انہیں اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ مڑکر مشرا جی سے کہا :’’آپ کو کچھ پوچھنا ہے؟‘‘
’’اس گھر کا رقبہ کتنا ہوگا؟‘‘
چاروجی نے ان کی طرف کچھ منجمد سی آنکھوں سے دیکھا اور پھر پوچھا…’’ رقبہ؟‘‘
اور ’’جی ہاں، اور تعمیر کا رقبہ کتنا ہے؟‘‘
چاروجی کچھ بجھ سی گئیں، بولیں ’’گوئل کو معلوم ہوگا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں، میں گوئل صاحب سے معلوم کرلوں گا۔‘‘ مشرا جی کھڑے ہوگئے۔
چارولتا بھی صوفے کے بازوؤں پر پورا زور دے کر کھڑی ہوگئیں۔ کچھ دیر بعد حیرت زدہ آواز میں دریافت کیا ’’آپ کو گوئل نے کس لیے بھیجا تھا؟‘‘
’’یہ مکان دیکھنے کے لیے، کہا تھا، شاید جلد ہی بیچنا پڑے، دیکھ کے رکھو۔ کوئی گاہک تیار ہوجائے تو…‘‘
’’آپ کا نام؟‘‘ چارولتا نے بڑی ترشی سے پوچھا۔
’’دھیرج مشرا! میں جائداد بیچنے اور خریدنے کی دلالی کرتا ہوں…‘‘ اس نے اپنا کارڈ سامنے کردیا۔
یہ سن کر مادام کاچہرہ لال سرخ ہوگیا۔ ایک بار چلانا چاہا لیکن آواز نہیں نکلی، صرف ہاتھ کے جھٹکے سے اسے باہر کا اشارہ کیا۔
اسٹیٹ ایجنٹ نے صفائی دینے کی کوشش کی: ’’دیکھئے گوئل صاحب نے آپ سے بات کرنے کے لیے منع کیاتھا، کہا تھا کہ شاید آپ کو …‘‘
’’نکل جاؤ یہاں سے…‘‘ اس مرتبہ چارولتا چلائیں لیکن آواز میں خرخراہٹ سی آکے رہ گئی۔
ایجنٹ گھبرا کر فوراً چل دیا۔
کارڈ ہاتھ میں لیے چارولتا اسے باہر جانے تک دیکھتی رہیں۔ مڑ کر سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے اچانک وہ لڑکھڑائیں، دل کا دورہ پڑا اور…
پوسٹ مارٹم کے وقت بھی تعارفی کارڈ لاش کی مٹھی میں بھنچا ہوا تھا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146