ہندوستان میں ہزاروں لوگ ہندو مذہب کو چھوڑ کر بودھ مت قبول کرلیتے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی لیکن اگر ایک شخص اسلام قبول کرلے تو سنگھ پریوار آگ بگولہ ہوجاتا ہے۔ آخر ایسا کیا ہے اسلام میں جو ان جنونیوں کو پاگل بنا دیتا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ایک واقعہ پر غور کیجیے۔ ایک سال قبل اگست میں نومسلم فیصل خلیجی ملک سے چھٹی منانے کے لیے اپنے آبائی وطن کوندنی (کیرالا) میں آیا اور واپس جانے کی تیاری کررہا تھا کہ خون سے لت پت اس کی لاش ترور اسٹیشن کے پاس ملی ۔ ۳۰ سالہ انل کمار نے ۲۰۱۵ میں اسلام قبول کرکے اپنا نام فیصل رکھ لیا تھا۔ اس کو وقتاً فوقتاً فسطائی عناصر سے دھمکی موصول ہوتی رہتی تھی مگر فیصل نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی۔ اس قتل کی واردات میں ملوث ۱۲ سنگھیوں کو پولس نے گرفتار کرلیا جن میں فیصل کا بہنوئی ونود بھی شامل تھا۔ اس جرم کا اہم ترین ملزم مڈاتھی نارائن ہے جس نے ۱۹۹۸ میں یاسر نامی ایک نومسلم کو شہید کردیا تھا۔ دوسال قبل اس کو سپریم کورٹ نے رہا کردیا۔ اگر نارائن کو قرار واقعی سزا ملتی تو وہ خود اپنے جرم کا اعادہ نہیں کرپاتا اور دوسروں کے لیے تازیانۂ عبرت بن جاتا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس نے جیل سے چھوٹنے کے ایک سال بعد پھر سے اسی جرم کا ارتکاب کردیا۔
فیصل کی شہادت سے اس علاقہ کے مسلمان خوفزدہ نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے فیصل کی اہلیہ اور تین بچوں کو تحفظ فراہم کیا جو ماہِ اگست میں مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے۔ ان لوگوں نے آپس میں چندہ جمع کرکے فیصل کے پسماندگان کے لیے نیا مکان تعمیر کردیا۔ فیصل کی اہلیہ کے صبر و استقامت کا اثر اس کے والدین اور دوسرے رشتے داروں پر یہ ہوا کہ ان سب نے بھی ۸ ماہ قبل اسلام قبول کرلیا۔ ابتداء فیصل کی بہن سے ہوئی جس نے قتل میں ملوث اپنے شوہر ونودکی گرفتاری کے بعد اس سے طلاق لے لی اور اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد فیصل کی ماں آگے آئی اور اس نے اپنے بیٹے کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دین حنیف کو گلے لگا لیا۔ بالآخر ایک اور بہن و بہنوئی نے اسلام قبول کرکے بتا دیا کہ وہ فسطائی طاقتوں کے سب سے بڑے ہتھکنڈے سے بھی خوفزدہ ہونے والوں میں سے نہیں ہیں۔ اس خاندان نے اپنے عمل سے مولانا ظفر علی خان کے اس شعر کو سچ کردکھایا کہ :
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ارشادِ ربانی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
فیصل کی صابر وشاکراہلیہ کا کردار شاہد ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جس کے ساتھ ہو وہ کیسا حوصلہ مند ہوتا ہے۔ آگے فرمایا:
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔‘‘
فیصل کو بظاہر اسلام دشمنوں نے ہلاک کردیا لیکن کون کہتا ہے کہ وہ مرگیا اور اس کا کام رک گیا ۔ اس کانور تو موت کے بعد بھی پھیلتا رہا۔ پھر فرمایا ’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔‘‘ ان ۸ ماہ میں فیصل کا خاندان کس کس آزمائش سے نہیں گزرا لیکن اس کے پائے استقلال میں کوئی جنبش نہیں آئی۔ وہ اپنے صبر و استقامت سے اس آیت کی تفسیر بن گئے ’’اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: ‘‘ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ اس طرح ان لوگوں نے اپنے آپ کو رب کائنات کی اس بشارت کا مستحق بنا لیا۔ ’’انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اْس کی رحمت اْن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ فیصل اور اس کے خاندان کی اس عظیم قربانی کو قبول فرمائے اور عالم انسانیت کے لیے اسے مشعل راہ بنا دے۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
جتنا بھی دباؤ گے اتنا ہی وہ ابھرے گا lllن لیوا ثابت ہوتا ہے۔lll