یٰسین کی گونج

ستار طاہر

دادی مر رہی تھی۔تین دنوں سے بے ہوش پڑی تھی۔ تمام عزیز و اقارب جمع ہوچکے تھے۔ سب کے چہرے گواہی دے رہے تھے کہ دادی کا آخری لمحہ آچکا ہے۔ اب ہونی ٹل نہیں سکتی۔
دادی کی بے ہوشی اور رشتے داروں کے اجتماع نے ننھے کو کھیل کھیلنے کا موقع دے دیا تھا۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ تھا۔ اسکول سے چھٹی کرکے وہ تین منزلہ پرانے مکان کی چھت پر مزے سے پتنگ اڑا رہا تھا۔ اونچی لیکن کمزور چھت پر پتنگ اڑانے کے جرم میں اس کی کئی بار پٹائی ہوچکی تھی۔ لیکن اب اسے منع کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
تمام عورتیں دوسری منزل کے ایک بڑے کمرے میں بیٹھی تھیں جہاں ایک چارپائی پر دادی بے ہوش پڑی تھیں اور ہر لمحے مرتا ہوا جسم جانکنی کے لمحوں سے گزررہا تھا۔ سانس کی دھونکنی چل رہی تھی۔
سارے مرد نچلی منزل کے کمرے میں جمع تھے۔ ان میں سے کوئی ایک اٹھتا، سیڑھیاں چڑھتا، اوپر کمرے میں جاکر مرتی ہوئی دادی کو ایک نظر دیکھ کر مایوسی سے سرہلاتا اور واپس چلا آتا۔
دادی کے دور کے بھتیجے، سول سروس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے پائپ سلگایا کش کھینچا اور کہنے لگے: ’’صاحب! پرانی تہذیب کی نشانی ہیں دادی۔ گلستان بوستاں کے بیشتر حصے زبانی یاد تھے۔ مسدس حالی ایسے سوز و گداز سے پڑھتی تھیں کہ سننے والوں کو رلا دیتیں۔ کیا لہجہ اور تلفظ پایا تھا۔ واہ صاحب واہ! لیکن آخرسب کو اس دار فنا سے رخصت ہونا ہے۔‘‘
ایک لمبی داڑھی والے بزرگ جو دادی کے سسرالی رشتے دار تھے، داڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے بولے۔
’’ہاں جی کیا زندگی بسر کی ہے دادی نے، ان کے والد ایک ریاست کے راجہ کے ذاتی معالج تھے۔ کیا ٹھاٹ باٹ تھے۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہیں۔ شادی میاں جمشید علی سے ہوئی۔ درویش تھے وہ، شادی کے دو برس بعد ہی سب بندھن توڑ کے خواجہ اجمیر کی چوکھٹ پر جابیٹھے۔ بس پھر وہاں سے ان کا جنازہ ہی اٹھا۔‘‘
ایک اور بزرگ جنھوں نے موٹے شیشوں کی عینک لگا رکھی تھی، زبان ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے کھنکارے پھر بولے:
’’ہاں دادی کا ایک ہی بیٹا تھا۔ بڑے ناز سے پالا۔ پاکستان بنا تو لکھ پتی پیسے پیسے کو ترسنے لگے۔ دادی کے صاحبزادے جوان تھے۔ ہاں معین نام تھا ناں… ہاں وہ حافظ قرآن تھے۔ کیا آواز تھی۔ رمضان المبارک میں تراویح پڑھاتے۔ برسوں یہ سلسلہ رہا۔ کبھی تراویح پڑھانے کا ایک پیسہ نہ لیا… جوانی ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے… بڑے دکھ سہے ہیں دادی نے…‘‘
سول سروس کے اعلیٰ عہدیدار کہنے لگے:
’’معین بھائی کی نیکیاں اور دادی کی تربیت پوتی پوتیوں کے کام آئیں۔ بڑی پوتی کالج میں پروفیسر ہے۔ اس کا میاں ملک کا نامور صحافی ہے۔ بڑا پوتا انجینئر بن چکا ہے۔ بیوی اس کی ڈاکٹر ہے۔ چھوٹی پوتی بی اے میں پڑھ رہی ہے۔ اللہ کسی کی نیکیاں رائیگاں جانے نہیں دیتا۔‘‘
سب لوگ باری باری دادی اور ان کے خاندان کے قصے سنارہے تھے۔ ننھا چھت پر پتنگ اڑانے میں مصروف تھا۔
دادی مررہی تھی…
دادی کے سر سے دوپٹہ ڈھلک گیا تھا۔
دادی کی بیوہ بہو، پروفیسر بیٹی اور انجینئر بیٹے کی ماں اور لیڈی ڈاکٹرکی ساس کے جسم میں لرزش پیدا ہوئی۔ خیالوںمیں اسے دادی کی کراری آواز سنائی دی:’’عورت کو چھت کے نیچے بھی سر ننگا کرنے کا حکم نہیں۔ ‘‘
وہ اٹھی۔ دادی کا سر دوپٹے سے ڈھانپ دیا… دادی کی بی اے میں پڑھنے والی پوتی بڑی بھنائی ہوئی تھی۔ اس نے کالج میں داخلہ لیتے ہی برقعہ اتار دیا تھا۔ ایف اے کیا تو بال کٹوالیے۔ دادی نے بہت ڈانٹا کوسا، لیکن بال ایک بار کٹے تو پھر چوٹی کبھی دکھائی نہ دی۔
انجینئر بھائی سے تحفے میں ٹیپ ریکارڈ لیا۔ کچھ کیسٹیں بھائی نے لادیں۔ کچھ وہ جیب خرچ سے پیسے بچا کر خریدلیتی۔ جس دن لتا کی آواز میں گھر میں گانا گونجا:
پیار کیا تو ڈرنا کیا
پیار کیا کوئی چوری نہیں کی
تو دادی کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ وہ چیخ اٹھی تھیں: ’’ہشت! لعنت ہو بدمعاش پر، پیار بھی کرتی ہے اور ڈرتی بھی نہیں۔ بند کرو اسے…‘‘
لیکن پوتی نے ایک نہ سنی۔ آواز کم کردی لیکن گانا چلتا رہا۔ دادی نے چپ سادھ لی۔ اس کے بعد گویا ہر طرح کے گانے گھر میں گونجنے لگے۔
دادی کی یہی باغی پوتی اب بہت جھنجھلا رہی تھی۔ تین دن پہلے اس نے ایک نئی کیسٹ خریدی تھی، لیکن ایک گانا بھی سننے کا موقع نہ ملا تھا۔ دادی تھی کہ مرنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔
’’اللہ کرے دادی کا دم جلدی نکلے۔‘‘ وہ دل میں بار بار کہتی۔
دادی کی پروفیسر پوتی کا دس برس کا بیٹا تھا۔ چھت پر پتنگ اڑا رہا تھا۔ بہت خوش تھا۔ کسی کو فکر ہی نہیں تھی کہ وہ کہاں ہے۔ وہ آزاد تھا۔ اسے یاد آرہا تھا کہ دادی اسے چھت پر پتنگ اڑانے پر ڈانٹتی تھی۔ امی نے دوبار پٹائی کی تھی… اسے خیال آیا اور ہاں خالہ نے بھی پٹائی کی تھی۔
ننھے کی بی اے میں پڑھنے والی خالہ نے اس کی پٹائی اس لیے کی تھی کہ ننھے نے ایک دن ایک گانا سننے کے شوق میں کیسٹ الٹی سیدھی لگادی تو کیسٹ کے اندر کا فیتہ الجھ گیا تھا…
دادی کے آس پاس بیٹھی عورتیں دادی کو لمحہ لمحہ دیکھ رہی تھیں۔ ان کے چہرے کہہ رہے تھے۔ بس اب منٹوں کی بات ہے…
دادی کی بیوہ بہو کو ساری زیادتیاں یاد آرہی تھیں، جو ساس نے کبھی اس کے ساتھ کی تھیں۔ اب وہ سچے دل سے کہہ رہی تھی۔ یا اللہ میں اپنی ساس کو معاف کرتی ہوں۔‘‘
پروفیسر پوتی دادی کی چہیتی تھی۔ پائنتی کے پاس بیٹھی وہ مسلسل خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی۔
محلے کی کسی عورت نے آہستگی سے کہا: ’’سورۃ یٰسین پڑھنی چاہیے۔‘‘
’’ہاں بہن! اس سے جانکنی کی تکلیف کم ہوجاتی ہے۔‘‘
’’سورۃ یٰسین پڑھو…‘‘
ایک مرد جو نیچے سے آکر اوپر جھانک کر گیا تھا، اس نے نیچے آکر کہا:’’آخری لمحے ہیں۔ سورۃ یٰسین پڑھنی چاہیے۔‘‘
سول سروس کے اعلیٰ عہدیدار نے پائپ بجھا کر سرجھکالیا۔ اسے سورۃ یٰسین نہ آتی تھی…
لمبی داڑھی والے بزرگ نے دل میں کہا: ’’نامحرم عورتوں کے پاس جاکر کس طرح سورۃ یٰسین پڑھ سکتا ہے؟‘‘ انھوں نے بھی چپ سادھے رکھی۔
انجینئر پوتے کو اپنی دادی سے بڑا پیار تھا، لیکن اسے سورۃ یٰسین پڑھنی نہیں آتی تھی۔ اس نے اپنی ڈاکٹر بیوی سے آہستگی سے پوچھا تو وہ اس سے بھی آہستہ آواز میں بولی:’’میں نے توقرآن پاک پڑھا ہی نہیں۔‘‘
ننھا چھت سے اترا اور دادی کے کمرے میں جھانکنے لگا۔
ایک عورت کہہ رہی تھی: ’’بہن! کسی کو سورۃ یٰسین آتی ہو تو تلاوت کریں۔‘‘
’’سورۃ یٰسین‘‘ ننھے نے سنا۔ وہ بھاگتا ہوا غسل خانے میں گیا۔ پیشاب کیا، پھر بھاگ کر چھت پر جا پہنچا۔ پتنگ اڑاتے وہ بار بار یاد کررہا تھا: ’’سورۃ یٰسین لیکن … سورۃ یٰسین۔‘‘
پھر اسے سب کچھ یاد آگیا۔ وہ مسکرانے لگا۔
بے ہوش ہونے سے دو دن پہلے دادی نے اسے ایک طرف لے جاکر راز کی ایک بات کہی تھی۔ اسے قرآن کی قسم دی تھی۔ ننھا دوبار دادی کے کہنے پر بازار گیا تھا۔ وہ چیز خرید لایا تھا جس کے لیے دادی نے اسے پیسے دئیے تھے۔ دادی نے اسے سینے سے لگا کر پیار کرتے ہوئے کہا تھا: ’’تم بھول نہ جانا… میرے چاند…‘‘
دادی کی جانکنی کی اذیت بڑھ رہی تھی۔
محلے کی عورت پھر بولی: ’’سورۃ یٰسین پڑھو بہنو!‘‘
لمبے آویزوں والی فیشن ایبل خاتون نے سرجھکا لیا۔
پروفیسر پوتی روتی جارہی تھی۔ دادی کی بیوہ بہو دل میں پشیمان ہورہی تھی۔ ’’کاش! مجھے سورۃ یٰسین آتی…‘‘
پڑوس کے شیخ صاحب کی بیوی کو سورۃ یٰسین ازبر تھی۔ اس نے سوچا : ’’دیکھو تو کیسی کیسی پڑھی لکھی عورتیں بیٹھی ہیں۔ لیکن میرے سوا کوئی بھی قرآن پاک پڑھی ہوئی نہیں۔ میں گھر جاکر وضو کرکے آتی ہوں اور سورۃ یٰسین پڑھتی ہوں۔‘‘
وہ اٹھی، گھر گئی… واپس نہ آئی…
شام ہورہی تھی۔ شیخ صاحب شام کو وقت پر کھانا کھانے کے عادی تھے۔ وہ بھنائے پھر رہے تھے۔ ان کی بیگم وضو اور سورۃ یٰسین بھول کر باورچی خانے میں گھس گئی۔
دادی کی پروفیسر پوتی کے صحافی خاوند نے دل میں کہا: ’’مجھے شاعروں، سیاست دانوں اور دانشوروں کے کتنے ہی اشعار، قول اور تقریروں کے ٹکڑے زبانی یاد ہیں۔ کاش! مجھے سورۃ یٰسین آتی تو میں دادی کے سرہانے بیٹھ کر پڑھتا۔ سب رشتے داروں پر میری علمیت کی دھاک بیٹھ جاتی لیکن وائے…‘‘
نیچے والے کمرے میں آٹھ دس افراد خاموش بیٹھے تھے۔ اوپر دادی مررہی تھی… جس نے ساری عمر صبح و شام قرآن پاک کی تلاوت کی تھی۔ جسے گلستان بوستاں اور مسدس حالی زبانی یاد تھیں۔ جس کا اپنا بیٹا حافظ قرآن تھا… لیکن اب اس کے عزیزوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا، جسے سورۃ یٰسین آتی ہو۔
ننھے نے چھت پر پتنگ اڑاتے ہوئے اپنی امی کے رونے کی آواز سنی تو جلدی سے ڈور سمیٹی، پتنگ ایک طرف رکھی اور سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا۔ کمرے میں جھانکا … دادی مررہی تھی۔
’’سورۃ یٰسین پڑھو بہن!‘‘ کسی عورت نے کہا۔
’’سورۃ یٰسین ؟‘‘ ننھا بڑبڑایا۔
پھر تیزی سے چلتا ہوا ساتھ والے کمرے میں گھس گیا۔ ایک الماری کھولی۔ اس کے نچلے خانے میں رکھے دادی کے کپڑے ٹٹولنے شروع کیے۔
اسے یاد آگیا کہ دادی سے اس نے وعدہ کیا تھا۔ ننھے کے چہرے پر ایک عزم جھلکنے لگا۔
دادی کی کہی ہوئی ایک ایک بات اس کے دل میں تازہ ہوگئی تھی۔ ننھے نے ادھر ادھر دیکھا۔ خیال آیا: ’’خالہ مارے گی۔‘‘ خود ہی دل میں کہا: ’’اس نے تو جب بھی مارا تھا۔‘‘ اس کا چہرہ تمتما رہا تھا ’’پیٹے گی تو بھاگ جاؤں گا لیکن دادی سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کروں گا۔‘‘
اس نے ٹیپ ریکارڈ میں کیسٹ لگادی۔
ننھے کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔ ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے۔ اس نے بٹن دبادیا…
پورے کمرے میں سورۃ یٰسین کی آواز گونجنے لگی۔
عورتوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آواز اونچی اور تیز تھی۔ نیچے مردوں والے کمرے تک پہنچی تو مردوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر ان کے چہروں پر اطمینان جھلکنے لگا۔
خوش الحان مصری قاری کی قرأت میں سورۃ یٰسین گونجنے لگی۔
دادی کی بی اے میں پڑھنے والی پوتی نے دل میں کہا:
’’یہ کیسٹ کہاں سے آئی، میرے پاس تو نہیں تھی۔‘‘
ننھا خاموشی سے چلتا ہوا دادی والے کمرے میں آگیا۔
فضا میں سورۃ یٰسین کی گونج تھی…
ننھا دادی کے سرہانے کے قریب کھڑا ہوگیا۔
اس لمحے دادی نے آخری بار آنکھیں کھولیں نگاہیں ننھے پر گڑگئیں۔ ان نگاہوں میں اظہارِ تشکر تھا۔ آنسو ننھے کے رخساروں پر بہنے لگے۔
(مرسلہ: اقبال احمد ریاض، وانم باڑی)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں