30 روپے کی مہنگی کتاب اور 499 کا سستا پزّہ

شمشاد حسین فلاحی

پڑھنا ایک اچھی عادت بھی ہے اور ہر پڑھے لکھے انسان کی ضرورت بھی۔ ہر پڑھے لکھے انسان کو پڑھنا چاہیے۔ خوب اور خوب پڑھنا چاہیے، کہ یہ انسان کے ذہن وفکر اورروح کو صحت مند بناتا ہے۔ آدمی ایک مادی وجود ہے جو خیروشر کا مجموعہ ہے اور انسان آدمی کا اخلاقی و روحانی وجود ہے جس میں خیر اور بھلی خوبیاں ہوتی ہیں اور دونوں کے درمیان صرف کتاب کا فاصلہ ہے۔

کتاب پڑھنا آدمی کو انسان بناتا ہے اور اس کی ز ندگی کو نکھارتا ہے۔ کتابیں پڑھنا اور اچھی کتابیں پڑھنا انسان کو انسانیت کی معراج پر پہنچانے اور علم و فکر کو ترقی دینے کا ذریعہ ہے۔ کتابیں پڑھنے کا شوق ایک جلد سازی کرنے والے معمولی مزدور کو مفکر اور انسانیت کا رہنما بناکر اس کا نام تاریخ میں درج کروانے کا ذریعہ ہے۔

ہر پڑھے لکھے انسان کو خوب پڑھنا چاہیے مگر نوعمروں کو اور طلبہ و نوجوان لڑکے لڑکیوں کو تو بہت پڑھنا چاہیے۔ اتنا پڑھنا چاہیے کہ ہر وقت پڑھتے رہیں، شعور اور سمجھ کے ساتھ اور اچھی، مفید اور معلوماتی کتابوں سے۔ اتنا پڑھنا چاہیے کہ دنیا کے ہر موضوع پر وہ مستند معلومات اور پورے اعتماد کے ساتھ بحث میں حصہ لے سکیں۔ ہمارے ایک مربی اور استاد بچپن میں ہم لوگوں کو پڑھنے کا شوق دلاتے ہوئے کہتے تھے کہ ایک طالب علم کو کم از کم ڈیڑھ سو موضوعات پر اس طرح تیار ہونا چاہیے کہ اگر اسے اسٹیج پر کھڑا کردیا جائے تو وہ کم از کم دس منٹ برجستہ اس موضوع پر بول سکے جو اسے دیا گیا ہے۔ یہ تو شوق دلانے کے لیے کہا گیا ہے مگر جو حقیقت ہے وہ یہ ہےکہ ایک طالب علم کو ہمیشہ اپنے آپ کو مفید، معلوماتی اور سنجیدہ مطالعے میں مصروف رکھنا چاہیے اور اپنی عمر کے اس حصہ کا ایک لمحہ بھی فضول اور بے کار باتوں اور کاموں میں نہیں لگانا چاہیے۔

ہمارے معاشرے اور تعلیمی نظام نے ہمیں علم سے جان بوجھ کر دور کیا ہے اور ایسا نظام تعلیم رائج کیا ہے جو ہمیں صرف روزگار کے لیے علم فراہم کرتا ہے اور ایسے میں زندگی کے لیے علم حاصل کرنا، بہت پیچھے چھوٹ جاتا ہے اور حقیقت میں چھوٹ گیا ہے۔ اس حقیقت سے نہ ہمارے اساتذہ آگاہ ہیں اور نہ والدین۔ جب ایسا ہو تو طلبہ و نوجوانوں کا کیا قصور کہ وہ محض تعلیم برائے روزگار ہی کو علم سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہمارے اساتذہ اور والدین نے اپنے بچوں اور طلبہ کو کبھی یہ بتانے کی کوشش ہی نہیں کہ حقیقی علم وہ ہے جو زندگی جینے کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ روزگار کے لیے حاصل کیا جانے والا علم تو اس کا بس ایک حصہ ہے، بہت چھوٹا سا حصہ، جسے علم تصور کرلیا گیا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ والدین خود نہیں پڑھتے اور اپنی زندگی کو کتاب سے کاٹے ہوئے ہیںاور اساتذہ خود نہیں جانتے کہ علم کیا ہے اور اس کی وسعت کتنی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے گھر مطالعے اور پڑھنے کی عادت سے دور ہوگئے، پڑھنا صرف اسکول اور کالج جانے والے بچوں کا کام رہ گیا اور کتابوں کے نام پر صرف وہی کتابیں رہ گئیں جو ان کے نصاب کا حصہ ہوں، یا علم برائے روزگار میں مدد دیں۔ کتابیں نہ پڑھنے کے نتیجے میں ہی کتابیں خریدنے کا رجحان پہلے کم ہوا اور پھر ختم ہوگیا۔ گھر کا کوئی کونا بھی کتابوں کے لیے مخصوص بنانا اب نہیں ہوتا۔ تحفے تحائف میں اب کتابیں دینے کا نہ تو رواج رہا اور نہ ہی ان کی وقعت اور اہمیت رہی۔ زندگی بنانے والی چیز کے مقابلے جسم کو سجانے والی اور کھانے پینے کی چیزیں تحفے تحائف میں اہمیت حاصل کرگئیں۔ فکر اور روح کی غذا کی اہمیت کم اور پیٹ کی غذا کی اہمیت بڑھ گئی۔ اب دوستوں اور رشتے داروں کے بچوں کے لیے ہم اچھی کتابیں یا رسالے اور میگزین لے کر نہیں جاتے اور نہ ہی اس کی ہمت کرپاتے ہیں۔ مہمان داری میں جاتے وقت ’خالی ہاتھ جانے کے طعنہ کا خوف‘ ہوتا ہے تو ہم اس گھر کے بچوں کے لیے چاکلیٹ خرید کرلے جاتے ہیں۔ ہمارے رویے تبدیل ہوگئے ہیں اور ہوتے جارہے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو بیس روپے کی چاکلیٹ اور تیس روپے کی آئس کریم ایک بار کہنے پر پڑوس کی دکان سے یوں ہی دلادیتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ 499 روپے کا پزّہ ہمیں سستا لگتا ہے اور ہم آرڈر کرکے بچوں کو شوق سے کھلاتے ہیں اور کھلا کر احسان جتاتے ہوئے کہتے ہیں’’آج تمہارے لیے پزہ آرڈر کیا تھا نا! آج ایک گھنٹہ زیادہ پڑھنا ہے۔‘‘ کیا پڑھنا ہے؟ وہی روزگار کا علم اور چند نصابی کتابیں جو آپ کے بچے کو کسی بڑے سرمایہ دار کا کامیاب نوکر بنادیں۔

499 روپے کا پزہ اور 99 روپے کا برگر سستا لگتا ہے اور تیس سے پچاس روپے کی قیمت کی کتاب یا میگزین مہنگی لگتی ہے۔ یہاں ہم بچوں کو پزہ اور برگر کھلانے کی مخالفت نہیں کررہے ، بلکہ سوال ہماری ترجیحات کا ہے۔ جب بیس سے پچاس روپے کی کتاب مہنگی اور 499 روپے کا پزہ سستا معلوم ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی میںہماری ترجیحات نہ صرف تبدیل ہوچکی ہیں بلکہ تباہ و برباد ہوگئی ہیں، اور ہم علم کا شوق کھو کر پیٹ اور زبان کی لذت کے غلام ہوتے جارہے ہیں۔ آب زمزم پی کر اور کھجور کھار کر جینے کی لذت کھوچکے ہیں، جو ہمیں دنیا کی قیادت کرنے کے لائق بناتی تھی۔ ایسےسماج میں صرف غلام اور نوکر پیدا ہوں گے۔ قائدین، مفکرین، انسانوں کے رہنما اور انسانیت کی خدمت کرنے والے سائنس داں اور نئی نئی ایجادات کرکے علم و فن کی دنیا میں نام روشن کرنے والے لوگ کہاں سے پیدا ہوں گے۔ سوچئے اپنے رویوں، ترجیحات اور فکر کے بارے میں!!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں