کرونا کی ابتدا
31؍دسمبر2019کو چین نے عالمی ادارہ صحت (WHO) کو خبردار کیا کہ ان کے یہاں تیزی سے نمونیہ جیسی علامات ایک مرض چین کے شہر ’’ووہان‘‘ شہر کے (ھوبے) قصبے میں نمودار ہورہاہے ۔ 9؍جنوری 2020 کو عالمی ادارہ صحت نے چینی محققین کے اس فیصلے کو سامنے لایا کہ یہ مہلک مرض ایک وائرس کی وجہ سے پھیل رہاہے جسے کرونا وائرس کہا جاتا ہے ، اس وقت سے اب تک ہلاکتیں 2.5 لاکھ ہوچکی ہیں اور ہندوستان سمیت 180 ممالک میں اس مہلک وباء سے 29لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہیں ۔
کرونا وائرس کیا ہے ؟
Covid – 19 مریضوں کے چھینکنے یا کھانسنے سے پیدا شدہ بوندوں سے ہوتی ہے اگر کوئی انسان کسی ایسی جگہ یا چیز کو چھولے جہاں وائرس پہلے سے موجود تھا اور پھر اپنے منہ یا آنکھ کو چھو جائے تو وہ Covid – 19 سے بیمار ہوسکتا ہے ۔
اس بیماری سے ہر کوئی متاثر ہوسکتا ہے البتہ 80 سے زیادہ عمر کے بزرگ لوگ اس بیماری سے ہلاکت کے خطرے میںہیں ۔ یہ دعویٰ چین اور شمالی کوریا کے ڈزیز کنٹرول اینڈ یونیشن سنٹرز نے حال میں فوت شدہ افراد کے معاملات کی تحقیق کے بعد شائع کی ہے ۔ تحقیقی معلومات کے فقدان کی وجہہ سے اس سانس کی تکلیف کی بیماری Covid – 19 کیلئے کوئی مخصوص علاج مقرر نہیں ہے ۔
احتیاطی تدار ک
اس کا بہترین علاج احتیای ہی ہے عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس مہلک بیماری سے بچنے کیلئے لگاتار سینیٹائزر یا صابن اور پانی سے ہاتھوں کو دھویا جائے لگاتار ہاتھوں کو دھونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ وائرس کئی گھنٹوں سے ایک دن تک اس جگہ باقی رہ سکتا ہے جسے چھو ا جاتا ہے ۔
ماسک کا استعمال کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں مددگار ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ماسک لگانے سے ترسیل مرض کو روکا جاسکتا ہے ۔ انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے میں اہم رول ادا کرسکتی ہے ۔
’’عالمی ادارہ صحت WHO کے مطابق آپ کھانسنے یا چھینکنے والے انسان سے ایک میٹر یا تین فٹ کی دوری بنائے رکھیں اس لئے ان سے انفیکشن کی بوندیں نکلتی ہیں جن میں وائرس ہوسکتا ہے اگر آپ نزدیک ہیں تو یہ بوندیں اپنے اندر لے سکتے ہیںاور بیمار ہوسکتے ہیں۔ ‘‘ (دی ہندو اخبار سے ماخوذ )
دراصل وائرس جراثیم کی ایک شکل ہے، جن کا حجم 20-200 نانومیٹر( ایک میٹر کا ایک کروڑواں حصہ) ہوتا ہے یہ وائرس (Submicroscop) ہوتا ہے یعنی کہ یہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ مائیکرو سکوپ سے بھی نظر نہیں آتا اور نہ یہ مکمل سیل CELLپر مشتمل ہوتا ہے بلکہ بیکٹریا سے بھی چھوٹا ہوتا ہے ۔ اور انسانی خلیوں کے اندر پہنچ کر بڑی تباہی مچاتا ہے ۔ کرونا وائرس دراصل یہ متعدد بیماری ہے۔
کرونا وائرس دراصل مویشیوں میں پایا جانے والا ایک خاص وائرس ہے جو مویشیوں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے ۔ کورونا وائرس جب انسان کو لاحق ہوتا ہے تو وہ سیدھے انسان کے نظام عمل تنفس پر حملہ آور ہوتا ہے ۔
پہلے تو اس سے گلے اور سانس کی نالی میں انفیکشن لاحق ہوتا ہے ۔ پھر وہ پھیپڑوں تک پہنچ کر تباہی مچا تا ہے۔ اور آگے چل کر سارس SARS میرس MERS یا کووڈ (Covid – 19 ) کا شکار ہوکر متاثرہ انسان کی موت کا سبب بنتا ہے ۔
تاریخی پس منظر
1) کہا جاتا ہے کہ کورونا سب سے پہلے جانوروں میں 1930 اور انسانو ں میں یہ 1960 میں دریافت ہوا ۔ اسی وقت سے امریکہ میں حیاتیاتی ہتھیاروں پر تحقیقات کا آغاز ہوگیا ۔
2)1981 میں ایک امریکی ناول The Eyes of Darness میں اس کی پیش گوئی کی گئی تھی ۔
3) 1993 میں مقبول عام کارٹون Simpson میں اس طرح کے ایک حیاتیاتی ہتھیار کو دکھایا گیا ہے ۔ ہالی ووڈ (Hollywood) میں اس بیماری کے اوپر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں ۔ جن میں 1995 کی ’’آئوٹ بریک‘‘ Out Break اور 2011 کی کانٹا جن شامل ہیں ۔ کانٹا جن میں جس بیماری کو فلمایا گیا ہے وہ ہو بہو کورونا وائرس کے مشابہ ہے ۔
اگر ہم تاریخ پر نظرڈالیں تو اسلامی تاریخ میں ہمیں کم از کم دو واقعات ملتے ہیں ۔جو بیماریوں کے شکل میں سارے عالم میں افراتفری مچی تھی ۔ جس کو ہم طاعون کے نام سے جانتے ہیں ۔
طاعون: پہلا طاعون حضرت عمر ؓ کے دور میں واقع ہوا ۔ اس کو طاعون عمواس بھی کہتے ہیں اور دوسرا سیاہ موت Black Death کا طاعون ہے جو چودھویں صدی عیسوی میں واقع ہوا ۔
سیاہ موت
چودھویںصدی عیسوی میں یوروپ میں انسانی تاریخ کا سب سے تباہ کن طاعون پھیلا جسے سیاہ موت Black Death کہا جاتا ہے ۔اس میں یوروپ اور ایشاء کے تقریباً20 کروڑ افراد ہلاک ہوگئے ۔ جس سے یوروپ کی تقریباً 60 فیصد آبادی ختم ہوگئی ۔ یوروپ کے بعض علاقے تو اس مہلک طاعون سے 19 ویں صدی اور 20 ویں صدی تک متاثر ہے ۔ یہ وبا جب مسلم اسپین پہنچی تو اس نے یہاں بھی بڑی تباہی مچائی ۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اندلس میں اس مرض کی وجہ سے بیک وقت ہزاروں جنازے اٹھتے تھے ۔ یہ طاعون (سیاہ موت) چوہوں اور پسوئوں میںموجود متعدی امراض کی وجہ سے پھیلا ۔
وبا سے متاثر ہونے والے افراد کی گردن، بغل، یاٹانگوں میں گلٹی نکلتی تھی ، بخار اور نقاہت کی علامات کے ساتھ مریض کو سانس لینے میں دشواری ہوتی تھی اور چند روز بعد اس کی موت واقع ہوجاتی تھی ۔
کالی موت کی وبا اکتوبر 1347میں تاجروں کے ذریعہ سسلی(اٹلی) پہنچی اور کم وبیش ایک سال کے قلیل عرصے میں اسپین ، فرانس، برطانیہ ، پرتگال، جرمنی اور یوروپ کے دوسرے ملکوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ اس وقت یوروپ کی آبادی آٹھ کروڑ کے لگ بھگ تھی ۔ اس میں سے 1351 تک (محض چارسال میں) پانچ کروڑ لوگ وبا کے ہاتھوں مارے گئے ۔ گویا مردوں کی تعداد زندہ لوگوں سے زیادہ تھی ۔ زمین میں گڑھے کھود کر لاشوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھا جاتا تھا اور اجتماعی تدفین ہوئی تھی ۔
یوروپ میں کالی موت کی وباء اٹلی سے شروع ہوئی تھی ۔ اس لئے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں وہی سرفہرست تھا ۔ کالی موت وباء سے قاہرہ بھی بری طرح متاثرہوا ۔ مصر کی آبادی کا 40% فیصد حصہ وبا کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ وباء میںدوسرے بے شمار علاقوں کے ساتھ مکہ مکرمہ موصل اور بغداد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔
زمانہپہلے کالی موت کی جان سوز وہ جہاں سوز آزمائش ٹل گئی ۔ آج ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں ۔
کرونا وائرس کئی اعتبار سے کالی موت سے مماثلت رکھتا ہے ۔ دونوں کی ابتداء چین سے ہوئی ۔ دونوں کی علامات جیسے بخار اور سانس لینے میں دشواری میں یکساں ہیں ۔ کالی موت کی وبا ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہوتی تھی ۔ موجودہ وائرس بھی متعدی ہےدونوںوبائوں کا آغاز یہیں سے ہوا۔ کالی موت اور کرونا وائرس دونوں نے اٹلی ہی میں سب سے زیادہ تباہی وبربادی کی دستان رقم کی ۔
کالی موت سے بچائو کیلئے متاثرہ لوگوں کو بالعموم قرنطینہ (Corentin)میں رکھا جاتا تھا ۔ یہ طریق کارگر ثابت ہوا ۔ اور دنیا کو برسوں کی کدوکاوش کے بعد کالی موت سے نجات ملی اسی طرز پر کرونا وائرس کے تیزی سے پھیلائو کے پیش نظر متاثرین کو بھی قرنطینہ میں رکھا جارہاہے ۔ انشاء اللہ ہم سبھی کو بھی اس کرونا سے نجات ملے گی ۔
مزید پڑھیں!
https://hijabislami.in/792/
https://hijabislami.in/725/