عورتوں کے اجتماعات

مائل خیرآبادیؒ

سمجھ بوجھ رکھنے والے تمام لوگ اس بات میں ایک رائے ہیں کہ ایک عورت کی اصلاح پورے گھر کی اصلاح ہے ۔ کیونکہ عورت چوبیس گھنٹے گھر میں رہتی ہے اس کا سارا وقت گھر اور گھر والوں کے رکھ رکھاؤ اور بناؤ سنوار میں گزرتا ہے،بچے اس سے مانوس ہوتے ہیں،اس کی زبان سیکھتے ہیں اس کی عادتیں اپناتے ہیں،اس لئے اگر اس ایک کی اصلاح ہو جائے، تو اس کے اثر سے پورے گھر کی اصلاح ہوسکتی ہے ۔ ایک لمبی حدیث میں ہے:۔

وَالْمِرْأَۃُ رَاعِیَـۃُٗ عَلٰی بَیْتِ زَوجَھَا وَلَدِہٖ

’’اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگراں ہے۔‘‘

جب یہ بات ہے تو عورت کے اجتماعات کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے کہ ان اجتماعات کے ذریعہ عورتوں کی اصلاح و تربیت کی جائے تاکہ وہ گھر کی بہتریں نگراں بن سکیں۔ ایسی عورت کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ دنیا کی نعمتوں میں سب سے بہتر نعمت ہے۔

آ پؐ نے بہترین گھر ا س گھر کو فرمایا جس کے اندر ایک صالح عورت موجود ہے۔ ایک بارآپ ؐ نے اپنی تین پسندیدہ چیزوں کا ذکر فرمایا‘ان میں سے عطر اور عورت کا ذکر ایک ساتھ فرمایا‘کبھی آپ نے غورفرمایاکہ حضورؐنے عطراورعورت کا ذکر ایک ساتھ کیوں فرمایا؟بات دراصل یہ ہے کہ جس جگہ بہترین عطر رکھا ہوتا ہے اس کے آس پاس کی فضا خوشبو سے مہکنے لگتی ہے۔ اس طرح جس جگہ نیک اور صالح عورت رہتی ہے اس جگہ نیکیوں کی کھیتی لہلہانے لگتی ہے۔(اور تیسری پسندیدہ چیز نماز کے بارے میں فرمایا کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے)

اجتماعات کا حاصل

بے شک عورتیں اجتماعات میں شریک ہو کر اچھی تقریریں اور کتابوں سے پڑھی جانے والی عبارتیں سنتی ہیں تو کانوں کے ذریعہ اچھی بات ان کے دلوں میں اتر تی ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اجتماع میں دین کے لگن رکھنے والی عورتوں سے ملاقات ہوتی ہے‘ان سے باتیں ہوتی ہیں تو ان کا اثر قبول کرتی ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک پاکیزہ جگہ میں گھنٹہ دو دگھنٹہ رہ کر ان کی روح میں بالیدگی آتی ہے۔ اس مقدس فضا سے نکل کر جب گھر آتی ہیں تو بہت دنوں تک ان باتوں کو دوسری عورتوں کے سامنے دہراتی ہیں‘ اجتماع میں شریک ہونے والی نیک بیبیوں کے حالات سناتی ہیں تو دوسری عورتوں کے دلوں میں اجتماع کی اہمیت بیٹھتی ہے۔ سننے والی کا جی چاہنے لگتا ہے کہ وہ بھی اجتماع میں جا یا کرے۔

عورتوں کا اجتماع میں جانا

ایک مرد جب کسی اجتماع میں جانا چاہتا ہے تو اسے زیادہ اہتمام کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ کسی دور جگہ کسی بڑے اجتماع میں جاتا ہے تو بھی اُسے زیادہ سوچنا نہیں پڑتا۔ وہ دو تین دن کا خرچ اور زادراہ لے کر چل کھڑا ہوتا ہے۔ لیکن عورت اس طرح کھڑی سنوری نہیں جاتی‘ عورت کو دور نہیں ‘مقامی اجتماعات میں جانا ہوتا ہے تو بھی وہ پہلے سے منصوبہ بناتی ہے۔ اس چھوٹے بچے کو ساتھ لے جانا ہے۔ اس بچے کو گھر پر رہنا ہے‘ خالہ جان کو بلانا ہے۔ وہ ذرا کی ذرا گھر کی دیکھ بھال کرلیں گی۔ اس کے بعد اس منے کے بارے میں انتظام کرتی ہے۔ جسے ساتھ لے جانا ہوتا ہے۔ ا س کے پینے کے لئے دودھ کا ڈبا، اس کے بچھونے کے لئے روئی کا گبا، اور فلاں اور فلاں سامان لے جانا ہے۔ یوں کہئے کہ جب عورت گھر سے نکلتی ہے ۔ تو اس کے ساتھ ایک گھر چلتا ہے۔ ابھی روانگی مکمل نہیں ہوئی۔ یہ کوئی ایرا غیرا عورت نہیں‘اجتماع میں شرکت فرمانے والی خاتون جا رہی ہے اس لئے محرم ساتھ ہونا چاہیے۔ وہ شوہر سے کہتی ہے کہ ذرا زحمت کرے اور سواری لادے اور اجتماع تک پہنچادے ۔ اور اگر کہیں یہی اجتماع کی شیدائی عورت دور کسی عظیم اجتماع میں دو تین دن کے لیے جاتی ہے۔ تو پھر ایک عورت کے خرچ کے بدلے اس کے محرم کا اور اس کے بچوں کا خرچ بھی بجٹ کی غذائی تجوری سے نکلتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اجتماع میں جانے والی محترم خاتون کے شوہر کے لئے جسے اوسط درجے کی آمدنی والا مان لیا جائے، یہ خرچ قابل برداشت بھی ہے؟

اس کے جواب میں میری معلومات میں یہ ہے کہ شروع شروع میں تو شوہر بڑی خوشی سے اجتماع میں شرکت کی اجازت دے دیتا ہے۔ سواری کا انتظام کر کے پہنچا بھی آتا ہے۔ اجتماع کے اوقات میں یہ قربانی بھی دیتا ہے کہ اتنی دیر گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی نگرانی بھی کرلیتا ہے۔ اور اگر ابتدائی جوش میں کہیں دور کوئی اجتماع عظیم منعقد ہونے کی خبر آگئی تو وہاں بھی لے کر جا پہنچا ہے اور یہ سب اس پر امید پر کہ بیوی ان اجتماعات میں شریک ہو کر بی بی فاطمہ ؓ اور عائشہ ؓ بن جائے گی۔

کچھ دنوں کے بعد جب آئے دن محترمہ سواری میں لد لد کر اجتماعات میںجانے لگتی ہیں تو شوہر اپنی جیب دیکھنے لگتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت کا اجتماع میں جانا بند ہوجاتا ہے اس سلسلے میں اگر کوئی عورت اپنے شوہر کو اجتماع میں شریک ہونے والی خواتین کے بارے میں آنکھوں دیکھا حال بتانے لگتی ہے کہ فلاں ایسا جمپر پہنے تھی۔ اس کاجمپر کا گلا ایسا اور ایسا تھا۔ فلاں اس طرح کی ساڑی پہنے ہوئے تھی اور فلاں صاحبہ یہ اور یہ زیور پہنے ہوئے تھیں تو شوہر ایک بڑے خطرے کو بھانپ کر عرض کرتے کرتے فرمانے لگتا ہے۔ کہ اب اجتماعات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے بہت کچھ حاصل فرمایا آپ نے اجتماع سے ۔

تو پھر کیا ہوا ؟عورت کے اجتماع میں شریک ہونے سے یہ پریشان ہوں اور یہ نتیجہ نکلے تو کیا یہ سمجھنا چاہیے کہ عورتوں کے یہ اجتماعات بے کار ہیں ؟ نہیں ہر گز نہیں‘در ااصل ایک غلطی عام طور سے ہونے لگتی ہے اور پھر وہ ہوتی چلی جاتی ہے وہ غلطی ہے اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی ہدایتوں کے نہ جاننے کی ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اصلا ح و تربیت کے لئے کیا نقشہ کا ر دیا ہے اور کس کو کس جگہ کتنا ذمہ دار بنایا ۔ اگر یہ بات ذہن میں نہ گی تو اجتماعات سے یہی نتیجہ نکلے گا جو اوپر عرض کیا گیا میں با ر بار ان ہدایتوں کی جانکاری کے لئے عرض کرتا رہتا ہوں خدا کا شکر ہے کہ آج سوچنے والے اصحاب کے درمیان ان ہدایتوں اور ان کی ترتیب کو بیان کرنے کا موقع مل گیا۔

میرا مطالعہ یہ ہے کہ عورت کی اصلاح و تربیت کی ذمہ داری مر د پر ہے۔ ذمہ داری ہی نہیں ۔ مرد پر فرض کیا گیا ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کو بھی دین سکھائے۔ دین پر عمل کرنے کی ترغیب دے ۔ اور خود ایک اچھے مسلمان ہونے کا نمونہ پیش کرے۔

یہ اچھا مسلمان بننا‘ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی ہدایات پر عمل کرنا داراصل بڑا مشکل کام ہے۔ مرد چاہتا ہے کہ اُسے خود کچھ نہ کرنا پڑے لیکن کسی طرح بیوی مومنات صالحات، قانتات بن جائے۔ ہم تو یہ دیکھتے چلے آئے ہیں کہ بیوی اب تک یہ سمجھتی رہی ہے کہ اس کا شوہر دیندار ہے بس یہ کافی ہے لیکن جو لوگ دین سے دلچسپی رکھنے والے ہیں اب وہ سوچتے ہیں کہ بیوی کا کریڈیٹ حاصل کر کے جنت حاصل کرلیں گے۔

مرد کا اس طرح سوچنااسی طرح غلط ہے جس طرح اب سے پہلے عورت کا سوچنا غلط تھا اللہ کی طرف سے مرد پر جو فرض عائد ہوتا ہے یا تو وہ اس فرض کو نہیں جانتا یا پھر اس فرض سے منھ موڑتا ہے۔قرآن مجید کا کھلا حکم ہے اور اس میں ذرا بھی ابہام نہیں۔ قرآن کا ایسا حکم جس کا ہر لفظ واضح ہو وہ فرض ہو جاتا ہے ‘ ملاحظہ فرمائیں :

قُوْا اَنْـفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًاo

’’اپنے کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ یعنی جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘

اس آیت کے اس کھلے حکم کی وجہ سے مرد پر فرض ہو گیا کہ وہ اپنے آپ کو ااور اپنے اہل کو جہنم کی آگ سے بچائے۔ اگر اس فرض کو سمجھ کر عورت کی اصلاح و تربیت کی طرف دھیان دیا جائے تو خاطر خواہ نتائج سامنے آئیں گے۔ لیکن یہ بھی واضح رہے کہ جس ترتیب سے اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے تربیت کرنے کو بتایا ہے ۔ اس ترتیب کو سامنے رکھا جائے۔

گھریلو اجتماع

ہمارے ملک میں دو فعال جماعتوں کی طرف سے خواتین کے اجتماعات ہوتے ہیں ۔ میں ان دونوں جماعتوں کے دانشوروں سے عرض کرتا ہوں کہ وہ گھریلو اجتماعات کی بنیاد ڈالیں مرد اپنے گھر والوں کو ہفتہ میں ایک دن گھنٹہ آدھ گھنٹہ کے لئے بٹھائے۔ ایں قدر و آں قدر سب سے پروگم میں حصہ لینے کو کہے۔ پھر دیکھے ان گھریلو اجتماعات کی دلچسپیاں اور ان کے اثرات تو تلی گڑیا یا کلمہ سنائے گی تو آپ کے دل کی کلی کھل جائے گی اس کی چھوٹی اپی ترجمہ بیان کرے گی تو آپ کی روح جھوم اُٹھے گی۔ اس طرح سب حصہ لیں تو یہ بڑاا چھا مظاہر ہوگا یہ نہ سمجھئے کہ یہ سب ہواہوجائے گا۔ نہیں، یہ سب دل و دماغ میں نقس ہوگا۔ یہی گھریلو اجتماع ان عظیم اجتماعات کے لئے مضبوطی کا سبب اسی طرح بنتا ہے جس طرح تربیت یافتہ ایک ایک مرد سے ایک مضبوط جماعت وجود میں آتی ہے۔

