موجودہ معاشی بحران کا حل کیا؟

شمشاد حسین فلاحی

موجودہ معاشی بحران کا حل کیا؟

معاشی بحران اور اقتصادی کساد بازاری کو کئی سالوں سے جھیلتے عوام کا پیمانۂ صبر اب چھلکتا نظر آتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ ماہ ستمبر کی ۱۷؍تاریخ سے امریکہ کی راجدھانی میں شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، بلکہ اس کا دائرہ اثر اب صرف امریکہ ہی تک محدود نہ رہ کر دیگر کئی یوروپی ملکوں تک پھیل گیا ہے اور اب جرمنی، جاپان اور برطانیہ جیسے مضبوط تصور کیے جانے والے ممالک بھی اس کی زد میں ہیں۔
’’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ کے عنوان سے واشنگٹن میں شروع ہونے والی اس مہم میں اب لوگوں کی شرکت بھی بڑھتی جارہی ہے اور جغرافیائی اعتبار سے اس کا دائرہ بھی پھیلتا جارہا ہے۔ یہ مہم دراصل اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر دیوالیہ ہونے کے کگار پر پہنچادیا ہے۔ اس مہم کا حصہ وہ تمام بے روزگار اور غریب عوام ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے سایے میں چلنے والے بینکوں کی مبینہ لوٹ کھسوٹ، بے گھری اور بے روزگاری سے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ مظاہرین اب اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ دنیا کے ۹۹؍فیصد عوام پر ایک فیصد سرمایہ داروں کا جبری تسلط ختم ہونا چاہیے اور یہ کہ دنیا کے ۹۹؍فیصد غریب عوام کو روزگار کی گارنٹی کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی یقین دہانی چاہیے کہ نئے مالیاتی نظام سے عوام کا مستقبل کا محفوظ ہو، وہ مٹھی بھر سرمایہ داروں کے تسلط سے آزاد ہوں اور ان کی زندگیاں ان کے رحم و کرم پر نہ ہوں۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور اٹلی کی سڑکوں پر نکلے لاکھوں عوام کا یہ مطالبہ دراصل موجودہ مالیاتی نظام کے خلاف اسی طرح کی کھلی بغاوت ہے، جس طرح کی بغاوتیں گزشتہ مہینوں میں عرب دنیا میں جابر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف دیکھنے کو ملیں اور جن کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
ادھر عرب دنیا میں تیونس سے شروع ہوکر مصر تک اور پھر لیبیا، سیریا اور یمن کو اپنی گرفت میں لینے والی سیاسی بغاوتوں کی جڑیں عروج پر تھیں تو ادھر یورپ کے کئی ملکوں میں اقتصادی نظام کے خلاف نہ رکنے والی بغاوتوں نے یورپ کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ ان بغاوتوں میں جنھیں احتجاج کا نام دیا جارہا ہے، یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کا تشدد نہیں ہے جس طرح کا تشدد عرب دنیا میں دیکھا گیا اور دیکھا جارہا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت اور آزادیٔ رائے کی جنت تصور کیے جانے والے ان یوروپی ملکوں میں ان احتجاجی عوام پر تشدد اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور اگر اس میں وہ شدت نہیں جو عرب دنیا میں ہے تو اس کی وجہ جہاں جمہوری قدروں کا احترام ہوسکتی ہے، وہیں یہ خوف بھی ہوسکتا ہے کہ اگر عرب حکمرانوں کی طرح عوام پر تشدد کیا گیا تو اس آگ پر قابو پانا ممکن نہ ہوگا۔
دنیا کی اقتصادی کساد بازاری یا Slow Downنے گزشتہ چند سالوں میں جو گل کھلائے ہیں، ان سے دنیا کا ہر ملک اس وقت متاثر ہے۔ مگر اس سے وہ ممالک زیادہ متاثر ہیں اور اسی قدر متاثر ہیں جس قدر وہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے پیروکار تھے۔ اور ظاہر ہے اس نظام کی قیادت امریکہ کررہا تھا، اس لیے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور اس احتجاج کی ابتدا بھی وہیں سے ہوئی ہے۔ دراصل معاشی تنزل یا بحران کی ابتداء سے لے کر تا حال امریکہ میں لاکھوں لوگ بے روزگار اور بے گھر ہوگئے ہیں۔ اور نوکری پیشہ عوام اس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ کیونکہ ان کی نوکریاں چھوٹ گئیں اور جب نوکریاں چھوٹیں تو دھیرے دھیرے سب کچھ چھوٹنے لگا، یہاں تک کہ ان کے سر سے گھر کی چھت بھی رخصت ہوگئی۔ اس کی تفصیل اگر بیان کی جائے تو اس کی تمام تر ذمہ داری سرمایہ داروں کے قائم کردہ سودی نظام کے تحت چلنے والے بینکوں پر جاتی ہے۔ جنھوں نے سودی قرضوں میں عوام کو پھنسا رکھا تھا، چنانچہ وہاں قسطوں پر فلیٹ اور گھر، قسطوں پر گاڑیاں اور تمام ضروریات و تعیشات زندگی قسطوں پر لوگوں کو بانٹ رکھے تھے اور ان پر سود وصول کرتے تھے۔ جب لوگوں کی نوکریاں ختم ہوئیں تو وہ قسطیں ادا کرنے سے قاصر ہوگئے نتیجتاً انھیں بینکوں کو اپنے فلیٹس اور گاڑیاں اور وہ تمام سامان جو انھوں نے قسطوں پر خرید رکھے تھے لوٹانے پڑے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ نیوریاک شہر میں جہاں آسمان کو چھوتی عمارتیں ہیں، وہیں اس کے آس پاس تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی جھگی جھونپڑیاں بھی ہیں، جہاں لوگ دو وقت کے کھانے کے لیے بھی دوسروں کے محتاج ہوگئے ہیں۔ چنانچہ شہر کے اہم تجارتی علاقوں میں خیمہ زن یہ مظاہرین اسی قبیل کے لوگ ہیں جو اس اقتصادی نظام کے ڈسے ہوئے ہیں۔ اور اب وہ اس نظام کی تبدیلی سے کم پر رضا مند نہیں۔ انھوں نے سڑکوں اور پارکوں میں اپنے خیمے گاڑ دئیے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ جب تک وہ ۹۹؍فیصد ایک فیصد سے اپنے حق نہیں وصول کرلیتے، اپنے گھروں کو واپس نہیں جائیں گے۔ یہ عجیب و غریب اور پریشان کن صورتِ حال ہے، جس نے یورپ اور امریکہ کی قیادت کو ’’دھرم سنکٹ‘‘ میں ڈال دیا ہے۔
یوروپ اور امریکہ میں چل رہی اس احتجاجی مہم کا ایک اہم اور دلچسپ پہلو اور ہے جو مسلمانوں کے لیے اہم ہے اور جو اسلامی اقتصادی نظام کی وکالت کرنے والوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے، وہ اہم پہلو یہ ہے کہ امریکی عوام جو احتجاجی مہم میں شریک ہیں، اس بات کا بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کو مسلمانوں کا مالی و معاشی نظام زیادہ مفید اور پسندیدہ نظر آتا ہے اور اسے اپنایا جانا چاہیے۔ چنانچہ اخبارات میں ایسی تصویریں شائع ہوئی ہیں جس میں احتجاج کرنے والوں نے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں اور ان پر لکھا ہے ’’Let’s Bank the Muslim Way‘‘یہ بات ایک طرف تو مسلمانوں اور اسلامی نظامِ معیشت کی وکالت کرنے والوں کے لیے خوش آئند ہے کہ لوگ خود ’’مسلمانوں‘‘ کے معاشی نظام کو اپنانا چاہتے ہیں اور شاید اسلامی وہ اس لیے نہیں کہہ پا رہے کہ وہ اسلام سے واقف نہیں اور صرف مسلمانوں کو ہی جانتے ہیں۔ دوسری طرف یہ بات ان کو بھی ’’دھرم سنکٹ‘‘ میں ڈال دینے والی ہے۔ وہ اس حیثیت سے کہ جس معاشی نظام کو دنیا ’’متبادل‘‘ کے طور پر دیکھ رہی ہے، ابھی تک خود مسلم دنیا میں اس کا کوئی ماڈل نظر نہیں آتا اور جو ممالک اس کا ماڈل ہوسکتے تھے وہ خود اسی نظام کے پیروکار ہیں، جو ناکام ہوچکا اور جس سے عوام چھٹکارا چاہتے ہیں۔ اور اس کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اسلامی معاشی نظام کے وکیل دنیا بھر میں کہیں بھی تا حال اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ موجودہ نظام کا متبادل ڈھانچہ کھڑا کرسکیں۔ اور اسلامی معاشی نظام تا حال اپنے خدوخال کے تشکیلی مراحل ہی میں معلوم ہوتا ہے اور بہت سارے معاشی و مالی مسائل میں اسلامی ماہرین اقتصادیات کسی حتمی اور متفقہ رائے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ لیکن یہ صورت ایسی ہے کہ ہمارے اندر مایوسی اور احساسِ محرومی پیدا نہیں کرسکتی۔ اس لیے کہ عوام کے اس مطالبہ اور اسلام کے اس معاشی نظام تک آنے میں اسلام کے کامیاب معاشی نظام سے زیادہ مضبوط رول یورپ کے ناکام اور جابرانہ معاشی نظام کا ہے۔ اور یہ راستہ اور موقع اسلام پسندوں کے ذریعہ بنایا ہوا ہونے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مہیاکردہ ہے۔ اس لیے ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی امت کے اندر وہ صلاحیت پیدا کرے گا کہ وہ وقت کے اس اہم چیلنج سے نبرد آزما ہوسکے۔
اس موقع پر ہم اپنے نوجوان طلبہ و طالبات اور ملک و ملت کے دانشوروں سے یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ وہ وقت کے اس اہم تقاضے کو سمجھیں، احساسِ کمتری سے خود کو نکالیں اور اسلام کے معاشی نظام کو دنیا کے سامنے ایک اچھا متبادل بناکر پیش کریں۔ ظاہر ہے اس کے لیے ملت کے نوجوانوں، خصوصاً ان طلبہ و طالبات کو بڑی امیدوں سے دیکھا جائے گا جو مالیات یا معاشیات سے جڑے میدانوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ایسے میں ان کی ذمہ داری کے موجودہ معاشی نظام کے گہرے مطالعے کے ساتھ ساتھ اسلامی نظامِ معیشت پر ماہرانہ دسترس حاصل کرکے اسے ایک متبادل نظام کے طور پر پیش کریں۔ اور وہ لوگوں کے ان تمام خدشات کو غلط ثابت کردیں جو وہ اسلامی نظامِ معیشت کے سلسلے میں رکھتے ہیں۔ ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ موجودہ دور کے مالی و معاشی مسائل کا حل اسلامی نظام معیشت کی شکل میں پیش کریں۔
اگر آج امت کے باشعور افراد نے اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کرلیا اور اس کی ادائیگی کے لیے بھرپور جدوجہد کی تو اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ دنیا کو جابرانہ نظامِ معیشت سے ایسے نظامِ معیشت کا راستہ دکھایا جاسکے گا جو انسانی مساوات اور عدل و قسط کا نظام ہے اور جس میں دولت غریبوں کی جیب سے نکل کر مالداروں کی تجوریاں بھرنے کے بجائے مالداروں کے پاس سے چل کر غریبوں تک آتی ہے اور غربت و افلاس کے فروغ کا نہیں بلکہ اس کے ازالہ کا ذریعہ بنتی ہے۔
یہی وہ نظام ہے جس نے دنیا میں مساوات کی ایسی تاریخی مثال پیش کی تھی کہ شہر کی گلیوں میں زکوٰۃ لینے والے نظر نہیں آتے تھے۔

شمشاد حسین فلاحی

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146