٭…’’امی! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ مجھے برقع سلوادیں۔‘‘ … ’’اس کی کیا ضرورت ہے؟ بس چپ کرکے نماز ،روزہ کرتی رہو اتنا کافی ہے۔ کیا ہم سب پردہ نہ کرنے والی مسلمان نہیں ہیں؟‘‘ … ’’لیکن حضرت فاطمہؓ، حضرت عائشہؓ وہ بھی تو پردہ کرتی تھیں۔‘‘ … ’’لو جی چلی ہے اُن کا مقابلہ کرنے۔ وہ پاکباز ہستیاں…! بس چپ کرکے اپنی پڑھائی مکمل کرو اور گھر بساؤ۔ صاف ستھری زندگی گزارو، اتنا کافی ہے۔ بہت زیادہ وہابی بننے کی ضرورت نہیں۔‘‘
٭… ’’یہ ذرا میوزک بند کردیں۔‘‘ ’’مگر کیوں؟‘‘ …’’مجھے میوزک پسند نہیں ہے۔‘‘ … ’’لو اور سنو، دھیمے سروں کی موسیقی روح کو سرور دیتی ہے اور یہ بی بی توبہ کرکے بیٹھ گئی۔‘‘
’’نبی ﷺ نے ناپسند کیا ہے۔ آپؐ نے کانوں میں انگلیاں دے لی تھیں، بانسری کی آواز پر…!‘‘’’ لیکن وہ تو اللہ کے نبیﷺ تھے اور ہم تو بیچارے گنہ گار سے لوگ ہیں۔ تم اب اتنی بھی جنت بی بی بن کر نہ دکھایا کرو… ہم بھی مسلمان ہیں۔ ہمیں بھی اسلام کا سب پتہ ہے۔ ضروری نہیں کہ اکیسویں صدی میں بیٹھ کر تم پرانی باتیں چھیڑدو۔‘‘
٭… ’’اوہو… آپ تو فلم دیکھ رہی ہیں۔ اچھا میں چلتی ہوں۔ دراصل یہ ننھی ماہم میرے ساتھ ہے نا۔ میں نہیں چاہتی اس کے معصوم ذہن پر برے اثرات مرتب ہوں۔ ہم نے فلمیں، ڈرامے سب چھوڑ دیے ہیں۔ ‘‘ … ’’لیکن صاف ستھری تفریح میں کیا نقصان ہے۔ ہلکی پھلکی لَو اسٹوری ہے۔ کبھی کبھار ذائقہ بدلنے کو دیکھنے میں حرج ہی کیا ہے؟‘‘ … ’’مگر یہ لہو و لعب ہے اور شرم و حیا کے سارے احکام توڑ کر فلمیں ڈرامے بنتے ہیں۔ جس کام کا کرنا منع ہے اس کا دیکھنا بھی غلط ہے، اور آپ…‘‘ … ’’بس بی بی یہ وعظ اپنے پاس سنبھال کر رکھو۔ تم مولویوں نے تو جینا حرام کررکھا ہے۔ ہم بھی مسلمان ہیں۔ روزے رکھتے ہیں، نماز پڑھ لیتے ہیں۔ اتنا کافی ہے۔ سارا وقت تم اپنی پاکبازی کا رُعب گانٹھتی ہو۔ جاؤ اپنا راستہ پکڑو، اور وہ ’اپنا راستہ‘ پکڑ کر چل دی!‘‘
٭… ’’تم نے مہندی کے کپڑے سلوالیے؟‘‘ … ’’میں تو مہندی پر نہیں جاتی۔ یہ غلط رسم ہے۔ فضول خرچی ہے، بے دینی اور گناہ ہے۔‘‘ … ’’ایک تو اس کی ہر بات ہی دنیا سے نرالی ہے۔ یہ فضول خرچی ہے، دین داری کیا ہے؟ کیا تمہاری خالہ، پھوپھی، بھائی کی مہندی نہیں رچائی گئی تھی؟ وہ سب بے دین اور کافر تھے کیا؟‘‘
’’میں نے اس وقت تک قرآن و حدیث نہیں پڑھے تھے۔ اب پڑھ لیے تو جان بوجھ کر آنکھوں دیکھی مکھی کیسے نگل لوں۔‘‘
’’ایک تو ہر چیز میں تمہارا اسلام کو گھسیٹ لانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ارے فیملی گیٹ ٹو گیدر ہے اور بس۔نہیں جاتی تو نہ جاؤ، بدذوق، بدشوق بڈھی روح۔‘‘
٭… ’’یہ تم نے نیا گھر بنایا۔ میں تو بڑے شوق سے تمہاری فرنشنگ دیکھنے آئی تھی۔ یہ سادہ مرادہ سا گھر۔ نہ صوفے نہ کھانے کی میز نہ ڈبل بیڈ۔‘‘ … ’’ہاں دنیا مسافرت کا گھر ہے۔ یہ عالی شان گھر آپ کو سادہ لگ رہا ہے۔ وہ اللہ کے نبی … وہ حضرت عمرؓ…‘‘
’’بس بس، اب ایک لفظ نہ کہنا۔ ہمیں گنہ گار کرتی ہو۔ ارے تم اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہو۔ ہر وقت اتنے بڑے بڑے لوگوں کے نام ، اللہ کے نبیؐ، صحابہؓ، صحابیاتؓ سے کم تو نام ہی نہیں لیتیں۔ توبہ توبہ … کہاں وہ اور کہاںہم … ہاں تو پھر گاڑی پر کیوں بیٹھتی ہو۔ اونٹ گھوڑے خرید لو۔ بھیڑ بکریاں چراؤ… لکڑیاں جلاؤ… ہونہہ… پھر چلی ہے اسلام کی کہانی سنانے۔ بس بس رہنے دے۔ ہم بھی مسلمان ہیں۔‘‘
٭… ’’ارے بیٹے یہ تم نے داڑھی رکھ لی ابھی تو تم جوان ہو؟ اور یہ حلیہ کیا بنا رکھا ہے۔ پاجامہ ٹخنوں سے اوپر؟ اچھا بھلا اسمارٹ لڑکا، پڑھا لکھا، تمہیںکیا ہوگیا ہے؟ مسجد کے مولوی دِکھ رہے ہو بالکل، لگتا ہے ماں والے دورے تمہیں بھی پڑنے لگ گئے ۔‘‘ … ’’جی خالہ ! یہ سب نبی ﷺ کی سنتیں ہیں۔ یہ دنیا کی غلامی سے آزاد ہوکر اللہ کی غلامی میں آجانے کا نتیجہ ہے۔ دراصل میں ذرا آزاد خیال واقع ہوا ہوں…‘‘
’’چلو چلو… بڑی بی بی تو تھیں ہی… چھوٹے میاں اور سبحان اللہ نکلے۔ ہم بھی مسلمان ہیں۔ اللہ کو ہم بھی جانتے ہیں، وہ بڑا مہربان اور معاف کرنے والا ہے۔ خواہ مخواہ اعصاب پر ہر وقت اسلام سوار کیے رکھنا ضروری نہیں۔ تم جیسے لوگوں نے اسلام کو بدنام کررکھا ہے۔ ہم بھی تو مسلمان ہیں۔ سیدھے سادھے پرسکون ، تم لوگوں کی طرح نہیں کہ…‘‘
٭… ’’ویسے یہ مسلمان بیچارے ہرجگہ دب پس کر رہ گئے۔ دل بہت کڑھتا ہے۔ عراق، افغانستان تو تھے ہی، اب اسرائیل غزہ میں گھس گیا۔ بچے مار ڈالے۔ مسلمانوںکا خون بہادیا۔ ہائے بیچارے معصوم بچے ، کمزور عورتیں، بے بس بوڑھے… اس دور میں کیا محمد بن قاسم پیدا نہیں ہوتے…؟ صلاح الدین ایوبی کہاں رہ گیا؟ ابابیلیں بھی نہیں آتیں؟ دل بڑا دکھی ہے۔
——