ہندوستان میں کم عمر کے شادی شدہ بچے!

شمشاد حسین فلاحی

ہمارے ملک ہندوستان میں لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کے لیے قانونی عمر بالترتیب 21 سال اور18 سال متعین ہے۔ مگر15؍دسمبر 2021 کو وزارتی کونسل نے اس بات کو منظوری دی کہ لڑکی کی شادی کی عمر کو 18 سال سے بڑھا کر 21 سال کردیا جائے۔

2021-2019 کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے -5 کے مطابق 24-20 سال کی عمر کی شہری آبادی میں 7.14 فیصد لڑکیاں ایسی تھیں جن کی شادیاں 18 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی انجام پاچکی تھیں جبکہ دیہی علاقوں میں یہ تناسب 27 فیصد تھا۔ اسی طرح سروے کے وقت 19-15 سال کی ایسی لڑکیاں جو یا تو ماں بن چکی تھیں یا ماں بننے کے مرحلے میں تھیں، شہری ہندوستان میں ان کا تناسب 8.3 فیصد اور دیہی علاقوں میں 9.7 فیصد تھا۔

یہ بات اہم ہے کہ 1949ء سے پہلے ہمارے ملک میں لڑکیوں کی شادی کی عمر 10 سال تھی، جسے 1949ء میں بڑھا کر 15 سال کیا گیا۔ اس کے بعد 1978 میں چائلڈ میرج ریسٹرنیٹ ایکٹ میں تبدیلی کرکے اس عمر کو بڑھا کر 18 سال کردیا گیا تھا جو اب تک جاری تھا۔

گزشتہ 44 سالوں میں اس قانون کا ہندوستانی سماج پر کیا اثر پڑا اور کم عمری کی شادیوں پر کس حد تک روک لگی اس کا اندازہ لگانے کے لیے 2011 کی مردم شماری سے ملنے والے اعداد و شمار پر نظر ڈالنی چاہیے۔ 2011 کے اعداد و شمار جو قانون سازی کی تین دہائیوں سے بھی زیادہ مدت پر محیط ہیں، ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ محض قانون سازی سے ان چیزوں کو نہیں روکا جاسکتا، جن سے حکومت روکنا چاہتی ہے یا روکاجانا چاہیے۔

ہمارا خیال ہے کہ شادی چاہے لڑکی کی ہو یا لڑکے کی، دونوں کے لیے اس کی عمر بلوغ کے ساتھ ساتھ شعور کی بھی ہونی چاہیے تاکہ دونوں ایک باشعور، ذمہ دارانہ اور اچھی ازدواجی زندگی گزار سکیں اور آنے والی نسلوں کی اچھی طرح دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کرسکیں، مگر اس سلسلے کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی حکومتیں 1978 میں بنے قانون کو 44 سالوں میں بھی اطمینان بخش صورت میں نافذ نہ کراسکیں اور نہ ہی عوام میں اس بات کا شعور بیدار کرسکیں کہ شادی کے لیے باشعور عمر کا ہونا ضروری ہے۔اس لیے حکومتیں قوانین میں نئی تبدیلیاں کرنے سے زیادہ سابقہ تبدیلیوں یا موجود قوانین کو سنجیدگی سے معاشرے میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ بہ صورت دیگر ہم پچھلے ستر سال والی روش پر گامزن رہیں گے اور معاشرے میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوگی۔

ایسے وقت میں جب حکومت ملک میں یکساں سول کوڈ لانے کی تیاری میں ہے اور ملک کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے یہاں شادی کم عمری میں ہوجاتی ہے، یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ کس مذہب کے ماننے والوں میں کم عمری کی شادی کا رواج زیادہ ہے۔ چنانچہ ہمیں اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے ہندو سماج میں کم عمری کی شادی کا رواج دیگر سماجوں کے مقابلے میں بہت زیادہ اور کئی گنا زیادہ ہے۔

مردم شماری کے اعداد وشمار انٹرنیٹ پر تلاش کرتے ہوئے ہمارے سامنے ایک فری لانسر صحافی دوانک ساہا کی ایک رپورٹ آئی جو انھوں نے 2016 میں Indiaspend نامی ویب سائٹس پر نشر کی تھی۔ رپورٹ کا عنوان تھا ’’دس سال سے کم عمر کے شادی شدہ افراد میں 84 فیصد ہندو ہیں۔‘‘ جبکہ اس میں مسلمانوں کا تناسب محض 11 فیصد ہے۔ اس رپورٹ میں تمام حقائق مردم شماری 2011کے پیش کیے گئے ہیں اور ان کا تقابل مردم شماری2001 سے کیا گیا ہے۔ دونوں کے تقابل سے صورتِ حال میں معمولی سی ہی بہتری نظر آتی ہے۔

Graphs 2

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 12 ملین 15 سال سے کم عمر کے شادی شدہ افراد میں 84.7 ملین (65 فیصد) تعداد لڑکیوں کی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان شادی شدہ لڑکیوں میں 72 فیصد دیہی علاقوں سے ہیں، جبکہ مسلمانوں میں یہ تناسب 5.58 فیصد ہے۔

سب سے زیادہ عمر میں شادی کا رجحان جین مذہب کے افراد میں دیکھنے کو ملا جہاں ان کی شادیوں کی عمر کا اوسط 8.20 سال ہے اور پھر عیسائی مذہب کے ماننے والے افراد ہیں جہاں اوسط عمر 6.20 سال نظر آتی ہے، اس کے بعد 9.19 سال کے تناسب سے سکھ کمیونٹی تیسرے نمبر پر ہے۔

Graphs 1

اس پوری صورتحال میں تعلیم کا اہم رول نظر آتا ہے۔ جہاں خاندان جتنے تعلیم یافتہ ہیں، وہاں یہ رجحان اسی قدر کم ہے اور کیونکہ دیہی ہندوستان میں تعلیم کی کمی ایک بڑی حقیقت ہے، اس لیے یہ برائی بھی وہاں اسی قدر زیادہ ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ دس سال سے کم عمر کی شادی شدہ لڑکیوں میں 80 فیصد لڑکیاں مکمل طور پر ناخواندہ تھیں۔ ناخواندگی کا تناسب 1000 لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کا 1403 نظر آتا ہے۔

Graphs 3

اس رپورٹ کا مقصد اور ہندو سماج کی صورت حال کو بیان کرنے کا مطلب اس معاملے میں مسلمانوں کی برتری ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ میڈیا میں جس طرح کی رپورٹیں آتی ہیں وہ حقائق سے کس طرح مختلف ہیں۔ ان حقائق کو پیش کرکے ہم ملکی صورتحال کو بتاناچاہتے ہیں اور حکومت اور عوام کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیںکہ یہ ایک کمزوری ہے اور کمزوری کو دور کرنے کے لیے حکومت اور معاشرے دونوں کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ حکومتیں قانون سازی کریں، عوام کو ان قوانین کے سلسلے میں بیدار کریں اور عوام ان قوانین و ضوابط کو عملاً نافذ کریں تو معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ جلد ممکن ہوسکے گا۔

جہاں تک مسلم سماج کی بات ہے تو وہ بھی ہندوستانی سماج کا حصہ ہے اور جس قدر خامیاں عام ہندوستانی سماج میں ہیں، ان کے اندر بھی ہوں گی اور ہیں۔ اس سلسلے میں مسلم سماج کی قیادت اور علماء و مصلحین کو چاہیے کہ وہ مسلم سماج سے ان برائیوں کو ختم کرنے کی مہم چلائیں اور مسلم سماج کو ملک کے لیے ایک مثالی سماج بنانے کی کوشش کریں۔ یہ دعوتِ اسلام کا بہترین اور اہم محاذ ہے، اور اسی کی ضرورت بھی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں