کیا کرپشن کے نقطۂ عروج، آخری تنکے یا روپیہ کے اس نوٹ کا وجود کہیں ہے، جو بھوسے کے اس ڈھیر کے لیے چنگاری کا کام کرسکے اور عوامی بے حسی کو ردِ عمل اور غصہ میں تبدیل کرنے کا کام انجام دے؟ وہ لمحہ کیا کبھی آئے گا جو کرپشن کے تئیں عوامی ردِ عمل کو شدید غصہ میں تبدیل کردے؟ اپنے بچاؤ کے لیے دراصل کرپشن کو انجیر کے پتے کے ذریعہ ستر پوشی کا موقع مل گیا ہے۔ جس کے تحت اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جارہا ہے کہ اب جب کہ ہر شخص ہی بدعنوان ہے تو اس برائی کی مذمت کرنے سے بھی کیا ہوگا؟ یہ ایک ایسی آسان دلیل ہے، جس کے ذریعہ بشمول میڈیا کرپشن کی نگرانی کرنے والے سبھی اداروں کو اس ڈکیتی میں شامل ہونے کا موقع مل جاتا ہے، اس کا فائدہ خواہ انہیں برائے نام ہی کیوں نہ ہو اور اس طرح یہ بے حیائی اس لعنت کی پردہ پوشی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اگر معاشرے میں ہر شخص ہی چور ہوتا ہے تو چوری وہاں قانون کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور پھر ایسے سماج دشمن عناصر پر بھی کوئی انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا۔ دورِ حاضر کے یہ چور اتنے اعلیٰ ظرف ہیں کہ یہ اب ایک دوسرے کے گھروں میں نقب زنی نہیں کرتے اور انہیں اب اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو یہ آرام دہ نظام آپسی جھگڑوں و تنازعوں کا شکار ہوجائے گا۔ یہ لوگ تو اب سرکاری مال کی ہی چوری کرلیتے ہیں اور کیوں نہ کریں سرکاری خزانے میں فی الحال اتنی دولت اور مال و متاع موجود ہے کہ اگر یہ سبھی افراد اپنی دولت کی بھوک مٹانا چاہیں گے تو اس کے باوجود بھی وہاں کچھ نہ کچھ تو باقی رہ جائے گا۔ چوری کا کام اب دن دہاڑے کیا جاتا ہے، اس لیے کہ رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر اس کارروائی کو چوری چھپے انجام دینے والے افراد کو اکثر چوکیداروں کا خوف ستاتا رہتا ہے۔ جبکہ دن کی روشنی میں اس کام کو انجام دینے والے چوروں کو اس رشوت خور حولدار یا تھانیدار کا بھی خطرہ نہیں ہوتا جو دوپہر کے وقت اکثر نیند کے خراٹے لے رہا ہوتا ہے اور ان حالات میں آس پاس کے لوگوں سے مردانگی کی کوئی توقع کرنا ہی فضول ہوگا۔
انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے ہفتے کے شمارے میں پہلے صفحہ پر جن حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے وہ کچھ اس طرح ہیں۔ واضح رہے کہ یہ اسٹوری فی الحال مکمل نہیں ہوپائی ہے۔ بلکہ صرف ایک دن کی ہی خبر ہے۔ سینٹرل وجیلنس کمیشن نے اب تک کامن ویلتھ کھیلوں سے متعلق صرف ۱۶ پروجیکٹوں کی چھان بین کی ہے، جن کا تعلق اسٹیڈیموں کی سہولیات کو بہتر بنانے، سڑکوں و فٹ پاتھوں کی تعمیر اور سڑکوں پر برقی سہولتیں وغیرہ مہیا کرانے سے ہے اور اس کی مالیت تقریباً 2477.2 کروڑ روپئے ہے۔ کمیشن نے چھان بین کے دوران جتنے بھی کوالٹی سرٹیفکٹوں کی جانچ پڑتال کی ہے وہ سبھی جعلی یا مشکوک ثابت ہوئے ہیں۔ یہاں ان دھاندلیوں کی تفصیلات میں جانا تو محض وقت کا زیاں اور ان حقائق کے بار بار دوہرائے جانے کے مترادف ہی ہوگا۔ تاہم یہاں صرف اتنا ہی بتانا کافی ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر اس طرح کی دھاندلی کا معاملہ کافی عرصے کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ ایک کثیر قومی معاملہ ہے اور کیوں نہ ہو یہ کھیل بھی تو دولت مشترکہ ممالک کے ہی ہیں۔ ان کھیلوں کا آغاز ملکہ ایلزبتھ کی Batonکی Relay دوڑ سے کیا جاتا ہے، جس کے تحت ملکہ ایلزبتھ کی اعزاز یافتہ اس Baton کو مختلف کھلاڑیوں کے ذریعہ دہلی پہنچنا ہوتا ہے۔ اس طرح کے کھیلوں میں ظاہر ہے تقریبات کا انعقاد بھی لازمی ہوتا ہے اور اگر تقریب منعقد کی جائے گی تو کرپشن تو اس کا جزولاینفک ہے ہی۔ برطانوی حکام نے ان کھیلوں کے نام پر جاری بدعنوانی کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی ہے۔ کامن ویلتھ کھیلوں کی انتظامیہ کمیٹی نے ایک کمپنی اے ایم فلمز، یو کے لمیٹڈکو ویڈیو سے متعلق ساز وسامان کی سپلائی کے لیے ایک تجارتی سودے کے تحت، جس میں نہ تو کوئی ٹینڈر جاری کیا گیا تھا اور نہ ہی کوئی کاغذی کارروائی یا ضابطوں کا خیال رکھا گیا تھا، برطانوی پاؤنڈز کی شکل میں 1.68 کروڑ روپئے کی رقم روانہ کی تھی اور یہ کمیٹی اب بھی25000 پاؤنڈہر ماہ اس کمپنی کو پابندی کے ساتھ بھیج رہی ہے۔ اس کمپنی کے دفتر کے پتہ پر کتابوں میں محض اے ایم وہیکلز ہائر لمٹیڈ درج ہے جو کہ ویڈیو سازوسامان کا لین دین نہیں، بلکہ ایسے بیت الخلا اور رکاوٹوں کو کرائے پر دینے کا کاروبار کرتی ہے، جن کی منتقلی آسانی کے ساتھ کی جاسکے۔ اس کمپنی کے ڈائریکٹر ۱۴؍جولائی کو اپنے عہدے سے مستعفی بھی ہوچکے ہیں۔ انتظامیہ کمیٹی کی جانب سے اس خبر کی جو تردید جاری کی گئی ہے اس کے حصے بخرے کرنے میں شاید ایک منٹ بھی نہیں لگ پائے گا۔
کھیلوں کے وزیر ایم ایس گل نے پارلیمنٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ۲۰۰۳ء کے بعد سے، جبکہ یہ تمام کھیل شروع ہوا تھا، ان کھیلوں کے انعقاد کے اخراجات میں 17.5 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ یہاں قابلِ غور پہلو 17گنا اضافہ ہے۔ کیا وزیرِاعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو نہیں معلوم ہوپاتا کہ پارلیمنٹ میں کیا چل رہا ہے؟ کیا وہ کھیلوں کی افتتاحیہ تقریب کی صدارت ان لوگوں کے درمیان ہی کریں گے، جن پر دراصل اس لوٹ مار کے لیے مقدمہ چلایا جانا چاہیے، وہ آخر کب تک خاموش رہ کر اس غلاظت سے اپنے آپ کو دور رکھ سکیں گے جو کہ فی الحال ان کے پیروں میں موجود ہے؟ ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے اگرچہ وہ اب تک نہیں آیا ہے، جبکہ ان کی اس خاموشی کی صدا اتنی بلند ہوجائے گی کہ بلند سے بلند تر تقریر بھی اس کے مقابلے میں ماند پڑجائے گی۔ کیا ہم 1973 جیسی صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ 1971کے اوائل میں مسز اندرا گاندھی ووٹوں کی اتنی بڑی تعداد سے دوبارہ منتخب ہوئی تھیں کہ خود ان کی پارٹی بھی حیران رہ گئی تھی۔ ان کی یہ شانددار جیت دسمبر1971 کی بنگلہ دیش جنگ میں فوجی کامیابی کی ہی مرہونِ منت تھی۔ تاہم ایک برس کے اندر ہی اندر مہنگائی نے عوام کے موڈ کو کڑواہٹ میں تبدیل کردیا تھا۔ 1973 کے اواخر تک کرپشن کی دلدل اتنی عمیق ہوچکی تھی کہ حکومت اس میں پھنس کر رہ گئی تھی۔ 1974 میں جے پرکاش نارائن نے، جن کی دیانت داری کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر تھی، مسزاندار گاندھی کے اپنے عہدہ پر برقرار رہنے کو اخلاقی بنیاد پر چیلنج کیا تھا۔ تاہم 2010 میں ایک بڑا فرق یہ ہوگیا ہے کہ اس وقت کوئی جے پرکاش نارائن موجود نہیں ہے۔
بدعنوان لوگوں کے لیے ایک راحت کی بات یہ بھی ہے کہ فی الحال تقریباً سبھی سیاستدانوں کی معتبریت میں اس درجہ گراوٹ آچکی ہے کہ عوام کے پاس اب ایسا کوئی مؤثر طریقہ بھی نہیں ہے، جسے وہ اپنے غصہ کے اظہار کا ذریعہ بناسکیں۔ تاہم یہ خلاء حکومت کے لیے باعث اطمینان بالکل نہیں ہوسکتا، کیونکہ مستقبل میں اسے صرف اپوزیشن پارٹیوں کے غصہ کے بھوت کا ہی سامنا نہیں کرنا ہوگا، بلکہ اس کی اصل پریشانی عوام کی وہ بے اطمینانی ہوگی جو تیزی سے پھیل رہی ہے۔ خوردنی اشیاء کی بڑھی ہوئی قیمتوں کے کوڑے کی مار سب ے زیادہ انہی غریب افراد کو جھیلنی پڑتی ہے، جن کی آمدنی ۱۰۰ روپیہ یومیہ کے آس پاس ہوتی ہے۔ ان غریب افراد کے پاس اپنے کنبے کے لیے روٹی کی ضروریات کو پورا کرنا ہی جسمانی و نفسیاتی اعتبار سے اتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بار بار احتجاج کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں بچ پاتا۔ تاہم ان کی قوت برداشت بھی لامحدود نہیں ہوتی۔ ۲۰۰۹ء میں ان لوگوں نے کثیر تعداد میں ووٹ دے کر کانگریس کو اقتدار کی باگ ڈور اس لیے سونپی تھی، کیونکہ انہیں پارٹی کی دیانتداری پر پورا یقین تھا۔ تاہم یہ لوگ اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ (مضمون نگار ’دی سنڈے گارجین‘ کے ایڈیٹر ہیں)(بشکریہ روزنامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی)
——