۲- جی اسپکٹرم گھوٹالے کے ملزم سابق ٹیلی کام منسٹر اے راجہ کے معاملہ پر پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس اب بھی تعطل کا شکار ہے۔ دو ہفتوں سے زیادہ دنوں سے پارلیمنٹ کا کام کاج ٹھپ ہے۔ اپوزیشن مسلسل اس بات کا مطالبہ کررہی ہے کہ اس گھوٹالے کی تحقیق کے لیے ایک جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) تشکیل دی جائے۔ مگر حکومت اسے اپنی ناک کا مسئلہ سمجھتے ہوئے مسلسل جے پی سی کی تشکیل سے انکار کررہی ہے۔ برسرِ اقتدار جماعت سرکردہ لیڈران اس اشو کو سلجھانے اور پارلیمنٹ کو اپنے کام سے نہ روکنے کی اپیلیں بھی کررہے ہیں۔ کئی بار اسپیکر کی جانب سے آل پارٹی میٹنگیں بھی منعقد کی جاچکی ہیں مگر ناکامی کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوسکا۔
اپوزیشن کے ایک گروپ نے صدریہ جمہوریہ سے مل کر انہیں ایک میمورنڈم بھی دیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور حکومت کو ہدایت دیں کہ وہ جے پی سی تشکیل دے تاکہ اس گھوٹالے کا سچ عوام کے سامنے آسکے۔ ادھر حکومت اس معاملے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرانے کی یقین دہانی کرارہی ہے۔ خود وزیر اعظم منموہن سنگھ کہہ چکے ہیں کہ خطا کار بخشے نہیں جائیں گے مگر پارلیمنٹ کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ خطا کاروں کا سزا ملے یا نہ ملے مگر پارلیمنٹ کو اس قدر طویل مدت تک معطل کیے رکھنا جمہوریت اور جمہوری قدروں کے لیے اسی طرح نقصان دہ ہے جس طرح حکومت کا اپوزیشن کے مطالبے (جے پی سی) کی تشکیل سے انکار نقصان دہ ہے۔دونوں ہی جمہوریت کے دشمن عمل ہیں مگر جمہوریت کے نام پر ہی انجام دیے جارہے ہیں۔
ہم ہندوستانی ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے اسے اپنی بدقسمتی ہی تصور کرتے ہیں کہ یہاں ہر چیز کو سیاست کی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ آج بھارتیہ جنتا پارٹی مین اپوزیشن ہے اور کل یہی جب برسراقتدار تھی تو اس کا طرزِ عمل دوسرا تھا۔ اب کانگریس برسرِ اقتدار ہے اور پہلے اپوزیشن میں تھی تو اس کا طرزِ عمل اب کچھ اور ہے اور پہلے کچھ اور تھا۔ یہاں اقتدار اور اپوزیشن کے تبدیل ہوتے ہی ’’لینے اور دینے کے پیمانے‘‘ بدل جاتے ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں دونوں فریق عوام کے سامنے حق پیش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، عوام کی خیر اور بھلائی کی خاطر جنگ لڑتے ہیں مگر یہ جنگ اور اس کے پانسے اچانک ایسے پلٹ جاتے ہیں جیسے مچھلی کسی کے ہاتھ سے نکل کر تالاب میں غائب ہوجائے اور پھر ’’ڈھونڈھتے رہ جاؤ‘‘ کہہ کر آپ چل دیں۔
ابھی ابھی کی تازہ بات ہے۔ کامن ویلتھ گیمس کا معاملہ تازہ ہے۔ عین یہ گیمس شروع ہونے سے چند روز قبل اس میں ہونے والی مالی بدعنوانیوں کی آوازوں سے پورا ملک گونج اٹھا تھا۔ ستر ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی مالیت کا تھا یہ معاملہ۔ مگر ۲- جی اسپکٹرم کے آتے ہی ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ، اور اب ڈھونڈتے پھرئیے کامن ویلتھ گیمس میںمالی بدعنوانی کرنے والوں کو۔ دراصل ہندوستانی عوام کا حافظہ بڑا کمزور ہے۔ یہ چیزوں اور باتوں کو بہت جلد بھول جاتے ہیں ابھی ایک ماہ پہلے کی بات کو بھول گئے۔ اس وقت بھی وزیراعظم نے اسی طرح یقین دہانی کرائی تھی کہ مجرموں کو بخشا نہیں جائے گا، مگر ہنوز کوئی بڑا مجرم قانون کی گرفت میں نہیں آسکا ہے۔ اور اندیشہ ہے کہ مستقبل میں بھی نہ آسکے۔ کیونکہ تجربہ کار اور جہاں دیدہ لوگوں کا یہ کہنا رہا ہے کہ قانون مکڑی کا جالا ہے اس میں جب کوئی چھوٹی مکھی داخل ہوتی ہے تو وہ پھنس جاتی ہے، جب کوئی بڑی مکھی پھنستی ہے تو وہ اسے توڑ کر نکل جاتی ہے۔
ہندوستان میں گھوٹالے اور اسکنڈلس کوئی ان ہونی اور نئی بات نہیں۔ بلکہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تو یہاں قابلِ اعتنا ہی تصور نہیں کیا جاتا الاَّ یہ کہ کوئی بڑا سیاسی گروہ اس کی مخالفت میں کھڑا ہوجائے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک دلت صدر وہ واحد کمزورانسان ثابت ہوئے جنھیں محض چند لاکھ روپے کی رشوت لیتے کیمرے میں دیکھا گیا اور انہیں اپنا کیرئر گنوانا پڑا۔ ورنہ باقی جتنے بھی لوگ اسکنڈلس کی تاریخ میں درج ہوئے وہ بڑے بڑے اور بڑی بڑی رقموں کے گھوٹالوں میں ہی درج ہوئے۔
دراصل ہم ہندوستانی بہ حیثیت قوم بڑے لالچی اور دولت کے حریص ہیں۔ یہاں دولت کوایک دیوی مان کر اس کی باقاعدہ پوجا کی جاتی ہے۔ جہا ںدولت کی پوجا ہوتی ہو وہاں اس کے حصول کے لیے جائز و ناجائز کا تو تصور ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور اگر یہ سوچ عوام کے درمیان پھیلی ہوئی ہو تو پھر امانت داری اور ایمانداری کہاں نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک وزیر سے لے کر ایک معمولی کلرک اور چپراسی تک جب بھی موقع پاتا ہے ملک کی دولت پر اپنا ہاتھ صاف کردیتا ہے۔ ایسے میں گھوٹالوں کی حقیقی فکر نہ تو سیاست دانوں کو ہے اور نہ عوام کو۔ اور اگر فکر ہوتی ہے تو صرف دوسری پارٹی کو نیچا دکھانے اور اپنی وقتی برتری ثابت کرنے کے لیے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کے درمیان حب الوطنی کا صحیح تصور پیدا کیا جائے اور عوام کو زیادہ ذمہ دار بنانے کی غیر سیاسی شعوری مہم چلائی جائے۔ ورنہ یہی ہوگا کہ ’’سنٹرل وجلینس کمیشن‘‘ جو کرپشن کے معاملات کو پکڑنے والا ادارہ ہے اس کے سربراہان بھی کرپٹ ہوجائیںگے یا کرپٹ سیاست دانوں کا آلۂ کار بنے سے محفوظ نہ رہ سکیں گے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
۱۲؍نومبر کو جمعہ کے روز دو بجے دوپہر میرے والد محترم عبداللطیف صاحب کا انتقال ہوگیا۔ وہ جماعت اسلامی ہند کے متحرک ممبر تھے اور آل انڈیا اجتماع ارکان میں شرکت کے لیے دہلی آئے تھے۔ وہ گزشتہ کئی مہینوں سے بیمار تھے لیکن اب طبیعت بہتر تھی اور اچھی طرح چل پھر رہے تھے۔ دو دن اجتماع گاہ ہی میں قیام کیا اور پروگراموں میں بھی شریک رہے۔ تیسرے روز طبیعت بہت نڈھال ہوگئی اور دوا خانے میں داخل کرانا پڑا۔خون کی شدید کمی کے پیشِ نظر ڈاکٹروں نے خون بھی دیا لیکن کمزوری بڑھتی گئی۔ آخر کار ۹؍نومبر کو دہلی کے گروتیغ بہادر اسپتال میں داخل کیا گیا جہاں تین روز علاج کے بعد چوتھے دن 1:55 پر نماز جمعہ کے وقت انھوں نے آخری سانس لی۔
بس معمولی سے تعلیم یافتہ ہمارے والد محترم نے اپنے وسیع مطالعہ کے ذریعہ بڑی اچھی معلومات اور مضبوط اسلامی فکر تک رسائی حاصل کرلی تھی۔ وہ ایک اچھے خادم خالق اور داعی تھے۔ اپنی ہمہ گیر اور تعمیری سوچ کے سبب وہ مسلم و غیر مسلم طبقہ میں معروف تھے بلکہ اصحابِ فکر واثر غیر مسلم طبقہ میں زیادہ مقبول تھے۔ علاقے کے بڑے بڑے بارسوخ اور سیاسی لوگ ان سے ملنے آتے۔ کسی بھی غریب، حاجت مند یا پریشان آدمی کے ساتھ فوراً سرکاری حکام کے گھر یا دفتر پہنچ جاتے۔ غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کے لیے لوگوں کو متوجہ کرتے اور ان کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔
یتیمی میں بچپن گزارا، ماں نے بڑی مشقتوں سے بیوگی کی حالت میں پانچ بچوں کو پالا۔کیونکہ وہ سب سے بڑے تھے ، اس لیے جلد ہی فکرِ معاش میں الجھ گئے اور تعلیم کا موقع نہ ملا۔ عین جوانی کے دور میں تحریکِ اسلامی سے وابستہ ہوگئے اور سب کاروبار اور تجارت چھوڑ کر اسی میں لگ گئے۔ ایمرجنسی میں جیل میں بھی دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزارا اور آزمائش کے ان شدید حالات میں ان کی مرحومہ شریکِ حیات حمیدہ بیگم نے نہ صرف ہمت نہیں ہاری بلکہ ان کے مشن کو تھام لیا۔
مضبوط دینی فکر کے نتیجہ میں اپنے سبھی بچوں کی بہترین تربیت کی، تنگ دستی کے باوجود تمام بچوں کو اچھی تعلیم دلائی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی جدوجہد کو قبول بھی کیا کہ تینوں لڑکے برسرِ روزگار ہوگئے۔ لڑکیاں تعلیم یافتہ ہوگئیں اور اللہ تعالیٰ نے حج کی توفیق بھی عنایت فرمائی۔
دو سال قبل جب سے وہ حج سے آئے تھے کافی کمزور ہوگئے تھے۔ حج کے سفر نے ان کی زندگی پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے تھے۔ وہ خود کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو آبِ زم زم سے دھودیا ہے۔ بستر مرگ پر بھی پوچھ رہے تھے آج کیا تاریخ ہے۔ حج شروع ہوگیا؟ حاجی آنے والے ہو ںگے…
ان کی ذات ہمارے لیے ہمیشہ عزم و حوصلہ کا باعث رہی۔ ہمیشہ حوصلہ دلاتے اور ستائش کرتے۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی اللہ پر توکل کرنے والے والد محترم اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ اب کون ہمیں ہماری غلطیوں پر محبت سے ٹوکے گا، مایوسیوں میں حوصلہ دے گا اور کامیابیوں پر ستائش کرے گا۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں تقریباً ستر سالہ زندگی عنایت فرمائی اور اس میں چالیس سال سے بھی کچھ طویل عرصہ اسلام کی خدمت میں گزارا اور آخری وقت تک وہ اپنے مشن میں لگے رہے۔ بیماری کا عرصہ بہت مختصر رہا اور جس فکر سے انھوں نے اپنا دامن باندھ لیا تھا اسی کے محاذ پر وہ اپنے رب سے جاملے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے اور ہم بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کو صبر کی توفیق دے۔ آمین!
مریم جمال