جنسی جرائم میں بچوں کی شرکت

ناز آفرین

ایک طرف سارے ملک میںصنف نازک کے تحفظ کے لیے حکومت نئی نئی تدبیریں عمل میں لارہی ہے ۔دوسری طرف ان کے ساتھ ہونے والے ناروا اور وحشیانہ سلوک نے کئی ایشوز کھڑے کر دئیے ہیں۔ ترقی یافتہ دور کا یہ تنزل اور نئی قانون سازی کے دور کی لاچاری تشویش ناک ہے۔ ان میں دنیا کی آدھی آبادی یعنی خواتین ،لڑکیاں اور بچیاںمتاثرین میں شامل ہیں ۔یہاں ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ایک رپورٹ کے حوالے سے اہم نکات پیش کیے جا ر ہے ہیں۔

ملک عزیز میں 2004؍ کی رپورٹ کے مطابق 29؍ منٹ میں ایک عصمت دری، ہر 15؍ منٹ میں چھیڑ چھاڑ ،ہر 23؍ منٹ میں ایک اغوا اور ہر 75؍ منٹ میں جہیز کے لالچ میںا یک عورت کا قتل کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت جتنی تلخ ہے اتنی ہی تشویش ناک بھی ہے۔

کم عمر بچوں کے ذریعے انجام دئیے جانے والے جرائم میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہو رہا ہے۔ Natioanal Crime Record Beureuکی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2003ء میں جہاں 33,320؍معاملات سامنے آئے ہیں ،وہیں سال 2014ء میں ان کی تعداد 42,566؍ تک پہنچ گئی ہے ۔قابل افسوس اور شرم ناک بات یہ ہے کہ جنسی زیادتی کے معاملوں میں 30%کا اضافہ ہوا ہے۔ اور اس میں نابالغوں کے جرائم کا تناسب حیرت انگیز اور تشویش ناک ہے۔ سال 2014ء میں جنسی زیادتی کے 2144 ؍معاملے صرف نابالغوں کے ذریعے انجام دئیے گئے ہیں۔ان ملزمین پر مقدمہ بھی دائر کیا گیا، جب کہ سال 2003ء میں نابالغوں پر جنسی زیادتی کے 535؍معاملے درج کیے گئے تھے۔

نربھیاسانحہ کے بعد جرم میں دوگنا اضافہ

سال 2012ء میںنربھیا حادثہ میں نابالغ کے ذریعہ کی گئی وحشیانہ حرکت کے بعد ہی نابالغوں کے لیے بنائے گئے قانون میں ترمیم کی مانگ شروع ہوئی لیکن اس کے بعد جو رپورٹیں سامنے آئیں ان میں جنسی زیادتی کے معاملات میں 2014ء میں تقریباً دوگنا اضافہ نوٹ ہوا ہے ۔NCRB کی رپورٹ کے مطابق سال2014ء میں صرف زنا بالجبرکے 2144؍معاملوں میں 18؍سال سے کم عمر والوں کے نام درج کیے گئے ۔ان میں سے 1488؍معاملوں میں مجرموں کی عمر 16 ؍سال سے 18؍سال کے درمیان تھی۔ وہیں اس جرم میں سال 2012ء میں 1316؍ نابالغوں کو زنا کے بعد مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

نابالغوں کی سزا اور قانون

٭ہر ملک میں جنسی جرائم میں ملوث ملزمین کوسزا دینے کے طریقے میں تھوڑا فرق ہے ۔ ہندستان میں 18 ؍سال سے کم عمر کے لوگوں کو نابالغ قرار دیا جاتا تھا اب 16؍ سال کر دیا گیا ہے ۔ان کو جو سزا دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ صرف تین سال جیل میں بتانے پڑتے ہیں۔ وہ بھی اس غرض سے کہ ان کی اصلاح ہو جائے اور وہ جرم سے باز آ جائیں ۔ادھر چند برسوں میں نابالغوں کی شمولیت نے حکومت کو قانون میں ترمیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس ترمیم کے مطابق اگر 18 ؍سال سے کم عمروالے نابالغ کسی سنگین جرم میں شامل ہیں تو ان کی گنتی نوجوان کے طور پر کی جائے گی ۔

٭امریکہ میں سنگین جرم میں زیادہ تر صوبوں میں مجرمین کی عمر تقریباً 13-15 ؍سال کے درمیان ہوتی ہے۔ سنگین معاملوں میں بچوں کی عدالت سے مقدمہ عام عدالت میں منتقل کر دیا جاتا ہے ، جب کہ انڈیانا ،ساوتھ ڈکوتااور ورمانٹ میں سنگین جرائم کرنے والوں کی عمر کا تعین 10 ؍سال مقرر کیا گیا ہے ۔وہاں 18 ؍سال سے بھی کم عمر مجرمین کے لیے عمر قید کی سزا مقرر ہے ۔

٭برٹین میں 18 ؍سال سے کم عمر کے مجرمین کے لیے الگ عدالت ہے ۔وہاں قتل، جنسی زیادتی جیسے سنگین جرائم میں مقدمہ عدالت عام میں منتقل کر دیا جاتا ہے اور ملزمین کو جرم ثابت ہونے کے بعد سزا بھی دی جاتی ہے ۔

٭چین میں 16 ؍سال کے بچوں کو سنگین جرائم میں جان بوجھ کر شامل ہونے پر مجرم شمار کیا جاتا ہے۔ حالا ں کہ 14؍سے 18 ؍سال کے ملزمین کو بڑوں کے مقابلے میں آسان اور ہلکی سزائیں دینے کے قانون پر عمل کیا جاتا ہے۔

٭فرانس میں نابالغ کی عمر 16 ؍سال تک ہے۔ یہاں بچوں کے لیے الگ عدالت ہے ۔سال 2002ء میں فرانس نے اپنے قانون میں ترمیم کر کے یہ سختی برتی ہے۔

٭سعودی عرب میں قتل اور زنا جیسے سنگین جرائم میں کوئی رعایت نہیں کی جاتی ۔وہاں ان واردات میں ملوث ملزمین کو بالغ ہو یا نابالغ اس جرم کے لیے موت کی سزا دی جاتی ہے ۔

12 ؍سال سے16 ؍سال کے مجرمین:

Natioanal Crime Record Beureuکے 2014ء کی تحقیق کے مطابق گزشتہ سال 12 سے 16سال کی عمر کے کل 10,534 ملزمین کوگرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں 10,258لڑکے اور 276لڑکیاں شامل ہیں ۔ ان میں 504لڑکے قتل یا اس کی کوشش کے جرم میں گرفتار کیے گئے ۔ پچھلے سال 12 سے 16 سال کی 13لڑکیوں کو اسی کوشش کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

اب تک جنسی زیادتی کے معاملوں میں جو رپورٹیں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ہر ریاست میں روزانہ 24گھنٹے کے اندر چار خواتین کو زنا بالجبر کا شکار ہونا پرتا ہے۔ان معاملوں کو روکنے کے لیے قومی اور ریاستی سطح پر مسلسل قانون بنائے جا رہے ہیں ۔کسی حد تک ان قوانین پر عمل بھی کیا جا رہا ہے لیکن رپورٹ جو سچ پیش کر رہی ہے اس کا جواب نہ تو حکومت دے سکتی ہے اور نہ ہی کوئی بورڈ؟

خواتین و لڑکیوں کی تحفظ کے لیے ریاستی سطح پر تحفظ اکائی کے علاوہ خواتین کے سیل اور بہت سارے ہیلپ لائن نمبر بھی موجود ہیں جو فوری اقدامات کے لیے متعین کیے گئے ہیں ۔یہ ساری سہولتیں اس لیے خواتین کو مہیاکرائی جا رہی ہیں کہ سانحہ کی رپورٹ درج کی جا سکے۔ لیکن ان تمام کے باوجود حادثات کی رپورٹ کو درج کرانے میں متاثرین کوکافی پریشانی ہوتی ہے اور کتنے ہی حادثات رپورٹ میں نہیں آپاتے۔ جب کہ اگر حفاظتی اقدامات کرنے والی ایجنسیاں اگر چاک و چوبند رہتے ہیں اور متاثرین کو بروقت انصاف ملے تو اس طرح کی وارداتیں خصوصاً زنا بالجبر کے واقعات میں بہت جلدکمی آئے گی ۔

دہلی کی حکومت قتل اور زنا جیسے سنگین جرم میں ملوث نابالغوں کی اوسط عمر کی حد 15 سال کرنے کی وکالت کررہی ہے ، جب کہ لوگ سبھا میں بچوں کے قانون میں ترمیم بل 2014پاس ہو چکا ہے ۔ نئے قانون کے مطابق اب نابالغ کی عمر 18 سال کی جگہ 16سال مانی جائے گی ۔ اس فیصلے کو بھلے ہی ابھی قانونی شکل نہ دی جا سکی ہو لیکن NCRBکے ڈاٹا کے مطابق نابالغوں کے ذریعے انجام دئیے جا رہے ہیں جرائم کو روکنے کے لیے اسے جلد قانون بناناہوگا ۔

گھریلو ںناچاقی کی بڑھتی وارداتوں اور خود کفیل بننے کی چاہت میں ہندستان میں تنہا رہنے والی خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ان میں غیر شادی شدہ ، بیوائیں اور مطلقہ شامل ہیں ۔National Forum for Single Women کی President نِرمل چندیل کی رپورٹ2011ء کے مطابق ،ازدواجی زندگی میں نباہ نہیں ہونے کی وجہ سے خواتین تنہا رہنا زیادہ پسند کر رہی ہیں۔اس کے علاوہ اپنے کیریر کو بہتر بنانے کا خواب بھی صنف نازک کو تنہائی کے حوالے کرنے میں اہم رول ادا کر رہا ہے ۔ گذشتہ دس برسوں میں تنہائی کی شکار ہوئی خواتین کی تعداد 39فیصد بڑھی ہے ۔ اکیلی رہنے والی خواتین کی تعدا د 2011ء میں 7.11کروڑ تھی ۔ تنہائی پسند کم عمر لڑکیوں کی تعداد تقریباً 1.70کروڑ ہے۔ ان میں 20-24سال اور 25-29سال والوں کی اکثریت ہے ۔ 60-64سال کی خواتین بھی بالکل اکیلی رہتی ہیں ۔موجودہ صورت حال یہ ہے کہ صرف اتر پردیش میں 1.20کروڑ خواتین ہیں۔ دوسرے نمبر پر تنہا رہنے والی خواتین کی تعداد 62 لاکھ صرف مہا راشٹر میں ہے۔ اسی طرح آندھرا پردیش میں تقریباً 47.0لاکھ خواتین تنہائی میں مبتلا ہیں۔ lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں