سراقہ کو اللہ کے رسول ﷺ کی بات پر اتنا یقینِ کامل تھا کہ عین بیماری کی حالت میں بھی جبکہ سب لوگ ان کی زندگی سے مایوس ہوگئے تھے، ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوجاتے ’میں ابھی نہیں مرسکتا۔‘ لوگ سراقہ کی بات کو سن کر یہ سمجھتے کہ شاید سراقہ کو سرسام کی بیماری ہوگئی ہے۔ واقعہ یہ ہوا کہ وہ بیمار ہونے کے بعد پھر اچھے بھی ہوگئے۔
سراقہ اتنے بوڑھے اور نحیف ہوگئے تھے کہ بس ہڈی اور کھال جسم پر باقی رہ گیا تھا۔ لیکن پھر بھی پورے اعتماد و یقین کے ساتھ کہتے کہ ’’میں ابھی نہیں مرسکتا۔‘‘
واقعہ یہ تھا کہ جب کفارِ مکہ نے حضور اکرمؐ کو (العیاذ باللہ) قتل کرنے کی سازش کی تھی، اور رات کو آپ کے گھر کے اطراف تلواریں سونتے انتظار میں تھے کہ کب محمد باہر نکلیں اور تمام کی تلواریں بیک وقت محمدﷺ پر ٹوٹیں اور کام ختم ہوجائے۔ مگر اللہ کی مرضی کچھ اور تھی اللہ کو اپنے رسول سے بہت کچھ کام لینا تھا، اللہ کے رسول ﷺ سورئہ یٰسین تلاوت کرتے ہوئے جب گھر سے باہر تشریف لے گئے تو اللہ نے دشمنانِ رسولؐ کی آنکھوں پر نیند کا غلبہ طاری کردیا۔ صبح جب دشمنوں نے محمدؐ کو وہاں نہ پایا تو یہ اعلان کیا کہ اگر کوئی محمد کا سر کاٹ کر لائے اسے سو سرخ اونٹ انعام میں ملیں گے۔
سرخ اونٹوں کے لالچ میں سراقہ اپنے گھوڑے کو دوڑاتے وہاں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں سے اللہ کے رسول اور صدیق اکبرؓ کا گزر ہورہا تھا۔ مگر وہیں سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس جاتے ہیں۔ پھر سراقہ گھوڑے کو زمین سے کھینچ کر اوپر لاتے ہیں، تھوڑی دور آگے بڑھتے ہیں کہ پھر گھوڑا گھٹنوں تک ریت میں دھنس جاتا ہے اب سراقہ کو احساس ہوجاتا ہے کہ میںمحمد تک نہیں پہنچ سکتا۔ اب سوائے محمدؐ سے معافی مانگنے کے کوئی چارہ نہیں۔
قربان جائیے محمدؐ کی ذاتِ اقدس پر کہ جس نے کبھی انتقام نہیں لیا۔ دربارِ محمدیؐ سے سراقہ کو معافی کا پروانہ مل جاتا ہے۔ آپؐ نے سراقہ کو صرف معاف ہی نہیں کیا، بلکہ یہ خوشخبری بھی سنائی کہ ’’اے سراقہ! وہ دن بھی کیا خوب ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں ہوں گے۔‘‘
سراقہؒ کو اس بات کا یقین تھا کہ حضورﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ صحیح ہوکر رہے گا۔ چنانچہ ہوا یہ کہ سراقہ کی زندگی میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی قیادت میں ایران فتح ہوتا ہے۔ اور آپؓ کا قاصد یہ خوشخبری لاتا ہے کہ ایران کی فتح میں جو مالِ غنیمت آیاہے اس میں کسریٰ کے کنگن موجود ہیں۔
سراقہ کو اللہ کے رسولؐ کی بات پر اتنا یقین اور کامل بھروسہ تھا کہ جب تک وہ کسریٰ کے کنگن اپنے ہاتھوں میں نہیں پہنیں گے ان کو موت نہیں آئے گی۔
یہاں ٹھہر کر کچھ دیر، ہم سوچیں کہ کیا ہم اپنے دلوں میں اپنے پیارے رسول ؐ کی باتوں پر یقین کی اس کیفیت کو محسوس کرتے ہیں؟اگر ایسا ہوتا تو امتِ مسلمہ کی حالت یہ نہ ہوتی۔
——