کوشش کی جائے اس طرح کے گھر یلو اجتماعات مسلمان گھرانوں میں زیاد ہ سے زیادہ ہوں پھر انہی میں سے وہ نمائندہ خواتین آپ سے آپ مل جائیں گی جن کو خود ضرورت ہوگی کہ اجتماع کرنے کا اچھے سے اچھا طریقہ اپنائیں۔

ان نمائندہ خواتین کوبڑے اجتماعات میں لے جانا چاہیے یہ وہاں سر جوڑ کر بیٹھیں‘اپنی کہیں، دوسروں کی سُنیں۔ ایک دوسرے کے تجربات سے فائد اُٹھاکرواپس آئیں اور اپنے یہاں کام کو آگے بڑھائیں۔

عظیم اجتماع عام

اگر ایسا نہ کیا گیا اور بھیڑوں کی طرح ہانک ہانک کی کسی بڑے اجتماع میں عورتوں کو لے جایا گیاتوپھر لا خیرفی جماعت النساء والی مثل صادق آئے گی کہ عورتوں کے جمع ہونے میں خیر نہیں ہے۔ اس کا حال مجھ سے سنئے، مجھے ایک ایسے ہی عظیم اجتماع میں شریک ہونے کا موقع ملا حسن اتفاق سے جس جگہ ہمارا کیمپ تھا۔ اسی کے سامنے روڈ کے دوسری طرف خواتین کے اجتماعات اور قیام کی جگہ تھی‘میں تین دن رات یہ اعلانات سنتا رہا‘‘انجم جمال صاحبہ !آپ جہاں ہوں جلد آجائیے آپ کا بچہ جاگ گیا ہے اور بری طرح رو رہا ہے‘‘۔ پروین بانو صاحبہ آپ کو گیٹ (۲) پر آپ کے بھائی صاحب بلا رہے ہیں‘‘مرد متوجہ ہوں ۔ خواتین کے کیمپ سے ایک چھوٹا بچہ باہر چلا گیا ہے اس کا حلیہ یہ ہے کہ اسے تلاش کر کے جلد کیمپ میں بھیجئے۔ اس کی ماں بہت بے چین ہے۔ احمد محمد صاحب ! آپ کی اہلیہ کو شدید بخار ہے۔ آپ جلد تشریف لا کر اپنی اہلیہ کو اسپتال لے جائیں۔

اس طرح کے اعلانات کے ساتھ ساتھ ہدایات کہ پانی ضائع نہ کیا جائے فرش کو بچوں سے گندہ کرنے سے بچائیے۔ شور نہ کیجئے۔ بچوں کو خاموش رکھئے‘پانی کے لئے بچوں کی خاطر بہنوں کو لڑنا نہیں چاہیے وغیرہ۔

اس طرح کے اعلانات سنکر میں نہیں کہہ سکتا کہ خواتین کی اس بھیڑنے اس بڑے اجتماع سے کچھ سیکھ ہوگا۔

آخری بات

یہ سب عرض کرنے کے بعد اب یہ عرض کرنے کی جرأت بھی کروں گا کہ اگر ہمارے داعیان کرام گھریلو اجتماع کرنے کی تو زحمت گوار انہ فرمائیں۔ اپنی اہلیہ اور اپنے بال بچوں کی اصلا ح کی کوشش نہ کریں۔ لیکن آئے دن اجتماع میں شریک ہونے کے لئے بے چین رہیں۔ تو اللہ تعالیٰ ان داعیان کرام کی نیتوں اور ارادوں کو تو آخرت کے دن جانچے گا لیکن دنیا دار لو گ یہی کہیں گے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ پھر تربیت کرنے والے لاکھ کہیں کہ بھائی اپنی فکر کرو۔ آخرت کے دن ان کے بارے میں یہ آپ سے نہیں پوچھا جائیگا یہ سو فیصد سچی بات ہے۔ لیکن ایک کم سو فیصد یہ بھی سچی بات ہے کہ زبانِ حلق کو نقارہ خدا سمجھو‘اور اگر ایک منھ پھٹ نے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ بڑ بڑھ کر وعظ فرمانے والے اور گھر والوں کی اصلاح نہ کرنے والے چوں بخلوت می روند آن کاردیگر می کنند۔ اور کاردیگر کا ترجمہ دنیا کے عیش کے لئے منصوبہ بنانے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دوسروں کے لئے فتنہ بننے سے محفوظ رکھے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں