دنیا بھر میں کروڑوں مسلم خواتین حجاب اوڑھتی ہیں، اسکارف لیتی ہیں اور چہرے کا پردہ بھی کرتی ہیں۔ حجاب اسلام سے مخصوص ہے، لیکن تورات، زبور اور انجیل میں بھی اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ مسلم معاشروں کے علاوہ بہت سے دوسرے مذاہب اور تہذیبی حلقے حجاب کو خاتون کے لباس کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے بعض حلقوں بالخصوص یورپ اور حال ہی میں امریکہ میں بھی حجاب کی مخالفت میں باقاعدہ حکومتیں سامنے آئی ہیں اور قانون سازی کی گئی ہے جس کے تحت پبلک مقامات پر اور دورانِ ملازمت و تعلیم حجاب کو خلافِ قانون قرار دیا گیا ہے۔ یہ محض ایک مذہبی روایت یا علامت ہی نہیں ہے، بلکہ دین اسلام میں بالخصوص یہ خاتون کی پہچان ہے۔ اسے کپڑے کا ایک ٹکڑا سمجھنے والے غلطی پر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکولر چارٹر برائے حقوق انسانی کے مطابق بھی حیا داری کے تقاضوں کو پورا کرنا ہر مسلم خاتون کا ایسا حق ہے جسے کسی قانون سازی سے چھینا نہیں جاسکتا۔
حالیہ برسوں میں ہالینڈ، فرانس اور جرمنی میں مسلم خواتین کی آزادی سلب کرنے کے واقعات ہوئے ہیں۔ انھیں حجاب استعمال کرنے سے قانوناً روکا جارہا ہے۔ یہ یوروپی کنونشن برائے حقوقِ انسانی کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ برطانیہ میں مسلم ایسوسی ایشن آف برٹین نے مسلم ویمن سوسائٹی کے ساتھ مل کر حجاب کے تحفظ کے لیے ایک اسمبلی منظم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اسمبلی کے فلور سے کوشش کی جائے گی کہ ہر ممکن اخلاقی، قانونی اور پُرامن ذریعے استعمال میں لاتے ہوئے مسلم خواتین کے لباس کا ہر سطح پر تحفظ کیا جائے۔ حجاب کے بارے میں اس مہم کو بہت سی تنظیموں کی مدد اور وسائل حاصل ہیں۔ ان میں نمایاں نام لبرٹی آف ہیومن رائٹس، نسل پرستی کے خلاف قومی اسمبلی، دی فیڈریشن آف اسلامک آرگنائزیشنز ان یورپ، اسلامک فورم آن یورپ، اسلامی سوسائٹی برطانیہ، ایسوسی ایشن آف مسلم لائرز، EMELمیگزین اور اسلام آئن لائن کے ہیں۔ بعض اہم غیر مسلم شخصیات بھی مسلم خاتون کے اس حق کے تحفظ میں تعاون کررہی ہیں۔ ان میں فیونالیک ٹیگارٹ رکن برطانوی دارالعوام، کین لیونگسٹن میئر آف لندن اور جارج گیلووے کے نام اہم ہیں۔ ان تنظیمات اور شخصیات کا تعاون ہی تھا جس کی وجہ سے ۱۲؍جولائی ۲۰۰۴ء کو میئر آف لندن کے تعاون سے سٹی ہال میں کانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا۔ پہلی بار ۲۰۰۴ء میں ۱۷؍جنوری کو بین الاقوامی حجاب ڈے منایا گیا۔ اس دن دنیا کے ۳۵؍ممالک میں پروگرام ہوئے۔ اس کے بعد ۴؍ستمبر کو ’عالمی یومِ حجاب‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔
دنیا بھر میں ۴؍ستمبر کو اس سال بین الاقوامی یومِ حجاب منایا گیا۔ اسمبلی برائے تحفظ حجاب نے دنیا بھر میں یہ دن منانے کی اپیل اگست میں ہی کردی تھی۔
اس موقع پر یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ۲۰۰۹ء میں بین الاقوامی یومِ حجاب کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت علامہ یوسف قرضاوی کی ویب سائٹ اسلام آن لائن کے ذریعہ ہوئی۔ اس کی دعوت پر فیصلہ کیا گیا کہ اس دن کو اس عظیم شہید خاتون کے ساتھ یکجہتی کے اظہار میں منایا جائے جسے جرمنی کی عدالت میں ایک جنونی نے حجاب اوڑھنے پر شہید کردیا تھا۔ اس مصری خاتون کا نام مروا تھا۔ اس واقعہ نے دنیا بھر غم و غصہ کی لہر دوڑا دی تھی۔ اس حملے میں اس شہید خاتون کے شوہر بھی زخمی ہوئے تھے۔ اسمبلی برائے تحفظ حجاب نے بھی اس تجویز کی حمایت کردی تھی اور اس کی اس وقت کی قیادت نے یومِ حجاب کو ’’مروا الشربینی‘‘ کے ساتھ یکجہتی کے طور پر ہی منایا تھا۔ اس شہید خاتون کو شہیدِ حجاب بھی قرار دیا گیا اور یورپ کے خود ساختہ اسلام فوبیا کا بھی شاخسانہ قرار دیا گیا۔ اس خاتون کو روسی نژاد جرمنی شہری نے ۱۸؍بار چاقو سے زخمی کیا تھا، لیکن عدالت میں کسی کو یہ توفیق نہ ہوسکی کہ وہ آگے بڑھ کر اسے روکے۔ جب خاتون کے شوہرآگے بڑھے تو ان کو بھی بھر پور وار کرکے زخمی کردیا گیا۔
فورم آف یورپین مسلم یوتھ اور اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن FEMYSOنے ۲۰۱۰ء میں بین الاقوامی یومِ خواتین کے موقع پر مسلم خواتین کے لباس اور حجاب سے اظہارِ یکجہتی کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کی مناسبت سے ایک اعلان میں کہا گیا تھا کہ فورم دنیا بھر میں خواتین کی مختلف شعبہ جات میں پیش رفت کا خیر مقدم کرتا ہے۔ ان خواتین کا تعلق ہر مذہب، نسل، قومیت اور ملک سے ہے۔ خواتین نے تعلیم، روزگار، سماجی حقوق، سیاسی عمل میں شرکت سمیت متنوع کام کئے ہیں۔ مسلم خاتون کو ان سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکنے اور اس کے تہذیبی ورثے کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کے لباس پر اعتراضات دراصل امتیازی سلوک ہے۔ یہ امتیازی سلوک نہ صرف آبادیوں اور شہروں میں ہورہا ہے بلکہ قانون ساز ادارے بھی اس کے مرتکب ہورہے ہیں۔ بعض ممالک میں مسلم خواتین کے لباس پر اعتراضات کیے جارہے ہیں۔ ہم اس موقع پر اسلام کی دی ہوئی آزادیوں سے دنیا بھر کو باخبر کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مسلم خواتین کے لباس اور حجاب کی مکمل اور غیر مشروط حمایت جاری رکھیں گے۔
اس سال بھی دنیا کے بہت سے ممالک اور بالخصوص یورپ کے ممالک میں خواتین نے ’یومِ حجاب‘ منایا۔ اس موقع پر ہندوستان کے مختلف شہروں میں بھی ْخواتین کے مختلف پروگرام منعقد کیے گئے۔ الٰہ آباد میں خواتین نے حجاب کی حمایت میں ایک بڑی ریلی نکالی جس کا نیشنل میڈیا میں بھی کافی چرچا رہا۔ یورپ اور امریکہ میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک اور آئے دن اس کے کم ہوتے لباس کے مقابلے میں مسلم خواتین کے لباس اور حجاب کو پسند کرنے اور اختیا رکرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ مسلم خواتین کو روکنے والوں کے اپنے معاشروں کی عورت محسوس کررہی ہے کہ حجاب اس کے تحفظ اور دفاع کے ساتھ ساتھ الگ شناخت کا سب سے خوبصورت اظہار ہے۔
——