زاہدہ نے خط لکھتے لکھتے نگاہ اٹھا کر گھڑی دیکھی۔ آٹھ بج رہے تھے۔ دھوپ دیوار سے نیچے اتر آئی تھی۔ اس کی تیزی اور چمک کے سامنے نگاہ نہیں ٹھہر رہی تھی۔ اس کی بڑی بہن شاکرہ اس کے قریب دوسرے پلنگ پر لیٹی چھت کی کڑیاں گن رہی تھیں کبھی وہ ایک نظر اٹھا کر ٹھنڈے چولہے کو دیکھ لیتیں اور پھر نگاہیں چھت پر کچھ تلاش کرنے لگتیں۔ کمرہ کے سامنے برآمدہ تھا اور اس سے آگے چولہا تھا۔ چولہے کے آس پاس رات کے جھوٹے برتن اور ہانڈیاں چمچے بکھرے پڑے تھے۔ جن پر کوے منڈلا رہے تھے۔ بچا کھچا کھانا چونچوں میں بھر کر اڑ جاتے پھر آبیٹھتے۔ ایک کوا مسلسل پتیلی میں سے چاولوں کی کھرچن نوچ نوچ کر کھا رہا تھا۔ چولہا راکھ سے بھرا تھا۔ ادھ چلی لکڑیاں سامنے پڑی تھیں۔
’’میں نے کہا زاہدہ بلقیس ابھی تک سوکر نہیں اٹھی۔‘‘
’’ہاں آپا‘‘
’’بال بچے دار ہے صبح ہی اٹھ کر گھر سنبھالنا چاہیے۔‘‘
’’ان کا گھر ہے وہی جانیں۔‘‘
’’بچوں کو ناشتہ بھی نہیں ملا بھوکے اسکول چلے گئے۔‘‘
’’نسیمہ نے دودھ گرم کیا تھا نا، وہی پی گئے ہوں گے۔رات کی روٹی کھالی ہوگی۔‘‘
’’بلقیس میں کچھ بھی سلیقہ نہیں کہ سویرے اٹھ کر تازہ ناشتہ تیار کرلیتی اپنے ہاتھ سے بچوں کو کھلا پلا دیتی۔ چولہا بھائیں بھائیں کررہا ہے، برتن بکھرے پڑے ہیں۔ کیسی ہے بلقیس۔‘‘
’’مجھے تو پریشانی نہیں ہوتی آپ کیوں فکر کرتی ہیں۔‘‘
’’ہاں تمہیں تو عادت ہوگئی ہوگی۔‘‘
’’آپ کو بھی تو ابھی تک ناشتہ نہیں ملا۔‘‘
’’میری بات چھوڑو۔ جی چاہتا ہے چولہے کے پاس جا بیٹھوں، جگہ صاف کرکے برتن دھو ڈالوں، چولہا جلے تو گھر میں رونق ہوتی ہے۔‘‘
’’آپ تو دو دن کے لیے مہمان آئی ہیں آپ کو تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
’’حرج تو کچھ نہیں۔ دو دن بھاوج کو آرام مل جائے گا تو یاد کرے گی۔ کیوں زاہدہ۔‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘
’’کیا بلقیس برا مانتی ہے۔‘‘
’’کسی کو گھر کے معاملات میں دخل دینا اچھا نہیں لگا کرتا۔‘‘
’’اپنا گھر اپنا ہی ہوتاہے پرائے گھر پر کیا زور۔‘‘
اس بات کا زاہدہ نے کچھ جواب نہیں دیا۔ وہ سوچنے لگی اپنا گھر، پرایا گھر، گھر تو وہی ہوا جہاں آدمی رہے۔ یہ اپنے گھر پرائے گھر کی کیا بات ہے۔ مگر بات تو ہے جب ہی آپا نے کہا۔ گھر یہ بھی ہے۔ مگر ہم دونوں مسافروں کی طرح بیٹھے ہیں۔ میں اتنا نہیں کرسکی کہ آپا کو سویرے سویرے ناشتہ تیار کرکے کھلا دیتی۔ وہ دو چار دن کے لیے مہمان آئی ہیں ان کا خیال کرلیتی اپنی تو کچھ بات نہیں۔ آپا کو ابھی تک ناشتہ نہیں ملا۔ کتنی تکلیف ہورہی ہوگی۔ زاہدہ جو لکھ رہی تھی لکھ نہ سکی۔ قلم ہاتھ میں رہا اور دھیان کہیں سے کہیں چلاگیا۔
وہ آرام سے اپنے گھر میں آباد تھی اچانک مرزا صاحب کو موت لے گئی۔ اس پر بیوگی کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ بال بچہ کوئی نہ تھا۔ رہنے کا مکان وارثوں میں تقسیم ہوگیا۔ اسے مجبوراً بھائی کے گھر آنا پڑ گیا۔ یوں تو بڑی بہن بھی تھی اس کا گھر بھی تھا مگر بیوگی بہن کے آسرے نہیں کٹتی جب باپ بھائی موجود ہوں۔ اگر ماں زندہ ہوتی تو یہ دشواریاں پیش نہ آتیں۔ یہ ان کی پناہ میں چلی جاتی اور بھائی کے گھر بھاری پتھر بن کر نہ گرتی۔ قسمت کو یہی منظور تھا۔ لکھا ٹلتا نہیں۔ مقدر سے بھاگ کر آدمی جائے بھی کہاں۔
بھاوج اچھی تھی، خوش مزاج اور فراخ دل، مگر ساتھ ہی بے پروا اور غیر ذمہ دار بھی حد سے بڑھ کر۔ زاہدہ کو اکثر اس کی بے پروائیوں سے دکھ پہنچ جاتا۔ کبھی چپ ہوجاتی کبھی خیر خواہی کے خیال سے اسے توجہ دلادیتی۔ یہی حال بلقیس کا تھا۔ کبھی اپنے پھوہڑ پن پر شرمندہ ہوجاتی، کبھی ناگوار گزر جاتا۔ اس وقت گھر کی فضا میں تناؤ اوربدمزگی کی کیفیت پیدا ہوجاتی پھر دونوں پچھتاتیں۔ ویسے دو چار دن بعد آپس میں خود بخود صلح ہو ہی جاتی تھی۔ مگر ایک بے چینی اور پریشانی اسے ضرور گھیرے رہتی۔ بلقیس اپنی عادت سے محبور تھی اور زاہدہ اپنی عادت سے۔ بلقیس کا اپنا گھر تھا وہ اپنی عادت کے مطابق رہنے سہنے کا اختیار رکھتی تھی۔ اسے کسی پریشانی اور گھٹن کا سامنا نہیں تھا۔ کوئی خلاف مزاج بات ہوتی دیکھ کر صبر کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ روک بھی سکتی تھی، بول بھی سکتی تھی اور ناراض بھی ہوسکتی تھی۔ مگر بیوگی کے ان چند طویل سالوں نے زاہدہ کو حساس بنا دیا تھا۔ اس کی عادتیں اور خواہشیں اظہار کا اختیار نہ پاکر اندر ہی اندر گھٹتی تھیں۔ تمام خلاف مزاج باتوں کو خاموشی سے برداشت کرنا پڑتا تھا۔ وہ ناحق اور صریحاً غلط باتوں کو صبر کے گھونٹ بنا کر پیتی تھی۔ طبیعت پر اتنا زبردست دباؤ پڑے تو رد عمل لازمی تھا۔ پرائے گھر میں خواہشات اور عادتوں کو اظہار وعمل کی آزادی کب مل سکتی ہے۔ قدم قدم پر پابندیوں نے زاہدہ کو گھیر رکھا تھا۔ اسی بنا پر وہ سست و افسردہ رہتی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ گھر کے سارے کام وقت پر اور باقاعدگی سے ہوں۔ صفائی، ستھرائی ہو، بچوں کی تربیت اور پرورش کا دھیان کیا جائے اور ان کی تعلیم اور غذا پر مناسب توجہ کی جائے۔ مہمانوں کی خاطر مدارات ہو۔ عزیزوں کے حقوق ادا کرنے کی فکر کی جائے روپیہ پیسہ سلیقہ سے خرچ ہو۔ گھر سے بے ڈھنگا پن اوربد سلیقگی کسی ترکیب سے رخصت ہو۔ اور اس کی فضا میں حسن، قرینہ اور امن و عافیت پیدا ہوجائے۔ اب یہ بات غلط ہو یا درست کم از کم زاہدہ یہی سوچتی تھی۔ مگر ایک بیوہ نند کی تمنائیں ایک صاحب اختیار بھاوج کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتیں۔ یہ بات زاہدہ بھول گئی تھی۔ کئی مرتبہ اس موضوع پر دونوں کی آپس میں جھڑپ ہوجاتی۔ جب کبھی دبی زبان سے زاہدہ اشارہ کردیتی توبلقیس بھڑک اٹھتی۔ بلقیس ایسی بے وقوف نہ تھی کہ زاہدہ کی باتوں کو خاطر میں لاتی۔ اور خلاف مزاج پابندیاں قبول کرکے اپنا آرام حرام کرتی۔
شاکرہ ایک نحیف و نزار کمزور سی عورت بہن کی حالت پر دل ہی دل میں کڑھ رہی ہوگی وہ دیر تک انتظار کرتی رہی کہ زاہدہ کچھ بولے گی یا اٹھ کر شاید چولہے کا رخ کرے خود ہی ناشتہ تیار کرنے لگے۔ بہن مہمان آئی ہوئی تھی وہی کچھ خیال کرلے۔ مگر زاہدہ اداس اور افسردہ اپنے ہی خیالوں میں گم بیٹھی رہی تو اس نے پھر اپنے مدہم آہستہ لہجہ میں بات چیت شروع کی۔
’’میں نے کہا زاہدہ کیا سوچنے لگی۔‘‘
’’کچھ نہیں آپا۔ میرے پاس سوچنے کو کچھ نہیں۔‘‘
’’کیا روز ناشتہ میں اسی طرح دیر ہوتی ہے۔‘‘
’’آپ جانتی ہی ہیں مجھ سے کیوں پوچھتی ہیں۔‘‘
’’روز اتنی دیر اسی طرح بھوکی بیٹھی رہتی ہے۔‘‘
’’ایسی باتیں نہ کیجیے آپا، وہ خود بھی تو بھوکی ہیں۔‘‘
’’میرا دل کیسا دکھتا ہے تیرے لیے۔‘‘
’’آپ کو بھی بھوک لگ رہی ہوگی۔ رات کے آلو بخارے مجھے یاد نہیں رہے وہ اٹھا لاتی ہوں تھوڑے سے کھا لیجیے۔‘‘
’’چلو رہنے دو، صبح ہی صبح آلو بخارے کیا کھائے۔ کوئی شربت لسی بناؤ تو بنا لو۔ کیسی گرمی ہے کلیجہ پھک رہا ہے۔‘‘
’’بھوکا کلیجہ پھکتا ہی ہے۔‘‘
’’صبح کا کام تھوڑا سا تم ہی دیکھ لیا کرو، وہ بچے والی ہے پڑی آرام کرے۔‘‘
’’کیا فائدہ‘‘
’’نہیں سوچتی ہوگی آرام سے بیٹھی کھاتی ہے اور نخرے کرتی ہے اور سارا کام سب کی خدمت اس کے ذمہ۔‘‘
زاہدہ نے ایک دم گھوم کر بہن کو غور سے دیکھا۔
’’آپ کا خیال ہے میرے کام کرنے سے حالات بدل جائیں گے۔‘‘
’’شاید بدل ہی جائیں کرکے تو دیکھ۔‘‘
’’میں کام کروں گی تو کچھ اپنی مرضی بھی کروں گی۔ اس گھر میںمیری مرضی چلے یہ ان سے برداشت ہوجائے گا۔ بہت دفعہ تجربہ کرچکی ہوں۔‘‘
’’اس کا مجھے کیا پتہ، پڑھ لکھ کر تمہارا دماغ چل گیا ہے الٹی الٹی باتیں نکالتی ہو۔‘‘
’’تو آپا کسی قاعدے کسی ڈھنگ کے بغیر کام کرنا میرے بس کا بھی نہیں۔‘‘
’’بھئی تم جانو، میں نے تو ایک بات کہی ہے تمہیں رہنا جو ہوا اسی گھر میں تو اچھا ہے مل جل کر رہو۔ میرا کیا ہے چار دن کو آئی ہوں وقت ہی ہے ناگزر جائے گا جیسے تیسے۔ دیر میں ناشتہ ملا تو کیا، کھانا اچھا ملا یا برا ملا تو کیا۔ بھاوج نے بے پروائی کی یا منہ چڑایا تو کیا۔ چلی جاؤں گی اپنے گھر تم سب کو دیکھ کر۔ وہاں جاکر جو چاہوں اور جب چاہوں کھاؤں پیئوں کسی کی آنکھیں نہیں دیکھنی پڑیں گی۔ مجھے اپنا کوئی غم فکر نہیں میری بلا سے بلقیس کچھ بھی کرے۔‘‘
’’ہاں آپا آپ کو کیا بلقیس کچھ بھی کرے۔ گھر کا گھر بگڑا رہے۔ آپ کا گھر جو ہوا، آپ کو یہاں کی بے پروائی کاکیا غم۔ یہاں کے بے ڈھنگے پن کی کیا فکر۔ مجھے تو یہاں رہنا ہے یہیں عمر بتانی ہے میری دنیا تو یہی چار دیواری ہے۔ میں کیا کروں۔ دل کو کس طرح سمجھاؤں؟‘‘
’’زاہدہ سن تو آج کیسی باتیں کررہی ہے تو‘‘
’’کیسی بھی نہیں۔ ذار سا اپنے دل کا پٹ کھولا ہے۔‘‘
’’میری طرح کیوں نہ سوچ لیتی تو بھی۔‘‘
’’کس طرح سوچ لوں‘‘
’’تیرا دل گھر میں بری طرح پھنس گیا۔‘‘
’’میرا دل‘‘
’’ہاں‘‘
’’تم یونہی کہو گی آپا۔ تمہارا گھر پیچھے موجود ہے۔ میرا پیچھے کوئی گھر نہیں۔‘‘
شاکرہ یہ سن کر سوچ میں پڑ گئی۔
’’میری بھی کچھ خواہشیں ہیں، کئی تمنائیں تڑپتی ہیں۔ کیسے کیسے ارمان تھے اور اور کوئی بس نہیں کوئی اختیار نہیں۔‘‘
’’کیسا روگ لگالیا تو نے اپنی جان کو۔‘‘
’’جب وہ معصوم بچوں پر دھاڑتی ہے، بیدردی سے پیٹتی پٹختی ہے، ان کو گالیاں دیتی اور کوستی ہے تو میرا دل خون ہوجاتا ہے۔ کانوں میں انگلیاں دے لیتی ہوں منہ پھیر لیتی ہوں مگر اٹھ کر اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتی۔ اس کی مار سے ان کو بچا نہیں سکتی۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے دن رات یہ اندھیر ہوتے دیکھوں اور بت بنی رہوں اور اسی گھر میں رہوں۔مگر اور ٹھکانا بھی کہاں ہے۔ اور تم کہتی ہو کہ تو نے گھر میں دل پھنسا لیا۔ کیوں نہ پھنساؤں۔ مجھے رہنا یہیں ہے۔ میرا جی چاہتا ہے میرا ٹھکانا میری مرضی کے مطابق ہو۔‘‘
شاکرہ بہن کے جذبات کے ابال کو دیکھ کر شش و پنج میں پڑگئی۔ وہ کچھ بھولی بسری باتیں یاد کرنے لگی۔
’’ان خواہشوں کے جال سے نکل زاہدہ، تو بلقیس کی مرضی پر نہیں چل سکتی وہ تیری مرضی پر کس طرح چل سکے گی۔ یہ لمبی چوڑی تمنائیں انسان کو دنیا سے باندھ کر پٹخنیاں دیتی ہیں اسے کچل ڈالتی ہیں اور کچھ بھی نہیں۔ تو یہ بات بھول گئی جتنا دنیا میں دھنسو گے یہ اتنا ہی اپنے لپٹوں میں جکڑ لے گی۔‘‘
’’میں دنیا میں دھنسی رہتی ہوں نہیں آپا۔ میرا تو کچھ بھی نہیں ایک گھر بھی نہیں دنیا تو بڑی چیز ہے۔‘‘
’’اپنی خواہشوں اور تمناؤں کو پورا کرنے کی فکروں میں ہر وقت لگے رہنا یہی دنیا ہے اور کیا ہے؟
’’اف! یہ دنیا، دنیا سے کس طرح بے نیاز ہوجاؤں ابھی زندہ ہوں نا۔ زندگی اور اس کی ضرورتیں، زندگی اور اس کی خواہشیں، یہ دنیا کیو ںبنائی خدا نے آپا۔ یہ زندگی کیوں دی ہے ہمیں۔ دل میں ہزاروں خواہشیں اور ارمان کیوں بھر دئیے جب خواہشوں کے طوفان امنڈتے ہیں تمناؤں کے بگولے گھیرتے ہیں توانسان کو قدم جمانا مشکل ہوجاتا ہے۔ تم کہتی ہو تو دنیا میں پھنسی ہے۔ میں کب پھنسی ہوں۔ الٹا دنیا نے مجھے پھانس رکھا ہے اور بغیر مرضی کے۔‘‘
’’تو نے تو ایک بات پکڑ لی میری۔ میں نے تو ایک سیدھی سی بات کہی تھی کہ جتنا دنیا کا خیال کرو پریشانی اور بے چینی بڑھتی ہے۔ بلقیس بات نہیں مانتی نہ سہی وہ جانے۔ گھر کا گھروا بنا رہے تجھے کیا۔ تو کیوں خیال کرتی ہے اتنا۔ دل کو کیوں لگاتی ہے۔ اس کا گھر ہے۔ اپنے اگلے گھر کی فکر کر۔‘‘
’’اپنے اگلے گھر کی۔‘‘
’’ہاں‘‘
’’کیا میرا بھی کوئی گھر ہے۔‘‘
’’کیوں نہیں، سب کا ہوتا ہے، مگر کسی کو دھیان نہیں۔ سچ بتا کبھی اس گھر کا دھیان آیا، اس گھر کے سدھار سنوار کے لیے کبھی ایسی ہی بے تابی بے چینی محسوس ہوئی۔‘‘
زاہدہ بہت گہری سوچ میں چلی گئی۔
’’وہ گھر‘‘
’’ہاں زاہدہ‘‘
’’مجھے پہلے کیوں خیال نہیں آیا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں اب خیال کرلے۔‘‘
’’ہائے کتنا وقت چھوٹی چھوٹی فضول خواہشوں پر روتے گزر گیا۔‘‘
’’ہر خواہش فضول نہیں ہوتی۔‘‘
’’سچ آپا‘‘
’’اور کیا۔ یہی بات جسے کہا گیا ہے دنیا میں مت دھنسو دنیا کی خواہشوں اور ضرورتوں میں اتنے غرق نہ ہوجاؤ کہ اگلا گھر دھیان سے اتر جائے۔ ہم سب لوگوں کی حالت بالکل یہی ہے مسافروں کی طرح ایک کنارے بیٹھے ہیں۔ یہ دنیا ہمارا اپنا گھر نہیں۔ کسی بات پر اختیار نہیں۔ ذرا سا دم لینے کا ایک ٹھکانا مل گیا ہے ہم نے سمجھ لیا یہی ہمارا گھر ہے۔ یہی ہماری منزل ہے۔ منزل پر آجانے کے خیال سے ہم نے پاؤں پسار لیے ہیں اور پاؤںہیں کہ پھیلتے چلے جارہے ہیں۔ آرام آسائش کا خیال من مانیاں کرنے کی دھن میں لگ گیا ہے۔ زاہدہ یہ گھر نہ تیرا ہے نہ بلقیس کا دونوں بھول میں پڑی ہو۔ تم جتنی جلدی سمجھ جاؤ اچھا ہے۔ بلقیس کو بھی خدا اس کی توفیق دے گا۔
’’اچھا آپا اس گھر کی فکر کروں تو ملے گا‘‘
’’ڈھونڈو تو کیا نہیں ملتا۔‘‘
دونوں بہنیں باتوں میں بھوک پیاس بھول گئی تھیں۔
بلقیس ناشتہ کی ٹرے اٹھائے شرمندگی سے مسکراتی ہوئی پہنچی۔
’’آپا جی آج بہت ہی دیر ہوگئی۔ رات ننھے نے سونے نہیں دیا۔ گرمی بھی بہت تھی۔‘‘ شاکرہ نے اٹھ کر میز سامنے کرلی۔ ’’چلو کوئی بات نہیں۔ سوچ رہی تھی میں ہی بچوں کو ناشتہ بنا کر دے دیتی مگر رات آپ سے پوچھنا بھول گئی۔ آج بتا دینا۔ صبح بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھلا پلا کر اسکول بھیج دوں گی۔ چار دن تمہیں آرام مل جائے گا۔ جتنے دن میں یہاں ہوں تمہیں بے فکری رہے گی۔‘‘ تینوں ناشتہ کرنے لگیں۔