مثالی شوہر

تنویر آفاقی

ایک کہانی

’’دفتر کے کاموں سے فارغ ہو کر شام کو شوہرجب گھر پہنچا تو بیوی نے محبت اور تپاک سے اس کا استقبال کیا۔ اس کے آنے سے پہلے گھر کے کاموں سے خود کو فارغ کر لیا۔ شوہر کی پسند کا کھانا وہ پہلے ہی بنا چکی تھی۔ اس کے آنے سے پہلے خود کو بھی سجا سنوار کر تیار کر لیا۔ لیکن شوہر گھر میں داخل ہوا تو اندر گھستا ہی چلا گیا۔ اس نے بیوی کی تیاریوں پر ایک نظر بھی نہیں ڈالی۔بیوی نے کھانا لگا دیا۔ اور کھانے کی ٹیبل پر ماحول ایسا رکھا کہ شوہر کی رومانیت بیدار ہو جائے، اور وہ اس کے لیے ایک دو لفظ اپنی زبان سے ادا کر دے۔ لیکن اسے ناکامی ہاتھ آئی۔ اس نے کچھ دوسری ترکیبوں سے شوہر کو اپنی جانب متوجہ کر نے کی کوشش کی تو آخر کار مرد جھنجھلا گیا۔ اس نے قدرے ناراض ہوتے ہوئے کہا کہ اب ہماری شادی کو ایک طویل عرصہ گزر گیا ہے۔ گھر اور باہرکی زندگی کے اتنے مسائل سر پر رہتے ہیں ، اور تم اب بھی شادی کے پہلے دن والے وقت میں رہنا چاہتی ہو۔ بس کرو، اب اپنا طرز عمل بدلو۔شادی کو چھ سات سال ہو گئے ہیں۔ اب یہ سب کرنے کی تمھاری عمر نہیں رہی۔ خیالی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں قدم رکھو۔‘‘

ایک اور کہانی

فائزہ کو اس بات کا یقین ہے کہ اس کا شوہر اس سے بے محبت کرتا ہے۔وہ کہتی بھی ہے کہ مجھے یقین ہے کہ میرا شوہر مجھ سے محبت کرتا ہے لیکن۔۔۔۔ میرے سامنے اپنی اس محبت کا اظہارنہیں کرتا ۔ وہ اس کی محبت پر یقین رکھنے کے باوجود محض اس وجہ سے پریشان ہے کہ اس نے کبھی اپنی اس محبت کا اظہار نہیں کیا۔اس نے مختلف انداز سے کوشش بھی کی کہ وہ ایک بار زبان سے بھی اظہار کر دے، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکی۔

مثالی شوہر

یہ ہمارے معاشرے کے چند واقعانی نمونے ہیں۔ یہ نمونے کسی خاص علاقے اور خاص کمیونٹی کے ساتھ مختص نہیں ہیں۔ دنیا کے ہر شہر اور معاشرے میں اس قسم کی کہانیاں ایک نہیں بے شمار مل جائیں گی۔ انسانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی ان کہانیوں کی تعداد یہ بتاتی ہے کہ ازدواجی زندگی اپنی مثالیت کھوتی جا رہی ہے۔شوہر بیوی ایک گاڑی کے دو پہیے نہیں ، بلکہ ریل کی دو پٹریاں بنتے جا رہے ہیں، جو ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے جدا اور جامد پڑی ہیں۔ شوہر اور بیوی کی زندنگی میں آنے والی اس تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کو درست طور پر نہیں سمجھا گیا۔

گھر کو مثالی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی کی کچھ ایسی خوبیوں کی نشان دہی کی جائے جو ازدواجی زندگی کو خوش حال بنانے کے لیے ایک مثالی جوڑے کے اندر ہونی چاہئیں۔یہاں ہم مذکورہ اور دیگر واقعات کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک مثالی شوہر کسے کہا جا سکتا ہے۔

اس بات کو سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ مثالیت کا معیار ہر عورت کے لیے الگ الگ ہو سکتا ہے۔ مثلاً کوئی عورت اگر اپنی ذاتی ضرورتوں پر فضول خرچی کی عادی ہے، تو وہ اسی شخص کو اپنے لیے مثالی سمجھے گی جو اس کی ہر جائز و ناجائز ضرورت کو پورا کر دیا کرے۔ لیکن ہم ایسی کسی خوبی کو مثالی خوبی نہیں قرار دے سکتے۔ مثالی خوبیوں سے مراد صرف وہ خوبیاں ہو سکتی ہیں جو ایک مرد یا عورت کو بااخلاق، معتدل مزاج، خوش مزاج اور دوسروں کی جائز ضروریات کا خیال رکھنے والا ظاہر کرتی ہوں۔ یا ایک مثالی خاتون جن کو اپنے مثالی شوہر کے اندر دیکھنا چاہتی ہو۔

مذکورہ چند کہانیاں ہمیں ان خوبیوں کو سمجھنے میں کافی مدد ے سکتی ہیں۔

۱۔ جذباتی محبت و آسودگی

مذکورہ کہانیوں میں جو بات بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے وہ یہ کہ عورت اپنے شوہر کی محبت چاہتی ہے۔ وہ بجا طور پر یہ توقع رکھتی ہے کہ اس کا شوہر جس طرح دل میں اس کے لیے محبت کے جذبات رکھتا ہے اپنی زبان اور رویے سے اس کا اظہار بھی کرے۔ اگر عورت اس پہلو سے نا آسودہ رہ جائے تو بہت سے مسائل جنم لینا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ عورت اپنی اس جذباتی ضرورت کی تسکین کے لیے باہر کا سہارا لینے لگتی ہے۔ اور اگر اس کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے، یا اس کی عزت نفس اس کی اجازت نہیں دیتی ہے تو شوہر اور بیوی کے درمیان دراڑ پیدا ہونے لگتی ہے، جو آخرکار علیحدگی پر ختم ہوتی ہے۔

مشرقی معاشرے میں عام طور پر مرد اس بات کو اپنی مردانگی کے منافی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی سے محبت کے باوجود اس کا عملی اظہار کریں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے عورت کی نظر میں ان کی قدر کم ہو جائے گی۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بیوی سے محبت کے عملی اظہار کی ایک خاص عمر ہوتی ہے۔ جوانی سے گزر جائے اور بڑھاپے کی طرف جانے لگے تو اسے اپنے اوپر ’’سنجیدگی‘‘طاری کر لینی چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں رہبانیت کا اثر اپنے اندر پیدا کر لینا چاہیے۔ یہ درست رویہ نہیں ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کی سیر ت سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی بیویوں سے آخری عمر تک اتنی ہی محبت تھی جتنی ان سے شادی کے آغاز میں تھی۔ اور اپنے نبوی مشن کی مصروفیتوں اور عمر درازی کے باوجود ان سے محبت کے عملی اظہار میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ آپؐ کا اپنی بیویوں سے اظہار محبت کا معاملہ تو بڑا نرالا تھا۔ آپؐ ان کے ساتھ دل لگی فرماتے تھے، ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے اور اپنے ہاتھوں سے ازواج مطہرات کے منہ میں لقمے ڈالتے رہتے تھے۔ بلکہ آپؐ نے تو یہ بھی ترغیت دی ہے کہ کھانا کھانے کے بعد شوہر بیوی دونوں ایک دوسرے کی انگلیاں چاٹ لیا کریں، کیو ںکہ اس سے آپسی محبت بڑھتی ہے۔

عزت نفس کا احترام

مرد کی طرح عورت بھی خوددار اور عزت نفس کی مالک ہوتی ہے۔ اس لیے وہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس کی عزت نفس کی قدرکرے۔ بات بات پر اور گھر یا باہر، جہاں بھی موقع ملے ، اس کی عزت نفس کو تار تار نہ کرتا پھرے۔ دوسروں کے سامنے اسے ذلیل کرنا، اسے سخت سست کہنا اس کے نزدیک ایک مثالی شوہر کی عادت نہ ہونی چاہیے۔ انسانی جذبہ احترام کے پہلو سے بھی یہ ضروری ہے کہ مرد عورت کو پوری پوری عزت دے۔ گھر کو بنانے اور سنوارنے میں جتنا ہاتھ مرد کاہے، عورت کا بھی ہے۔ اس لیے احترام و عزت میں بھی دونوں کا حصہ ہونا چاہیے۔ جو عورت اپنے شوہر کے ساتھ پوری زندگی گزارنے کے لیے اپنے گھر بارکو، اپنے ان تمام لوگوں کو چھوڑ کر آ گئی ہو، جو اس کا خیال بھی رکھتے تھے، اس کی عزت بھی کرتے تھے، اس کی ضرویات کا خیال بھی رکھتے تھے، اگر شوہر کے گھر آکر اس کے برعکس دیکھنے ملاتو، گویا اس کا تو سب کچھ ختم ہوگیا۔اس کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ ایک پرائے گھر میں آنے کے بعد بھی اسے اپنے گھر جیسا ماحول مل جائے۔

گھر کے کاموں میں عورت سے مشورہ لینے کو بعض لوگ جہالت سمجھتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کے مشورے پر عمل کرنا عورت کی غلامی کر نا ہے، غلط ہے۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی پاک بیویوں سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ صلح حدیبیہ کا تو واقعہ بہت مشہور ہے کہ اللہ کے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کی بات نہ ماننے سے بہت پریشان تھے۔ لیکن پاک بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مشورے نے آپ کا بوجھ ہلکا کر دیا۔ آپ نے ان کے مشورے پر عمل کیا اور مسئلے کا صد فی صد حل نکل آیا۔یہ ضروری نہیں کہ اس کا ہر مشورہ قابل عمل بھی ہو، لیکن بہر حال مشورے کی قدر ہونی چاہیے۔

عورت یہ بھی چاہتی ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان گھر اور باہر کے کاموں کی تقسیم کے باوجود گھر کے ماحول پر ایسی سختی طاری نہ ہو کہ شوہر گھر کے کاموں میں کبھی بیوی کی مدد ہی نہ کرے۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے سے بھی ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر بیوی کچھ ضروری کاموں میں مصروف ہے، یا اس کے پاس وقت کی کمی ہے، تو مرد اس کے کاموں میں ہاتھ بٹا دے۔ اس سلسلے میں بھی اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ آج کے مقابلے میں اس وقت کے گھروں میں عورتوں کے لیے کام بھی بہت کم ہوتے ہوں گے۔ چھوٹے بچے بھی نہیں تھے کہ بیویاں ان کی دیکھ ریکھ میں مصروف رہتی ہوں۔ بلکہ اللہ کے رسولؐ ہی ازواج مطہرات سے زیادہ مصروف رہتے ہوں گے۔ اس کے باوجود جب آپؐ گھر پر تشریف لاتے تو ان کے کاموں میں ہاتھ بٹا دیا کرتے تھے۔

مزاج میں ٹھہراؤ

عورت اپنے مثالی شوہر کے اندر یہ خوبی بھی دیکھنا چاہتی ہے کہ اس کے مزاج میں ٹھہرائو اور استقلال ہو۔ وہ بات بات پرپل میں تولہ اورپل میں ماشہ نہ ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت میں وقار ہو۔ اور اس وقار کی وجہ سے باہر اس کی عزت ہو۔ عورت کو اپنے شوہر کی عزت اپنی عزت محسوس ہوتی ہے۔اسے ہر وقت یہ خطرہ نہ رہتا ہو کہ شوہر صاحب کسی بھی وقت طلاق کی تلوار نیام سے نکال کر اس پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ یامعمولی سے غصے والی بات پر بڑے بڑے فیصلے کرنے کا پروگرام بنانے لگتے ہوں۔ شوہر کے مزاج کی وجہ سے ہر وقت اسے گھر میں کسی نئے مسئلے کے پیدا ہونے کا خطرہ نہ رہتا ہو۔

جس طرح مرد اپنے دوستوں کے درمیان اپنی بیویوں کی خوبیوں اور خامیوں کا ذکر کرتے ہیں، عورتیں بھی اپنی مجلسوں میں اپنے شوہروں کا ذکر کرتی ہیں۔ اس کے مزاج اور اخلاق کا خاص طور سے ذکر کرتی ہیں۔ کوئی عورت اپنے شوہر کو اس کے مزاج اور اخلاق کی وجہ سے پسند کرتی ہو تو دوسری سہیلیاں، جو اس نعمت سے محروم ہوں، وہ اس پر رشک کرتی ہیں۔ وہ یہ سوچتی ہے کہ اس کا شوہر ایسے مزاج کا نہ ہو کہ اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی ماحول پر خوف کی ایک چادر سی تن جائے۔ بچے ایک جانب کو دبکے رہیں اور خود اس کو بھی شوہر کے مزاج کا خیال رکھنے کے علاوہ کوئی کام نہ رہ جائے۔

جنسی آسودگی

عورت کے لیے جس طرح جذباتی آسودگی ضروری ہے ، اسی طرح وہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اسے جنسی طور پر بھی مکمل آسودگی سے ہم کنار کرے۔ موجودہ دور میں خاص طور سے نوجوانوں کی اباحیت کی جانب رغبت اور اس کے برے نتائج نے بڑے مسائل پیدا کیے ہیں۔ پر سکون اور خوش گوار ازدواجی زندگی کے لیے یہ ضروری ہے کہ عورت کو اس پہلو سے مکمل آسودگی فراہم کی جائے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ازدواجی زندگی کا ایک اہم ترین مقصد دونوں کا ایک دوسرے کے ذریعے جنسی ضرورت کی تکمیل کرنا بھی ہے۔ شادی اس لیے کی جاتی ہے تاکہ مرد اور عورت اپنی جنسی ضروریات کو جائز طریقے سے پورا کر سکیں۔ لیکن اگر ایک کی ضرورت پوری ہو جائے اور دوسرے کی نہ ہو، تو اس سے شادی کا مقصد بھی پورا نہیں ہوتا، اور عورت کے لیے بہت سے ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ بعض رشتوں میں محض اسی کی وجہ سے علیحدگی کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔اس سلسلے میں ایک صحابی کا واقعہ بڑا مشہور ہے کہ انھوں نے رات بھر عبادت کو اپنا مشغلہ بنا لیا تھا۔ساری ساری رات عبادت کیا کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی بیوی اپنی حق تلفی محسوس کرنے لگی۔ اس کی جائز ضروریات کی تکمیل رک گئی۔ اس لیے وہ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اس سلسلے میں شکایت کی۔ آپؐ نے ان صحابی کوبلایا اور ان کو ہدایت کی کہ عبادت کریں لیکن اس طرح کہ بیوی اور گھر کے دوسرے لوگوں کا حق نہ مارا جائے۔ آپؐ نے ان سے فرمایا کہ تم پر تمھارے جسم کا بھی حق ہے، تمھاری بیوی کا بھی حق ہے۔ اس لیے ان سب کے حقوق کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔

فراخ دستی

مثالی شوہر کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ فراخ دست ہو۔ یعنی گھر اور بیوی کی جائز ضرورتوں کو نہ صرف معلوم رکھتا ہو بلکہ انھیں پورا کرنے میں بخل سے کام نہ لیتا ہو۔ جس طرح اپنی ضرورتوں پر خرچ کرتا ہے ، بیوی کی ضرورتوں پر بھی خرچ کرے۔ اسلامی تعلیمات میں بیوی کی جائز ضرورتوں پر خرچ کرنے کو صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بیوی پر خرچ کرنا نہ صرف ایک سماجی ضرورت ہے بلکہ باعث ثواب و اجر بھی ہے۔عورت کی یہ خواہش بالکل جائز ہے کہ شوہر اسے یہ احساس نہ ہونے دے کہ وہ اپنی ذات پر جس طرح خرچ کرتا ہے،اس پر خرچ نہیں کرتا۔مثالی شوہر اگر کسی وجہ سے وقتی طور پر خرچ کرنے کی کوشش میں نہیں ہے تو اس کے بارے میں بیوی کو اعتماد میں لیتا ہے۔

زیب و زینت

بننے سنورنے کے تعلق سے عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو صرف عورتوں کا کام ہے۔ حالاںکہ عورت کی خواہش معلوم کی جائے تو وہ یہی کہے گی کہ اس کے لیے مثالی شوہر کی ایک صفت یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے بن سنور کر رہے۔ زیب و زینت عورت کی طبیعت کا حصہ ہے۔ لیکن یہ صرف اپنی زینت تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ شوہر کی زینت بھی اس کی طبیعت میں شامل ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ جس طرح وہ خود کو شوہر کے لیے بنا سنوار کر رکھے ، اسی طرح شوہر بھی اس کے لیے بن سنور کر رہے۔ دونوں کا ایک دوسرے کے لیے زیب و زینت اختیار کرنا آپسی رشتوں کی مضبوطی کے لیے بنیاد فراہم کرتاہے۔ اس کا اندازہ تاریخ کے ایک واقعے لگانا آسان ہو سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک عورت آئی اور بولی کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی شکایت سن کر اسے حل کرنے کی یقین دہانی کرائی اور حقیقت مسئلہ کو سمجھنے کے لیے اس کے شوہر کو بلوایا۔ تھوڑی دیر میں ایک شخص آپ کے پاس آیا جس کے بال گندے اور بکھرے ہوئے تھے۔ کپڑے بھی صاف نہیں تھے۔ دیکھنے میں کسی پاگل کا سا حلیہ لگتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص کا حلیہ دیکھ کر سمجھ گئے کہ عورت اس کے ساتھ کیوں نہیں رہنا چاہتی۔ انھوں نے اس شخص کے لیے نئے کپڑوں کا انتظام کرنے کا حکم دیا ، اور یہ بھی حکم دیا کہ اس کے بال وغیرہ ترشوا کر اس کا حلیہ درست کر دیا جائے۔ اس کے بعد اس سے کہا گیا کہ نہا کر یہ نئے کپڑے پہن لے۔ پھر دوبارہ اس کی بیوی کو بلوایا گیا۔ وہ آئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کو اس عورت کے ساتھ کر دیا۔ عورت پہلے تو اسے دیکھ کر ٹھٹھکی کہ امیر المومنین نہ جانے کس غیر مرد کے ساتھ اسے روانہ کر رہے ہیں۔ لیکن جب اس نے اپنے شوہر کی صورت کو غور سے دیکھا تو خوشی خوشی اس کا ہاتھ تھاما اور گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔

عورت کپڑو ں اور پہناوے کے معاملے میں ایک خاص نفسیات رکھتی ہیں۔ کسی خاص گھر یا علاقے سے متعلق ایک تقریب میں جو کپڑے پہنے ہوں، وہاں کی دوسری کسی تقریب میں ان کپڑوں کو نہیں پہنتیں۔ کوئی پہن کر آجائے تو دوسری عورتیں فوراً پہچان لیتی ہیں اور آپس میں چہ میگوئیاں کرتی ہیں کہ فلاں تقریب میں اس نے یہی کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس لیے وہ اس معاملے بہت احتیاط سے کام لیتی ہیں۔ مرد اس معاملے میں بہت لاپروا ہوتے ہیں۔ انھیں تو یہ تک یاد نہیں رہتا کہ انھوں نے کیا پہنا تھا۔ لیکن بیویاں یاد رکھتی ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ پہناوے کی تکرار نہ ہو۔ اس معاملے میں حتی الامکان اگر ان کی خواہش کا خیال رکھا جائے تو شاید اس میں کوئی حرج نہیں۔تقریب وغیرہ کے مواقع پر شوہر اپنے کپڑوں کے انتخاب میں بیوی کی خواہش اور مشورے کی قدر کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں